Buy website traffic cheap

صحت

اپنے بچوں کو خود اعتمادی دیں، بچوں کو جنسی ہراسگی سے بچائیں

لاہور (عنبر شاہد) بچوں اور بچیوں کی جنسی ہراسگی کوئی نئی بات نہیں ہے اس موضوع پر کئی ڈرامے بن چکے ہیں اور کئی مضامین شائع ہو چکے ہیں ۔یہ معاملہ چھوٹی بچیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ بچیاں بڑے ہو نے کے بعد بھی اس عمل سے گزرتی رہتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ خواندگی کی سطح کے لحاظ سے تو ترقی کر رہا ہے لیکن یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔فیکٹریوں میں کام کرنے والی لڑکیاں ، جاگیرداروں کے ہاریوں کی عورتیں ، ملازمت پیشہ خواتین ، نرسیں ،گھروں میں کام کرنے والیاں ، غرضیکہ ہر جگہ عورتیں آسان شکار ہیں۔انسان کی جبلت کے ایک سرے پہ بھوک اور دوسرے سرے پہ جنس ہے۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہ ہوس عمر بھی نہیں دیکھتی یہاں تک کہ دو تین سال کی بچی کو بھی جنسی ہراسگی کا سامنا ہے یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی کچھ بچیوں کو سمجھ نہیں آتی اور جن کوسمجھ آجاتی ہے وہ ساری عمر بلیک میل ہوتی رہتی ہیں اور گھر والوں کے خوف سے کبھی اپنی زبان نہیں کھولتی ہیں۔
جنسی ہرا سگی ہر سطح پر ہے۔ نامور خواتین ہوں یا عام عورتیں۔ عورت کا وجود کشش سے بھر پور ہے۔ اسی لئے اسلام اسے پردے میں مقید کرتا ہے لیکن پردہ بھی عورت کا تحفظ نہیں کر پاتا۔ اصل مسئلہ سوچ اور ہماری دی گئی تربیت کا ہے۔ پڑھی لکھی ان پڑھ سب اس کا شکار ہو تی ہیں۔ زیادہ تر زبان بند رکھتی ہیں۔ مگر زبان بند رکھنے کا نتیجہ کہ آج یہ اس معاشرے کا بہت بڑا المیہ بن گیا ہے۔رہی سہی کسر ہمارے میڈیااور سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے ہر چیز ہر وقت ہر انسان کی پہنچ میں ہے ،اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔لیکن ایک ماں ہونے کے ناطے میں اگر اپنی بیٹی کے لیے کچھ اچھا سوچ رہی ہوں تو میرا فرض ہے میں یہ باتیں اس اخبار کے ذریعے آپ لوگوں تک بھی پہنچاﺅں۔
ابھی کچھ ماہ پہلے ہی قصورکی زینب کا دلخراش واقعہ اورپھر بس ہوسٹس مہوش کا اندوہناک قتل اور اس جیسے ہزروں واقعات اسی جنسی ہوس کا نتیجہ ہیں۔مگر دکھ کی بات تو یہ ہے کہ میڈیا میں کوئی واقعہ رپورٹ ہو جائے تو کچھ عرصہ سوشل میڈیاپر اس کا چرچا رہتا ہے۔حکومتی سطح پر کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں مگر کبھی مسلئے کی تہہ تک نہیں پہنچا جاتا اور نہ ہی ان عوامل کا جائزہ لیا جاتا ہے جن کی وجہ سے یہاں تک نوبت آتی ہے۔آج ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان کی وجوہات کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ کس طرح ہم ان واقعات کی روک تھام اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی اپنی سطح پر کر سکتے ہیں۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی جنسی ہراسگی اور بے راہ روی کی وجوہات

