Buy website traffic cheap


اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وفاق کی علامت سمجھے جانے والے 13ویں صدر کا انتخاب

شہباز سعید
عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعددو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) بالتریب پہلے اور دوسرے نمبر پر رہیں۔جس کے بعد دونوں جماعتوں نے ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملا کرایوان میں ایک مضبوط حزب اختلاف کا اتحاد بنالیا۔اور قومی اسمبلی میں قائد ایوان منتخب ہونے سے پہلے حزب اختلاف کے اتحاد نے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاج بھی شروع کر دیاتھا لیکن یہ اتحاد ایوان میں سپیکر کے انتخاب تک متحد ہی چل سکا۔ اپوزیشن کا گرینڈ الائنس اس وقت منقسم ہو اجب مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپنے صدر شہباز شریف کو قائد ایوان کا امیدوار نامزد کیا گیا،جس پر اتحادی جماعت پی پی پی نے اعتراض اٹھایا اور قائد ایوان کا امیدوار تبدیل کرنے کا مطالبہ کردیا لیکن لیگی قیادت کی جانب سے اس مطالبے کو رد کردیا گیا اوع یوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اختلافات بڑھنے لگے ،قائد ایوان کا انتخاب ہوا لیکن پی پی پی ارکان نے اپوزیشن اتحاد کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ کاسٹ نہ کئے۔جس کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں کے راستے مزیدجدا ہونا شروع ہوگئے۔اب اگلامرحلہ صدرِ مملکت کے انتخاب کا تھا ۔اس مرحلے میں بھی اپوزیشن اتحاد میں صدارتی امیدوار کیلئے کھینچا تانی جاری رہی۔کیونکہ مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی کی جانب سے اعتزاز احسن کے بطور صدارتی امیدوار پر اعتراض کیا توپیپلزپارٹی اعتزاز کے نام پر ڈٹ گئی۔لیکن مسلم لیگ (ن) اپنے اصولی موقف پر قائم رہی۔نتیجہ یہ نکلا کہ (ن) لیگ کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کو اپوزیشن کا صدارتی امیدوار نامزد کردیا گیا۔اب ایک سے بھلے دو والا مقولہ صاد آیا۔اپوزیشن اتحاد توٹ پھوٹ کا شکار ہوکر رہ گیا۔ کیونکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی زد پر اڑی ہوئی ہیں،جس کا براہ راست فائد ہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کو ہوا۔صدارتی انتخاب میں ڈاکٹر عارف علوی کا پلڑا اپوزیشن کے دونوں امیدواروں اعتزاز احسن اور مولانا فضل الرحمان سے بھاری نظر آرہا ہے۔
قارئین! پاکستان کے موجودہ صدرِمملکت ممنون حسین کی مدت صدارت 8 ستمبر 2018 ءکو ختم ہورہی ہے۔ جبکہ ملک کے 13 ویں صدر کے لیے انتخاب آج صبح دس بجے پارلیمنٹ ہاﺅس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہوگا۔صدارتی انتخاب کے لیے تین امیدوار میدان میں ہیں اور بیلٹ پیپر پر پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن کا نام پہلے نمبر پر موجود ہے جب کہ تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی دوسرے اور 5 اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار مولانا فضل الرحمان کا نام تیسرے نمبر پر درج ہے۔ اپوزیشن اختلافات نو منتخب حکومت کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہورہے ہیں، اپوزیشن کی تقسیم سے حکومت مزید مستحکم ہوگی اور اپنی پالیسیوں پر چلنے میں کامیاب رہے گی۔
صدارتی انتخاب کی بات کی جائے توتحریک انصاف قومی اسمبلی اور دو صوبوں میں اکثریت رکھتی ہے جبکہ بلوچستان میں پی ٹی آئی مخلوط حکومت میں شامل ہے اور سینیٹ میں بھی اسے اتحادیوں کا تعاون حاصل رہے گا۔دوسری جانب اپوزیشن اتحاد چونکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر تقریباً بکھر چکا ہے۔لیکن اگر پارلیمینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اپوزیشن متحد رہتی تو صدارتی انتخاب میں اس کا مشترکہ امیدوارمیدان مار سکتا تھا۔اعدادوشمار کے مطابق پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں آزاد ارکان کے 19 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ آزاد امیدواروں کے ووٹ تقسیم ہونے کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کو 350، مولانا فضل الرحمان کو 218 اور اعتزاز احسن کو 116 الیکٹورل ووٹ پڑ سکتے ہیں۔اگر اپوزیشن کا صرف ایک امیدوار ہوتو ااپوزیشن کے334ووٹ بنتے ہیں اگر آزاد امیدواروں کی رجحان بھی اپوزیشن کی جانب ہو تواپوزیشن کا ایک امیدوار 353ووٹ بھی حاصل کر سکتا ہے۔لہٰذا آزاد امیدواروں کے19ووٹ کسی جانب بھی منقسم ہو سکتے ہیں۔ بادی النظر میںدیکھا جائے تو اپوزیشن کااگر صرف ایک امیدوارہوتو حکمران جماعت کے امیدوار کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے، چونکہ اب اپوزیشن کی جانب سے صدر کے انتخاب کیلئے دو امیدوار میدان میں ہیں تو یقینا اپوزیشن کے اپنے ووٹ بھی تقسیم ہو جائیں گے اور ایسی صورتحال میں آزاد امیدواروں کا رجحان بھی حکمران اتحاد کی جانب رہنے کی توقع ہے تو حکمران جماعت کے امیدوار کی جیت کا قوی امکان ہے۔ اپوزیشن اتحاد کے تقسیم ہونے کا فائدہ حکمران جماعت تحریک انصاف کو ہورہا ہے ،پی ٹی آئی پہلے ہی صدارتی انتخابات کے لیے درکار مطلوبہ ارکان کی تعداد پوری ہونے کا اعلان کر چکی ہے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسملبوں میں ارکان کی تعداد 1074 ہے لیکن چونکہ کچھ سیٹیں خالی ہیں تو اس وجہ سے اس وقت ارکان کی تعداد 1047 ہے اور آئین کے مطابق صدارتی انتخابات میں شمار ہونے والے ووٹوں کی تعداد 679 ہے۔اگر اس وقت تحریک انصاف کے اتحادیوں اور مسلم لیگ (ن )کے اتحادیوں کو دیکھا جائے تو اس میں تحریک انصاف صاف صاف جیتتی دکھائی دیتی ہے۔اس وقت تحریک انصاف کے صدارتی ووٹ 317 سے 320 کے قریب ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے ووٹ 200 سے 205 کے درمیان ہیں اور اگر اس میں پیپلز پارٹی کے ووٹ شامل کر لیے جائیں تو دونوں جماعتوں کے ووٹوں کی تعداد 317 کے قریب بن جاتی ہے۔یوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کے ووٹ تقریباً برابر برابر ہی ہیں اور اس صورتحال میں فیصلہ آزاد ارکان اور چھوٹی جماعتوں کے پاس چلا جاتا ہے جس میں جماعت اسلامی، تحریک لبیک، جمہوری وطن پارٹی اور رائے حق جیسی جماعتیں شامل ہیں جن کے پاس ایک ایک یادو دو ووٹ ہیں۔ ان جماعتوں کے ووٹ 27 کے قریب بنتے ہیں جبکہ19 آزاد ارکان ہیں اور ان کا جھکاو¿ تحریک انصاف کی طرف رہا تو اس تناظر میں تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

