Buy website traffic cheap

آسمان زیر زمیں

آسمان زیر زمیں

آسمان زیر زمیں
میرافسر امان
آسمان کو زیر زمیں کرنے والے منفرد شاعر محمدنعیم ملک صاحب جن کاادبی نام نسیم ِ سحر ہے واقعی ہی آسمان کو اپنے کلام سے زیر زمیں کیا ہے۔ وہ اپنی کتاب” آسمان زیر زمیں“ کے صفحہ۴۸ پر اپنے ایک شہر میں فرماتے کہ:۔
اتر کر پستیوں میں ہم نے جانا
بہت سے آسماں زیر ِ زمیں ہیں
ہم نے قرآن شریف میں شعرا ءکے متعلق یہ پڑھا تھا کہ شعرا ءحضرات مختلف وادیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں،یعنی شایدانہیں قافیہ سے ردیف کو ملانے کے لیے خلاف واقعہ حقائق لکھنے پڑھتے ہیںاور مبالغہ سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ قرآن تو ہے ہی حقیقت بیان کرنے والا۔ اس لیے ہمیں ایسی شاعر ی سے کوئی خاص لگاﺅ نہیں رہا۔ لیکن جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ حسان بن ثابتؓ رسول اللہ کی شان میں شعر کہتے تھے۔ کفار اپنے شعروں میںرسول اللہ کی شان میںگستاخیاں کرتے تھے۔ جبکہ حسان ؓبن ثابت اپنے اشعار کے ذریعے رسولاللہ کا دفاع کرتے تھے۔ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلہ اللہ علیہ وسلم حضرت حسان ؓبن ثابت کے شعروں کو پسند کیا تھا۔ تو معلوم ہوا کہ حقیقت بیان کرنے والے شعرا ءکو پڑھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ پھر ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اسلام کا دفاع کرنے، حالی، اکبر الہ آبادی اور شاعر اسلام حضرت شیخ علامہ محمد اقبال ؒ جو قرآن اور حدیث کو اپنی شعری میں بیان کرتے ہیں، تو پھر کیسے ،ایسی شاعری سے رغبت پیدا نہ کی جائے۔ ہمیں برصغیر کے شعرا ءجو صرف عورت کے نین،بال، رخسار،قد، حسن اور انگور کی بیٹی ، شباب اور کباب کے اردگرد اپنی شعری کومرکوز رکھنے والوں سے دُور کا واسطہ بھی نہیں رہا۔ اس میں شاعری کا قصور نہیں بلکہ شعر اءکا قصور ہے جو چھوٹے بڑے ذہن کے ہوتے ہیں۔ شاعر تو وہ ہی کامیاب ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات کو اپنے شعر وں میںسمیٹے ہیں۔ ایسے شاعر بڑے ظرف والے ہوتے ہیں جن میں یقیناً نسیم سحر شامل ہیں۔
حسن اتفاق کہ علمی و ادبی ہفتہ وارنشست قلم کاروان اسلام آباد کی ایک نشست میں ،ایک جدید شاعر اور نثر نگار جناب نسیمِ سحر نے اپنی کتاب” آسمان زیر ز میں “ہمیں عنایت فرمائی۔ اس کتاب کاہم نے مطالعہ کیا اور اپنے حساسات اور جذبات قارائین کی نظر کر رہے ہیں۔ قلم کاروان کی یوم پاکستان کے حوالے سے شعری نشست میں شعراءنے اپنا اپنا کلام سنایا۔ اس نشست کے صدر نشین جناب نسیم سحر تھے۔ ایک بڑا شاعر ہونے کے باوجود نسیم سحر ، مجھے ایک سادہ ، محبت کرنے والا اور پروقار شخص محسوس ہوا۔ نسیم سحر درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں جن میں شاعری اور نثر شامل ہے۔وہ کئی سال ملازمت کے سلسلے میںسعودی عرب میں مقیم رہے۔ وہاں ادبی اور سماجی و ثقافتی تنظیموں سے منسلک رہے۔ جن میں” دائرہ ادب“ جدہ کے جنرل سیکر ٹیری اور”عالمی اُردو مرکز“ جدہ کے اساسی رکن،بانی اور جنرل سیکرٹیری رہے۔ سعودی عرب اور پاکستان سے بیک وقت ایک سہ ماہی ادبی مجلہ” سحاب“ جاری کیا۔ اب وہ پاکستان ،اپنے وطن میں ہیں اور شاعری فرما رہے ہیں۔ کئی ادبی و قومی اداروں کی طرف سے انعامات، اعزازات اور ایوارڈ، جس میں سرے فہرست، نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہے، سے” اقبال گولڈ میڈل“ بدست ڈاکٹر قدیر خان صاحب وصول کر چکے ہیں۔