Buy website traffic cheap


اپنی اپنی ذمہ داری کے ساتھ !!

اشفاق رحمانی
اپنی اپنی ذمہ داری کے ساتھ !!
ڈاکٹر اگر اپنے شعبہ میں خلوص نیت سے کام نہیں کرے گا ،کاشتکار ٹائم پر فصل کو پانی اور کیڑے مار ’’دوائی‘‘ نہیں ڈالے گا،حکیم اگر ’’نیم‘‘ حکیم ہو،صحافت صرف’’روپے پیسے کی جنگ‘‘ کا روپ دھار لے،عدالت گونگی اور بہری نظر آنے لگے اور سیکورٹی پر معمور اپنی ذمہ داری کے دوران ’’سونا‘‘ اپنی عادت بنا لے تو’’معاشرہ‘‘ کہاں سے ’’کدھر‘‘ پہنچ جائے گا ہم سب جانتے ہیں۔افسوس بھی یہی ہے کہ یہ سب ’’خرابیوں‘‘ کی نشاندہی ہونے کے باوجود، یہ سب جانتے بوجھتے ہونے کے باوجود’’ہم اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں۔پاکستان میں ایک آزاد ، اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کے ساتھ اگر کسی سیاسی جماعت نے انگڑائی لی ’’ہی‘‘ ہے تو سب ’’مولوی کو حاجی‘‘ بنانے پہ تل گے ہیں، یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم سفید کپڑے پہ’’داغ‘‘ ڈھونڈنے‘‘ کے عادی ہو چکے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ متوقع وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جمہوریت کے انتہائی خدمات ہیں، نوجوانوں کو بیدار کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، خواتین ووٹرز کو ’’سیاسی میدان‘‘ میں اپنے طاقت سمیت اتارنے والی بھی یہی سیاسی جماعت ہے۔ورنہ تومذہبی جماعتوں نے پاکستان کو ’’اسلامی فلاحی ‘‘ ریاست بنانے کی کبھی بات نہیں کی، وہ تو ووٹ لے کر ’’نوٹ‘‘ بنانے کے چکر میں لگ جاتے ہیں،اخباری خبر کے مطابق مولانا فضل الرحمان تیرہ سال سے ایک سرکاری رہائش گاہ پر نہ صرف خود مسلط تھے بلکہ ’’طاقت‘‘ کا غیر قانونی استعمال کرتے ہوئے مبینہ طور پر اپنے کچھ رشتہ داروں کو بھی ’’سہولت‘‘ بھی فیضیاب کیا۔پاکستان مسلم لیگ ن کو ہی دیکھ لیں،بظاہر مذہبی اور لیبرل کے درمیان والی’’ جماعت‘‘ ثابت کرتی رہی تاہم اس نے بھی پاکستان کو کبھی ’’اسلامی فلاحی‘‘ ریاست بنانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے بلکہ اس سے وابستہ قانونی یا غیر قانونی ووٹرز کو جب یہ معلوم پڑا کہ ’’شریف پارٹی‘‘ نے مبینہ طور پر تین سو ارب ڈالر پاکستان نے قومی خزانہ سے کسی نہ کسی شکل میں چوری کر کے پاکستان سے باہر اپنی جائیدادیں بنا لی ہیں تو اسی ’’ووٹرز‘‘ نے ان کو حکومت بنانے کیلئے مسترد کر دیا،مذکورہ بالا الزام عدالت سے سچ ثابت ہو چکا اور چوری اور غیر قانونی جائیدادوں کی وجہ سے پارٹی قائد تا حیات نااہلی کی سزا ’’اڈیالہ‘‘ میں کاٹ رہے ہیں۔ہم نے کالم کی شروعات شعبہ جاتی ذمہ دار ی سے کی تھی ان آتے ہیں سیاسی ذمہ دار کی طرف،پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں میں سے کتنی ایسی ہیں جن کو طویل حکومت کا تجزیہ رہا،وہ ایک بار آئیں، چاہیے چار ،پانچ بار،انہوں نے قوم کے ٹیکس کے پیسوں کی کتنی حفاظت کی۔انہوں نے تعلیم اور صحت کیلئے کتنا بجٹ رکھا اور ان کے ذاتی رہائشوں کے بجٹ اور سکولوں میں سہولیات کا بجٹ میں موجود ’’فرق‘‘ کتنا ر ہا۔پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، ق، ضیا وغیرہ نے اپنے اپنے دور حکومت میں’’ذاتی اسائشوں‘‘ کے لئے کتنا بیرونی قرضہ لیا۔پھر آتے ہیں مذہبی جماعتوں کی طرف، جن کا منشور’’اسلامی فلاحی‘‘ ریاست ہونے کے باوجود چند مذہبی سیاسی رہنماؤں کے طرز سیاست کی وجہ سے ان کا ’’ووٹ بنک ‘‘ ہی نہ بن سکا۔اب کی بار تو ووٹرز نے نوے فیصد مذہبی جماعتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ’’مدارس‘‘ میں محدود کر دیا۔بطور قلم کار بھی میں دیکھا کہ پاکستانی میڈیا’’جنگ‘‘ سے باہر نہیں نکل سکا،اگر کہیں نکلا بھی تو پھر ’’جیو‘‘ اور جینے دو پالیسی کی طرف جھکنا پڑا۔پاکستانی میڈیا نے اپنے آزاد ہونے کا ’’کافی غلط‘‘ مطلب نکالا،حالانکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک کیس میں ریمارکس دئیے تھے کہ ’’میڈیا‘‘ ابھی تناآور درخت نہیں بنا، اس لئے اس کی آزادی کو پورا خیال رکھ کر ’’چوتھے ستون‘‘ کو مضبوط ہونے دیا جائے۔لیکن پھر اس کے ’’پر‘‘ نکل آئے تو پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اور افواج پاکستان کے خلاف سازش کی اور جیو اور جینے دو کی ’’گردان‘‘ بھی شروع کردی۔
پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اس کا ووٹر بھی با شعور، اس نے حالیہ عام انتخابات میں ثابت کیا ہے کہ وہ ’’تبدیلی‘‘ چاہتا ہے، بھلا ہو تبدیلی کی سوچ دینے والی قیادت کا۔اب اس قیادت نے حکومت بنانے کا اعلان کیا تو پھر ’’لابی‘‘ اپنا رنگ دیکھانا شروع کر دیا،ہر سیکنڈ کے بعد میڈیا سے یہ پیغام چلانا شروع کر دیا کہ ’’اسلامی فلاحی‘‘ ریاست کا قیام ہی ممکن نہیں کیونکہ بنانے والے خود ’’ٹھیک‘‘ نہیں۔جمہوری کلچر میں ووٹ کی طاقت ہی سب کچھ ہوتا ہے اور جو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر لیتا ہے اور حکومت سازی سے متعلق ’’رائج‘‘ طر یقہ اپناتے ہوئے ’’پارلیمنٹ‘‘ میں بیٹھ کر آئین اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے عوامی خدمت کے لئے پالیسی بناتا ہے تو اُس کو حق ہے کہ ’’ووٹ‘‘ کی طاقت سے مسترد افراد کی اصلاح کرے۔اُن کو سیاسی ادب و آداب سیکھائے۔پاکستانی ووٹر یہی توقع پاکستان تحریک انصاف اور متوقع وزیر اعظم عمران خان سے رکھتے ہیں کہ ’’اپوزیشن‘‘ کو اداب سیاست سیکھائے جائیں۔حکومت بننے سے پہلے ’’دھاندلی‘‘ ،دھاندلی کھیل لیں لیکن جب حکومت بن جاتی ہے توپھر اس کو اپنا آئینی و قانونی حق استعمال کرنے دیں، پالیسی سازی کی طرف جانے دیں، عوام کی صحت کا خیال کرنے دیں، مستقل کو محفوظ و با ادب بنانے کیلئے تعلیمی اصلاحات کرنے دیں۔چوروں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے دیں،بیرون ملک غیرقانونی طریقہ سے جمع کی گئی دولت نہ صرف واپس لانے دیں بلکہ جو جو ذمہ دار ہے ’’’دونمبری‘‘ سے دولت باہر بھیجنے کا اسے ہر حال میں دولت واپس لانے کیلئے کہا جائے اور ’’اڈیالہ‘‘ کم پڑ جائے تو ۔۔۔!!