Buy website traffic cheap

عدم برداشت

امریکی صدر کا رویہ اور احسان فراموشی قابل افسوس!

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی قربانیوں کے اعتراف کے بجائے تنقید کی بوچھاڑ کر دی۔القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والے نیوی کے ریٹائرڈ ایڈمرل ولیم میک ریون سے متعلق سوال پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ ہیلری کلنٹن اور اوباما کے حمایتی تھے۔جہاںامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حماقتوں اور بیوقوفیوں سے دنیا آگاہ ہے وہیں یہ بات بھی ساری دنیا پر عیاں ہوچکی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سی قربانیاں دی ہیں اور اس جنگ میں نہ صرف ہمارے سکیورٹی اداروں کے لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دئیے ہیں بلکہ ہمارے عام لوگوں نے بھی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ایسے میں امریکہ کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہئے تھا ،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے اور اپنا بے حساب مالی و جانی نقصان کرانے کے باوجود پاکستان کو امریکا کی جانب سے الزام تراشیوں کا سامنا افسوسناک ہے، خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور امریکا کا بھارت کی طرف جھکاو¿ کے بعد ناروا طرز عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان اپنی اہمیت اجاگر کرے۔وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان پر تنقید کا بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کو پاکستان سے متعلق ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے، نائن الیون حملوں میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں ساتھ دیا اور 75 ہزار جانیں قربان کیں۔وزیراعظم ٹویٹ کرتے ہوئے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی معیشت کو 123 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا اور امریکا نے صرف 20 ارب ڈالرز امداد دی۔ ہمارے قبائلی علاقے تباہ ہوئے اور لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے محروم ہونا پڑا، اس جنگ کے تباہ کن اثرات عام پاکستانی پر پڑے اس کے باوجود پاکستان نے زمینی اور فضائی حدود فراہم کی۔وزیراعظم نے امریکی صدر سے صاحب سوال کیا کہ کیا ان کے کسی اور اتحادی نے اس طرح کی قربانیاں دیں؟۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور اپنے سیکڑوں فوجی مروانے کے بعد بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیت سکا اور اب پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان اپنے تعاون کی قیمت نہیں بلکہ قربانیوں کا اعتراف چاہتا ہے۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی قربانیاں پاکستان نے دی ہیں کوئی اور ملک اس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکا ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر کئی ممالک پاکستان کی قربانیوں کا برملا اعتراف کرتے ہیں لیکن امریکا کا رویہ اور احسان فراموشی قابل افسوس ہے۔
شاید امریکا سمجھتا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرکے مجبور کرنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن یہ اس کی خام خیالی ہے۔ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات بہتر ہورہے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان اسلحے کی خرید و فروخت اور فوجی مشقیں ہوئی ،موجودہ حکومت ایران ، افغانستان، سعودی عرب، ترکی اور چین کے ساتھ مضبوط تعلقات پر یقین رکھتی ہے اور اسی لئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنی صلاحتیں بروئے کار لا رہے ہیں جس کے پاکستان کو دور اندیش فوائد ہونگے۔بھی ہمارے تعلقات مثالی ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ حق و سچ کا ساتھ دیا ہے اور اس کے مثبت کردار کی دنیا معترف ہے، صائب ہوگا کہ امریکا بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے۔ لیکن بھارت سے تعلقات بڑھانے کے چکر میں امریکی حکام عاقبت نااندیشانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔یقینا موجودہ حکومت کی جانب سے دوٹوک اور برابری کی سطح پر بات چیت کے بعد ہی امریکہ نے یہ رویہ اپنایا ہوگا، اور موجودہ حالات میںحکومت کی ’ ’سب سے پہلے پاکستان‘ ‘والی سوچ پروان چڑھنا خوش آئند امر ہے، جس پر پی ٹی آئی حکومت داد کی مستحق بھی ہے۔