صدارتی انتخاب کا طریقہ کار
آئین کے آرٹیکل 41 کی شق 3 کے تحت پارلیمان، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کا خصوصی اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔اس لئے آج 104 سینیٹرز، قومی اسمبلی کے 342 اور صوبائی اسمبلی کے 260 ممبران سمیت 706 قانون ساز پاکستان کے تیرہویں صدر کا انتخاب کرنا ہے۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں کو یکساں 65 ووٹ دیے جاتے ہیں تاکہ سب کی نمائندگی برابر رہے۔ صدارتی انتخاب کا الیکٹورل کالج پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے کل1174 ارکان پر مشتمل ہوتا ہے لیکن ان میں سے ہر رکن کا ایک ووٹ شمار نہیں کیا جاتا۔آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق صدارتی انتخاب کے لیے سب سے چھوٹی اسمبلی یعنی بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی مناسبت سے ہر صوبائی اسمبلی کے پینسٹھ ووٹ شمار ہوتے ہیں جبکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ گنا جائے گا۔کچھ سیٹیں خالی ہونے کی وجہ سے اس وقت ارکان کی تعداد 1047 ہے اور آئین کے مطابق اس وقت صدارتی انتخابات میں شمار ہونے والے ووٹوں کی تعداد 679 بنتی ہے۔ان میں سے اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ملک کا صدر منتخب ہو گا۔نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہوگی۔اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاو¿س میں پریزائیڈنگ افسر چیف الیکشن کمشنر جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے پریزائیڈنگ افسران متعلقہ صوبے کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز ہوں گے۔آئین میں درج طریقے کے مطابق پریزائڈنگ افسر ہر رکن کو اس کی متعلقہ اسمبلی ہال کے اندر ایک بیلٹ پیپر فراہم کرے گا جس میں صدارتی امیدواروں کے نام چھپے ہوں گے۔ہر رکن خفیہ طریقے سے اپنے پسندیدہ امیدوار کے نام کے سامنے نشان لگا کر اس کے حق میں اپنا ووٹ دے گا۔ یہ بیلٹ پیپر پریزائڈنگ افسر کے سامنے پڑے ہوئے بیلٹ بکس میں ڈالا جائے گا۔
پولنگ کا مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد ہر پریزائڈنگ افسر انتخاب لڑنے والے امیدواروں یا ان کے نمائندوں کے سامنے بیلٹ بکس کھولے گا اور اس میں موجود ووٹ ان افراد کے سامنے گنے جائیں گے۔ووٹوں کی اس گنتی سے چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کیا جائے گا۔
چیف الیکشن کمشنر چاروں صوبائی اسمبلیوں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد انہیں اکٹھا کریں گے اور زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کو منتخب قرار دیں گے۔اگر دو یا زیادہ امیدوار ایک جتنے ووٹ حاصل کریں تو فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے ہوگا۔چیف الیکشن کمشنر گنتی مکمل ہونے کے بعد منتخب امیدوار کے نام کا اسی وقت قومی اسمبلی میں اعلان کریں گے اور اس سے وفاقی حکومت کو بھی آگاہ کریں گے جو ان نتائج کا سرکاری اعلان کرے گی۔نو منتخب صدر سے ملک کے چیف جسٹس آئین میں درج حلف لیں گے۔

