Buy website traffic cheap

ممللکت

صدر ممللکت عارف علوی کا مشترکہ پارلیمنٹ سے خطاب، اہم اعلان کردیا

اسلام آباد(آئی این پی ) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ کرپشن کے ناسور نے ملکی اقتصادیات کو تباہ کردیا ہے اور عوام بے ایمانی سے تنگ آچکے ہیں، کرپشن پر قابو پانے کے لیے ہمیں احتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے،ہم مقروض قوم ہیں ہمیں قرض کی ادائیگی کے لیے قرض لینا پڑتا ہے، ہمارے مسائل کی سب سے بڑی وجہ گروہی مفادات اور کرپشن ہے،پاکستان کی شناخت سادگی اور بدعنوانیوں سے پاک نظام ہے، ہمیں اپنی زندگیوں میں سادگی کو اپنانا ہوگا،حکومت علما کرام کی مشاورت سے ایک متفقہ لائحہ عمل بنائے اور اس پرعمل کرے،بااختیار خواتین کے بغیر ملکی ترقی کا خواب مکمل نہیں ہوسکتا،ہمارے مسائل سماجی ناہمواری اور غربت سے جڑے ہوئے ہیں، ہمیں ملک میں آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگا، ہمارے بچے ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہیں،پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے بھی مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں ، ہمارے ہاں پانی کا بے دریغ استعمال ہورہاہے،میں شجر کاری پر خصوصی توجہ دینا اور نئے ڈیم بھی بنانا ہوں گے۔ ہمیں آبپاشی کے جدید نظام کو فروغ دینا ہوگا۔وہ پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنا پہلا خطاب کر رہے تھے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول پیش کی گئی اور پھر بیگم کلثوم نواز کے ایثال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف اور غیر ملکی سفرا سمیت دیگر شخصیات نے شرکت کی۔سپیکر قو می اسمبلی نے صدر مملکت کو خطاب کی دعوت دی تو مسلم لیگ (ن)کے ارکان نے خطاب سے قبل بات کرنے کی اجازت مانگی گو سپیکر قومی اسمبلی نے نہ دی جس پر مسلم لیگ(ن)،ایم ایم اے ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی ،اے این پی نے واک آﺅٹ کیا جبکہ پیپلز پارٹی اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے واک آﺅٹ نہ کیا اور ایوان میں بیٹھے رہے۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ آج کا خطاب نئے پارلیمانی سال کا نکت آغاز ہے۔ اللہ تعالی آنے والے دنوں کو ہمارے لیے باعثِ رحمت و برکت بنائے۔ ان ایوانوں اور راہداریوں سے میر ی شناسائی اس ایوان کے رکن کی حیثیت سے کئی برس پرانی ہے۔ مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی رہی ہیں، ان کی ادائیگی کے لیے یہاں بیٹھ کر جو کچھ میں کر سکتا تھا میں نے پوری ایمانداری اور صلاحیت کے مطابق انجام دیاہے۔میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں اور اپنے رفقائے کار خصوصا ارکانِ پارلیمنٹ اور ممبران صوبائی اسمبلیوں، کا مشکور ہوں کہ مجھے پاکستان کے سب سے بڑے آئینی عہدے کے قابل سمجھا۔ میں اپنی بھر پور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریاں سر انجام دوں گا۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس سلسلے میں بھی دعا گو ہوں کہ مجھے اِن ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ہمت، طاقت اور توفیق عطا فرمائے۔مجھے پوری امید ہے کہ اس سلسلے میں ساتھی اراکین پارلیمنٹ بھی میرا بھر پور ساتھ دیں گے تاکہ ہم سب اللہ تعالی کی بارگاہ اور عوام کی عدالت میں سرخرو ہو سکیں۔ہمارا سیاسی نظام مختلف وجوہات کے باعث عدم استحکام کا شکار رہا ہے مگریہ امر اطمینان بخش ہے کہ ہماری گذشتہ تین اسمبلیاں اپنی معیاد پوری کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ایک سیاسی کارکن اور ذمہ دارشہری کی حیثیت سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے مسائل کی سب سے بڑی وجہ گروہی مفادات اوربے انتہا کرپشن ہے۔ انتخابات نے بھی یہ بات ثابت کر دی ہے کہ عوام بے ایمانی سے تنگ آچکے ہیں اور ایک پاک معاشرہ چاہتے ہیں ۔کرپشن کو قابوکرنے میں جہاں صاف اور شفاف نظام ضروری ہے وہیں احتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بلاخوف و امتیاز اپنا کام سرانجام دیں ۔ میرا ایمان ہے کہ عوام کی خواہشات کے احترام میں ہی حکومتوں کی کامیابی ممکن ہے۔موجودہ حکومت نے نیا پاکستان بنانے کا عزم کیا ہے اور اسی نعرے پر وہ انتخابات کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں نئے پاکستان کی سب سے بڑی شناخت سادگی کا فروغ، غیر ضروری پروٹوکول کاخاتمہ اور بدعنوانیوں سے پاک نظام ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ہم ایک مقروض قوم ہیں اور ہمیں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے بجائے قرض ادا کرنے لیے بھی مزید قرض لینا پڑتا ہے۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ معاشیات کے مروجہ اصولوں اور قانون پاکستان کے مطابق کو ساٹھ فیصد سے تجاوز نہیں کرناچاہیے۔ پچھلے کئی برسوں سے ہم اپنے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ہمارے اوپر بیرونی اور اندرونی قرضوں کے پہاڑ خطرناک حد تک زیادہ ہو چکے ہیں جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں سادگی کو اپنانا ہوگا اور بے جا نمود و نمائش کے لیے اصراف سے گریز اور ضرورتوں کو محدود کرنا پڑے گا۔ان اصولوں کو اپنا کر درست سمت کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ہمارے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رہنمائی میں قائم ہونے والی ریاست مدینہ کا ماڈل موجود ہے ۔ اللہ کے رسول صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں یہ ہدایت کی تھی کہ کسی انسان کو دوسرے انسان پر رنگ ،نسل اور مذہب کی بنیاد پر برتری حاصل نہیں ہے سوائے تقوی کے۔اسلامی معاشرے کی بنیاد مساوات، عدل اور باہمی بھائی چارے کی بنیاد پر ہی رکھی گئی ہے۔ اس بات کو مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنے فلسفہ میں اجاگر کیا ہے ۔ بانءپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے جس میں انصاف اور عدل کا نظام قائم ہو ، عوام کو بنیادی ضروریات دستیاب ہوں اورریاست عوام کو ان کے حقوق کی فراہمی یقینی بنائے جن کی آئینِ پاکستان ضمانت دیتا ہے۔مملکت تمام شہریوں کے لیے،ملک میں دستیاب وسائل کے اندر،معقول آرام وفرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی ، مملکت ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزو ری، بیماری یا بیروزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہیں بلا لحاظ جنس، ذات، مذیب یا نسل، بنیادی ضروریات زندگی مثلا خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی؛ موجودہ حکومت کے پروگرام کے مطابق مختلف معاشی اور رہائشی منصوبوں پر کام شروع کر کے روزگار اور رہائش کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ اگر ہم اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گئے تویہی تبدیلی ہوگی اور یہی نیا پاکستان ہو گا جس میں ہم سر اٹھا کر چل سکیں گے اور ہمارے بچے پورے اعتماد کے ساتھ ایک نئی پرامن اور خوبصورت دنیا کی تشکیل میں حصہ دار بن جائیں گے۔قومیں مسائل سے دوچار ہو جایا کرتی ہیں اور بعض اوقات مسائل اتنے زیادہ اور گھمبیر ہو جاتے ہیں کہ ترجیحات کا تعین ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے لیکن زندہ اور باہمت قومیں مشکلات سے گھبرایا نہیں کرتیں بلکہ جواں مردی اور حوصلے سے مقابلہ کرتی ہیں ۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ مِن حیث القوم ہمیں ان مسائل کا ادراک ہے۔ ہمارے کھیتوں کادہقان ہو یا ہماری عدلیہ کے افراد ، ہماری فوج کا سپاہی ،سول سروس کا نمائندہ یا ہمارے قلم کار، پاکستان کے دور دراز علاقے کا باسی ہو یا بیرونِ ملک رہنے والا ہمارا ہم وطن ، ہر ایک شخص اپنے تئیں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے ۔ ہمارے بیرون ملک پاکستانی جس شوق اور جذبے کے ساتھ پاکستان کی تعمیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ بہت خوش آئند ہے۔ میں حکومت وقت اور دیگر تمام جماعتوں کے لیڈران سے درخواست کرتا ہوں کہ اس موقع پر موجود عوام کے جذبات اور احساسات کو دیکھتے ہوئے بہت تیزی اور جانفشانی سے ملک کی سمت درست کردیں۔