نسیم سحر صاحب رولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے اور اب اسلام آباد اور راولپنڈی کی علمی اورادبی محفلوں میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ اِس وقت بھی جدہ، دمام،الخبر، طائف،بحرین وغیرہ کے بہت سے شعراءاپنے کلام پر نسیم سحر سے بذریعہ ای میل اور ٹیلیفون اصلح لے رہے ہیں۔نسیم سحر نے مشاعروں میں شرکت کے لیے مختلف ملکوں کے سفر بھی کیے ہیں۔نسیم ِ سحر کا شاعرانہ ادبی پس منظر یہ ہے کہ ان کے نانا پنجابی کے شاعر تھے۔ان کے ماموں پاک و ہند کے ایک معروف شاعر مانے جاتے تھے۔ ان کے سسر شاعر، نقاد اور پی ٹی وی کے لیے تقاریر لکھنے کے حوالے سے مشہور تھے۔یوں انہیں ابتداءسے ہی علم و ادب اور شاعری کا ماحول میسر آیا ۔اور وہ خود ایک کامیاب شاعر ثابت ہوئے۔”آسمان زیر زمیں“ کتاب در اصل ان کی شاعری اور نثرپر لکھی گئی درجنوں
کتابوں،جن میںحمد، نعت ، غزل،نظم، نثر،افسانہ، ہائیکو ،ماہیے خاکہ نگاری،تنقید،تبصرے اور مزحیہ شاعری پر مشتمل کلام کا نچوڑ ، یعنی کوزے میں دریا بند کرنا ہے۔ان کتب میںپہلی اُڑان،ہر بوند سمندر،روشن دان میں چڑیا اور نعت نگینے( حمدو نعت) اور دوسری کتب کے شعر شامل ہیں۔ اس کتاب کوان کے مداع جناب خاور عجاز صاحب نے مرتب کیا ہے۔اس طرح نسیم سحر کے سارے کلام کا نچوڑ اس کتاب میں جمع کر دیا گیا ہے۔
کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہو کر لفظ” شہر“ کو اپنے کئی اشعار میںاستعمال کیا ہے۔ہمارے نذدیک اس ماحول کو اپنے شاعری میں ایک” شہر“ تصور کر کے اس پر دُکھ اور غم کا اظہار کرتے ہے۔ اپنی شعری کے ذریعے لوگوں کو بیٹھ جانے کے بجائے اُوپر اُٹھاتے ہیں اور جد وجہد کرنے پر اُکساتے ہیں۔ وہ اپنے شعر میں بیان کرتے ہے کہ پریشانیوں اور مشکلوں میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے ورنہ مشکلوں میں انسان دب کر رہ جائے گا پھر اس سے نکل نہیں سکے گا۔ اس طرح وہ انسان کو حوصلہ دیتے ہیں کہ مشکلوں کے حل کے لیے کوشش کرنی چاہےے۔ بیٹھ نہیں جانا چاہےے
وہ اپنے ایک اور شعر میں کہتے کہ انسانوںکو آسانیوں کی آس تب رکھنی چاہےے جب ان کے لیے جدو جہد بھی کریں۔ اگر لوگ اپنی قسمت بنانے کے لیے کسی آسانی کی صرف آس لگائے بیٹھے بھی رہیں اور جدوجہد اور تدبیریں نہ کریں اور اگر قدرت اُنہیں کبھی آسان وقت مہیا کر بھی دے تو اس سے کوئی فائدہ بھی نہیں اُٹھا سکےںنگے۔کیونکہ انہوں نے شکست تسلیم کر رکھی ہے ۔ شکست خردہ لوگ اچھے وقتوں سے بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ان کی پیشانیوں پر بے ہمتی لکھی ہوئی ہے۔ وہ آگے بڑھنے کی ہمت ہار بیٹھے ہیں۔جب تک وہ اس کیفیت سے نہیں نکلیں نگے۔ کسی آسانی سے فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے
نسیم سحرکے سارے شعری مجموں میں کہیں بھی عورت اُس کے حسن، شراب کباب اورکم ستہی سوچ کا کوئی دخل نہیں۔ ہاں نسیم سحر کی شاعری میں حمد، نعت اور امیدوں سے بھرا کلام ضرور نظر آتا ہے۔ لوگوں کو اللہ پر بروصہ، رسول اللہ سے عشق اور اُن کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے کی تلقین اور بے ہمت لوگوں حوصلہ دیتے نظر آتے ہیں۔غر ض نسیم سحر اُمید کے شاعر ہیں بلکہ قومی شاعر ہیں۔ ادبی اور علمی لوگوں کو ان کی عالمی معیار کی کتاب”آسمان زیر زمیں“ جسے مجلد اور خوبصور ت کیٹ اپ کے ساتھ، دنیائے اُردو پبلی کیشن ،روالپنڈی نے شائع کیا ہے، کاضرور مطالعہ کرنا چاہےے۔