صدارتی امیدواروں کی پوزیشن
صدر مملکت کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج سینٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہے، سینٹ، قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ شمار ہو گا جب کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے 65، 65 ووٹ شمار ہوں گے۔
صدر کا الیکٹورل کالج مجموعی طور پر 706 ووٹوں پر مشتمل ہوتاہے لیکن مختلف اسمبلیوں میں نشستیں پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس مرتبہ یہ تعداد 679 ہے۔ تینوں امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار صدر مملکت منتخب ہو جائے گا۔پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینٹ میں (ن) لیگ اور اس کے اتحادیوں کے 48، تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 25، پیپلزپارٹی کے 20 اور 11 آزاد ارکان ہیں۔قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 176، (ن) لیگ اور اتحادیوں کے 96، پیپلزپارٹی کے 54، 4 آزاد اور 12 نشستیں خالی ہیں۔اس طرح پارلیمنٹ میں ڈاکٹر عارف علوی کو 201، مولانا فضل الرحمان کو 144 اور اعتزاز احسن کو 74 ووٹ پڑ سکتے ہیں جب کہ 15 آزاد ارکان بھی حق رائے دہی استعمال کریں گے۔پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف الائنس کے پاس 186 نشستیں یعنی 33 الیکٹورل ووٹ، (ن) لیگ کے 162 ارکان یعنی 29 الیکٹورل ووٹ، پیپلزپارٹی کے 7 ارکان ملا کر ایک الیکٹورل ووٹ بنے گا۔
سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے 97 ارکان کی بدولت 48 الیکٹورل ووٹ جب کہ تحریک انصاف الائنس کے 66 ارکان کے 26 الیکٹورل ووٹ بنیں گے۔ (ن) لیگ کا سندھ اسمبلی میں ایک بھی الیکٹورل ووٹ نہیں ہے۔خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 79 ارکان ملکر 42، اپوزیشن اتحاد کے پاس 27 ارکان کے 14 اور پیپلزپارٹی کے پاس 5 ارکان کے 3 الیکٹورل ووٹ ہیں۔بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے 46 اور اپوزیشن کے پاس 20 ووٹ ہیں۔ 5 نشستوں پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔کل ووٹوں پر نظر ڈالیں تو تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے پارلیمنٹ میں 201، پنجاب میں 33، سندھ میں 26، خیبر پختون خوا میں 42 اور بلوچستان اسمبلی میں 46 ووٹ ہیں جو مجموعی طور پر 348 ووٹ بنتے ہیں۔(ن) لیگ اور اس کے اتحادیوں کے پارلیمنٹ میں 144، پنجاب اسمبلی میں 29، سندھ اسمبلی میں ایک بھی نہیں، خیبر پختون خوا اسمبلی میں 14 اور بلوچستان اسمبلی میں 20 الیکٹورل ووٹ ہیں، اس کے مجموعی الیکٹورل ووٹ 207 بنتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے پارلیمنٹ میں 74، پنجاب اسمبلی میں ایک، سندھ اسمبلی میں 48 اور خیبر پختون خوا اسمبلی میں تین الیکٹورل ووٹ مل کر 116 بنیں گے۔پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں آزاد ارکان کے 19 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ آزاد امیدواروں کے ووٹ تقسیم ہونے کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کو 350، مولانا فضل الرحمان کو 218 اور اعتزاز احسن کو 116 الیکٹورل ووٹ پڑ سکتے ہیں۔

صدرِ پاکستان ممنون حسین
صدر مملکت ممنون حسین ملک کے بارہویں صدر ہیں۔ ممنون حسین نے 9 ستمبر 2013ءکو اپنے عہدے کا حلف لیاتھا۔ صدر مملکت ممنون حسین کی آئینی مدت 8 ستمبر 2018ءکو پوری ہوگی۔77سالہ ممنون حسین23دسمبر1940کو آگرہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ 1963 میں کراچی یونیورسٹی کے ماتحت گورنمنٹ کامرس کالج سے بی کام آنرز کی ڈگری حاصل کی اور 1965 میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن”آئی بی اے“ کراچی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔انہوں نے ایک کارکن کی حیثیت سے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ 1967 میں مسلم لیگ کراچی کے اس وقت جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے، کراچی مسلم لیگ کے صدر رہے،19 جون 1997 کو گورنر سندھ کی مسند پر فائز ہوئے۔ ممنون حسین مسلم لیگ (ن) سندھ کے صوبائی جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ ممنون حسین 1997 میں سندھ کے وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کے مشیر بھی رہے۔