مجھے توقع ہے کہ حکومت ہر شعبے میں واضح روڈمیپ مرتب کرے گی اور صاف شفاف ٹرانسپیرنٹ گورننس کو یقینی بنائے گی۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہو چکا ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ہمارے ہاں پانی کی کمی کے باعث زیرِ زمین پانی کا بے دریغ استعمال ہورہاہے جس سے زیرِ زمین پانی کی سطح بھی خطر ناک حد تک نیچے جاچکی ہے۔بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقے پانی کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر بھی انتہائی مضر اثرات رونما ہورہے ہیں اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ اور گلیشیئر زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔فضائی اور صنعتی آلودگی کی وجہ سے شہروں کی آب وہوا متاثر ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں شجر کاری پر خصو صی توجہ دینا ہو گی اورنئے ڈیم بھی بنانے ہوں گے۔پانی کے ذخائر کی تعمیر حکومتِ وقت کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے۔میں توقع کرتا ہوں کہ ہمارے عوام اور بیرون ملک پاکستانی، چیف جسٹس اوروزیراعظم کی اپیل کا مثبت جواب دیں گے اور اس کے نتیجے میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے سرمایہ دستیاب ہو سکے گا اور زر مبادلہ کی کمی پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ہمیں پانی کے ضیاع کو روکنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ اس سلسلے میں دو اقدامات نا گزیر ہیں۔ ایک یہ کہ آبپاشی کے نظام کو مزید مثر بنایا جائے اور نہروں و راج باہوں کے ذریعے پانی کے رسا پر قابو پانے کے لیے بھر پور اور جامع حکمت عملی تیار کرکے اس پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔ فلڈ کے بجائے دریپ ایریگیشن کو فروغ دیا جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلی لانا ہو گی اورپانی کے بے جا استعمال پر قابو پانا ہو گا۔ہمارے پیارے نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنے میں بھی میانہ روی اختیار کرنے اور اصراف سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ پانی اور اس سے متعلقہ مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کے ساتھ ساتھ ناگزیر ہے کہ توانائی اور بجلی کے معاملات پر بھی فوری توجہ دی جائے۔ بجلی کی ترسیل کا نظام بہتربنایا جائے لائن لاسزکم کیے جائیں اور بجلی کی چوری کا سدِباب کیا جائے۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے شمالی علاقہ جات، آزادکشمیر اور وطن عزیز کے بعض دیگر علاقے پانی کی دولت سے مالا مال ہیں، ان علاقوں کا ماحول بجلی کی تیار ی کے سلسلے میں قدرتی طور پر سازگار ہے،متعلقہ وزارتوں اور حکام کو دریاں کے بہا پر بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو مزید بڑھانا چاہیے، ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانا چاہیے تاکہ جہاں بھی بجلی پیدا ہو رہی ہو وہ نیشنل گرڈ سے منسلک ہو جائے تاکہ ملک بھر میں بجلی کی ترسیل کانظام مربوط شکل اختیار کر سکے۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ہماری نصف سے زائد آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔زرعی شعبے کی ترقی بھی آبی ذخائر میں اضافے سے مشروط ہے۔موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں قوم سے اس شعبے کی ترقی کاوعدہ کیاہے۔ اس سلسلے میں زرعی ادویات، کھاد اور دیگر زرعی سازو سامان کی مناسب قیمت پر فراہمی کے لیے ایک مثر اور جامع پالیسی ہونی چاہیے اور اس سلسلے میں ماہرین اور کاشت کاروں کے ساتھ ضروری صلاح مشورے کا نظام بھی قائم کرنا چاہیے ۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ اراکین پارلیمان تعلیم اور صحت کے معاملات میں بھی عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔اس سلسلے میں خیبر پختونخوا سمیت ملک کے بعض دیگر حصوں میں اچھی اور حوصلہ افزا مثالیں سامنے آئی ہیں لیکن آبادی کا دبا بہت زیادہ ہے اور وسائل محدود۔ہمیں اپنے ملک میں آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگااور ملک میں تعداد کی بجائے تعلیمی معیار کو عام کرنا ہوگا۔