بچوں کی بربادی کے اولین ذمہ دار والدین ہیں۔
1۔ تعلیم اور شعور کی کمی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسلہ ہے خاص طور پر دور دراز گاﺅں میں رہنے والی خواتین کو اس رویے کا بہت زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ نہ تو بول سکتی ہیں نہ ہی اپنے حق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہیں جس کے نتیجے میں با اثر افراد ان کا استحصال کرتے ہیں اور اگر کوئی آواز بلند کرے تو وہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کردی جاتی ہے۔
2۔دوسری بڑی وجہ والدین کا اپنے بچوں کو توجہ نہ دینا ہے۔اگر آپ اپنے بچے کو تین وقت کا کھانا ،کھلونے ،اچھا لباس اور سیر و تفریح کا سامان مہیا کرکے سمجھتے ہیں کہ آپ نے اپنی ذمہ ساری پوری کرلی تو یہ بات بالکل غلط ہے۔اصل چیز یہ ہے کہ آپ نے اپنے بچے کی تربیت کیسے کی ہے کیا وہ ایک اچھا انسان ہے کیا وہ صفائی پسند ہے بڑوں کا ادب کرتا ہے اس کا رویہ اچھا ہے اگر ان سب چیزوں کا جواب نا میں ہے تو آپ ناکام والدین ہیں اورآپ کو اپنے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
3۔سب سے اہم وجہ میرے نزدیک بچوں کو آزادانہ موبائیل فون اور انٹرنیٹ کا استعمال کرنے کی اجازت دینا ہے۔ماﺅں کو یہ بھی نہیں پتی ہوتا کہ بچہ موبائیل میں کیا دیکھ رہا ہے ،ہمارے ہاں یو ٹیوب اور گوگل پر کوئی چائلڈ لاک نہیں لگایا گیا لہٰذا بچے ہر چیز دھڑلے سے دیکھتے ہیں ان کو کوئی روکنے والا نہیں ماں باپ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ صرف چیک کرلیں بچہ کیا دیکھ رہا ہے نہ ہی کوئی ٹائم فریم دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بچے اپنی عمر سے پہلے بڑے ہوجاتے ہیں اور جب کوئی سوال کرتے ہیں تو والدین اس سوال کو جواب گول مول دیتے ہیں جس سے بچے کا اعتماد ماں باپ سے اٹھ جاتا ہے اور وہ دھوکہ دینے لگ جاتے ہیں۔
4۔کئی والدین ایسے بھی ہیں جو بچوں پر بے جا سختی کرتے ہیں اس کے نتیجے میں وہ جھوٹ بولنے کے عادی ہوجاتے ہیں کیونکہ جھوٹ بولنے سے وہ وقتی ڈانٹ سے بچ جاتے ہیں یہی جھوٹ ا?خر ان کو بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہاں تک والدین خود بھی بچوں کے سامنے جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔
5۔ایک اور اہم وجہ گھر کا ماحول ہے اگر آپ کے گھر کا ماحول اچھا اور صاف ستھرا ہے۔عورتیں با حیا ہیں اور مردوں کی نگاہ میں شرم ہے تو اس کا اثر بھی بچوں پر خوب پڑتا ہے لیکن اگر ماں بچیوں کے سامنے نوکروں کا لحاظ کیے بغیرغیر مردوں کے سامنے اپنے چست لباس میں قہقہے لگاتی نظر آئے گی، یا ایک باپ اپنے بچوں کے سامنے بے حیائی والی کوئی حرکت کرے تو کیا ان کی اولاد کی نگا ہ میں شرم ہوگی یا آپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ان کی اولاد جنسی بے راہ روی کا شکار نہیں ہوگی۔
6۔گھر میں جوان لڑکا یا لڑکی ملازم ہوں تو ہمارے یہاں اس بات کی بھی احتیاط نہیں برتی جاتی اور بعض اوقات یہ ملازم بھی بچیوں کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بناتے ہیں۔
7۔اکثر والدین اپنی بچیوں کو میل ٹیچر کے ساتھ پڑھنے کے لیے ڈرائینگ روم میں اکیلا بٹھا دیتے ہیں اور پھر کبھی ایک بار بھی جھانک کر نہیں دیکھتے۔
8۔گاڑی میں آگے ڈرائیور کے ساتھ اکیلی بچی کو بھیج دیتے ہیں کبھی اندازہ نہیں ہوتا کہ اس بچی کو کس قسم کی جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
9۔سب سے پہلے تو ہم پورا ماحول خود قائم کرتے ہیں جنسی ہراسگی کے لیے پھر اس کو پروان چڑھانے کے لیے مزید مواقع فراہم کرتے ہیں لڑکے لڑکی کی کوئی تمیز نہیں کزنز آپس میں کیسے مرضی رہیں سوئیں اٹھیں نہ تو لباس کا خیال نہ گفتگو کا اندازہ ہوتا ہے۔
10۔ایک اور اہم وجہ بچوں کے دوستوں سے عدم واقفیت ہے ہمیں اندازہ تک نہیں ہوتاکہ ہمارے بچوں کی جن بچوں سے دوستی ہے ان کے گھر کا ماحول کیا ہے ان کی سوچ کیا ہے۔
11۔میرے نزدیک سب سے اہم وجہ دین اسلام سے دوری ہے ویسے اصولاً یہ وجہ سب سے پہلے لکھی جانے چاہیے تھی مگر وہ کیا ہے نہ کہ ہمارے معاشرے کو اسلام فوبیا ہے پہلے وجہ پڑھتے ہی کئی لوگوں نے یہ تحریر چھوڑ دینی تھی کہ یہ تو کوئی درس ہو رہا ہے مگر اول ہو یا آخر بات ایک ہی ہے وہ یہ کہ اسلام کے ذریں اصول نظر انداز کرنے کی وجہ سے آج ہم اس دہانے پر کھڑے ہیں۔

آئیے شعور کی شمع جلائیں اور اپنے بچوں کو جنسی ہراسگی سے بچائیں
1۔اپنے گھر کا ماحول بہتر اور صاف ستھرا رکھیں اگر ماں باپ اچھے کردار کے حامل ہوں تو بچے بھی انہی کے نقش قدم پرچلیں گے۔
2۔اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ شعور بھی دیں جن بچوں کے ماں باپ ان سے دوستانہ رویہ رکھتے ہیں وہ بچے کبھی باہر اور اجنبی لوگوں میں اپنائیت تلاش نہیں کرتے۔اگر ماں باپ اپنے بچوں سے ہر طرح کے موضوع پر پیار اور اچھے انداز میں گفتگو کریں گے تو اس رشتے میں اعتماد بحال ہو گا اور وہ کبھی آپکو دھوکہ نہیں دیں گے۔اپنے بچوں کواس قدر قریب کریں کہ وہ اپنی ہر بات آپ سے شیئر کریں یقین مانیں اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھراپ کے بچوں کو ساری عمر کوئی جنسی ہوس کا نشانہ نہیں بنا سکے گا۔
3۔مائیں اپنی بچیوں کے لباس کا خصوصی خیال رکھیں اور گھرکے نوکروں کے سامنے ان کے اٹھنے بیٹھنے نہانے کے معاملات کا دھیان رکھیں۔
4۔بچوں کا موبائیل اور ٹیبلٹ دیں تو ان پر نظر رکھیں ان سے باتیں کریں اندازہ لگائیں کہ وہ آج کل کیا دیکھ رہے ہیں۔
5۔اگر اپ کی بچیوں کا رویہ کچھ عجیب سا ہو گیا ہے وہ اچانک خوفزدہ یا بہت زیادہ خاموش رہنے لگی ہیں تو معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
6۔لڑکیوں کی تعلیم کے دوران ہی اچھا رشتہ آجائے تو فورا ًان کی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجائیں۔
7۔باتوں باتوں میں بچوں کو اچھی چیزیں سمجھانے کی کوشش کریں اور احساس دلائیں کہ وہ معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں اور وہ کس طرح اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔
8۔بیٹے اور بیٹیاں دونوں ہی آپ کا اثاثہ ہیں نہ تو لڑکوں کو بہت زیادہ زعم میں مبتلا کریں اور نہ ہی بیٹیوں میں کوئی احساس کمتری پیدا ہونے دیں یاد رکھیں میانہ روی سب سے بہترین حل ہے۔
-9گھر میں جوان لڑکے ہوں تو نوجوان ملازمہ اور بچیاں ہوں تو جوان لڑکوں کو ملازم مت رکھیں۔
اس تمام تر تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ بحیثیت والدین ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو خود اعتمادی دیں اوراپنے بچوں کے تمام معاملات سے آگاہ رہیں تاکہ وقت سے پہلے کسی بڑے اور ناقابل تلافی نقصان سے بچ سکیں۔یاد رکھیں کوئی بھی مسئلہ ایک دن میں حل نہیں ہوتا ۔آئیے شعور کی شمع جلائیں اور اپنے بچوں کو جنسی ہراسگی سے بچائیں۔