میں اپنے پالیمٹیرین اور میڈیاسے چاہوں گا کہ وہ لوگوں میں زچہ و بچہ کی صحت اور چھوٹے کنبے کی افادیت کی اہمیت کو بھی اجاگرکریں۔خواتین کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں ان کیلیے تعلیم، روزگار اور اعلی ترین سطح سے لے کر نچلی سطح تک انھیں بااختیار بنانے کی پالیسیاں وضع کی جائیں۔ خواتین کی ترقی کے بغیر کسی بھی ملک کی ترقی کا خواب کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ ہماری خواتین بہت محنتی ہیں اور جو خواتین تعلیم حاصل کر چکی ہیں وہ ہرجگہ وہ نمایاں نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کوزیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں اور قومی معاملات میں شامل کیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ وہ ملک ، معیشت اور معاشرے میں ہماری معاشرتی روایات کے مطابق بلاخوف وخطر اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ ہمارے مذہب اور ہمارے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسی بات کی تلقین کی ہے ۔ہماری تقریبا60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ہمیں ان کے لیے میرٹ ، صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ وہ اپنی روزی تلاش کرسکیں،ان کی فنی تربیت کرنا ہو گی تاکہ وہ مناسب ملازمت ڈھونڈ سکیں۔ کاروبار شروع کرنے کے لیے چھوٹے قرضوں کی فراہمی کے عمل کو آسان اور یقینی بنانے پر بھی توجہ دینی چاہیے ۔آپ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ہم غیر صلا حیت یا فتہ کی بجائے صلا حیت یا فتہ ورکرز کو دوسرے ممالک میں بھیجیں تو جہاں وہ بہتر اور باعزت روزگار حاصل کرسکیں گے وہیں وہ پاکستان کے لیے بہتر شناخت کا باعث بھی بنیں گےاس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونماکے لیے کھیلوں کے میدانوں کو بھی آباد کرنا ہو گا۔ فنونِ لطیفہ کی طرف بھی رغبت دلانا ہو گی اور معاشرے کے دانشوروں کی آرا کو پالیسی ساز ی کے عمل میں شامل کرنا ہو گا۔اس کے علاوہ ہمارے بچوں کی نشو ونما عالمی معیار سے کہیں کم ہے۔ہمارے بچے اسٹنٹنگ کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہیں۔ان بچوں اور ان کی ماں کو مناسب غذا نہیں مل رہی اور ہمارے ذہنوں میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ سماجی ناہمواری اور غربت سے بہت سے مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے علاقائی، معاشی اور سماجی ناہمواری کو دورکرنا انتہائی ضروری ہے خاص طور پر ہمیں بلوچستان اور دیگر دور دراز علاقوں کی تعمیرا ور ترقی پر توجہ دینا ہو گی۔آئینِ پاکستان میں ایک اچھا عمرا نی معا ہدہہے مگر افسوس یہ ہے کہ اس پر عمل ہو ہی نہیں رہا۔ میں نئی حکومت سے امید رکھتا ہوں کہ اس عمرا نی معا ہدہ کو ملک میں لاگو کریں گے تاکہ ایک نیا پاکستان وجود میں آسکے۔ہمیں اپنے انسا نی و سا ئل میں سر ما یہ کا ری کرنا ہے تاکہ وہ اس ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکیں۔یہ کام صرف اور صرف یکساں تعلیمی نظام اور دیگر سہولتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ملک کے طول وعرض اور خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں نظام تعلیم کو مضبوط بنایا جائے۔ تعلیم کے سلسلے میں خیبر پختونخوا کے تجربے کو دہرانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ صرف حکومت کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کے ذریعے ہی تعلیم عام کی جا سکتی ہے اور اس کا معیار بہتر بنایا جا سکتا ہے۔اس وقت ایک اندازے کے مطابق تقریبا لاکھ سے زائد بچے دینی مدرسوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔دینی مدارس کے طلبا کوسما جی د ھا رے میں لانے کے لیے جدیدنصاب تعلیم کو دینی نصاب تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہیے تاکہ یہ بچے تعلیم حاصل کر کے مختلف شعب زندگی میں اپنا مثبت اور جاندار کردار ادا کرسکیں ۔ اس سلسلے میں حکومت علمائے کرام کی مشاورت سے ایک متفقہ لائحہ عمل بنائے اور اس پر مستعدی سے عمل کرے۔فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے اعلان کے بعد جلد از جلد اس کو قومی دہارے میں شامل کرنے کے لیے فاٹا کے عوام کی امیدوں اور توقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں واضح پالیسیاں بنانی پڑیں گی اورفیصلے کرنے پڑیں گے ۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ پاکستان کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بعض مشکل چیلنجز کا سامنا ہے۔سب سے بڑا چیلنج مسئلوں سے گھری ہوئی معیشت ہے۔ کرپشن کے ناسور نے ملک کی اقتصادیات کو تباہ و برباد کر دیا ہے ، صنعتیں بندہیں ، بے روزگاری عروج پر ہے اور ملک اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہو ا ہے۔ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ قرضوں اور ان کے اوپر سود کی ادائیگی میں صرف کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہمارا تجا رتی توازن بھی دگر گوں ہے۔ہمارے برآمدات اور درآمدات میں توازن نہیں ہے۔ملک کی معیشت پر گردشی قرضوں کا بوجھ پچھلے سالوں میں بڑھ کر ارب روپے سے زیادہ ہو گیا ہے اور حالیہ دنوں میں پاکستانی روپیہ کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ مہنگائی اور افراطِ زر میں اضافہ ہوا ہے اوراس کا اثر عام آدمی خاص طور تنخواہ دار طبقہ پر پڑا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی معیشت کی بحالی کے لیے تن دہی سے کام کریں اور خط غر بت سے باہر نکلیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ معیشت کی سمت کو درست کرنا اور ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا حکومت کی اہم ترجیح ہے ۔ میں چاہوں گا کہ حکومت مالیاتی خسارہ کم کرے ، سر کا ری اداروں کے مسائل کو حل کرے اور سر ما یہ کاری کے لیئے ساز گار پالیسیاں بنائے اور سرمایہ کاری کرنے کے طر یقہ کو آسان اور سہل بنائے۔ اس میں مختلف محکموں کے کردار کو کم اور صوابدیدی اختیار ات کو ختم کرے اور انھیں ایک محدود وقت میں اجازت نامہ دینے کا پابند کرے۔ہمارے بینکوں اور سرمایہ کاروں کو اس سلسلے میں مز ید فعال ہونا پڑے گا اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا ہو گا تاکہ ملک میں خود انحصاری کے ساتھ ساتھ ملا ز مت کے مواقع بھی ہو ں ۔ ملک کے تمام ایوان ہائے تجارت اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں اور اپنی تجاویز سے حکومت کو آگاہ کریں تاکہ ضروری پیشرفت کی جاسکے۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستانی عوام کی استقامت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جہدِ مسلسل اور قربانیوں سے وطنِ عزیز میں دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پایا جاچکا ہے اور انتہا پسندی کے اثرات بھی سمٹ رہے ہیں ۔ میں ا فواج پاکستان کو سہرادینا چاہتا ہوں کہ اس وقت انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے دنیا میں سب سے کامیاب اور تجربہ کار فوج ہماری ہے۔دنیا کو ہم سے سیکھنا چاہیے۔ اس موقع پر میں اپنی جانب سے اور عوام کی جانب سے تمام شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ شہدا نے عظیم ترین قربانیاں پیش کر کے ہمارے ملک کی آبیاری کی ہے ۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائیں اور ان کے خاندانوں کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ نظام انصاف کی جانب توجہ بھی لازم ہے تاکہ غریب عوام نسلوں تک مقدمات کے چنگل میں پھنس کر مسائل کا شکار نہ ہوتے رہیں۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ ہمسایہ ممالک بالخصوص اور دیگر اقوام عالم کے ساتھ اچھے تعلقات کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی خارجہ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکاہے۔چین ، امریکہ ، ایران اور ترکی کے وزرائے خارجہ اور سعودی عرب کے وزیرِ اطلاعات کے حالیہ دور پاکستان اور ہمارے وزیرِخارجہ کا دور افغانستان سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں مزید گہرائی آئی ہے۔ انشا اللہ العزیز بیرونی تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ ہمیں من حیث القوم اقوام عالم کے ساتھ بالعموم اور اسلامی دنیا کے ساتھ بالخصوص اچھے تعلقات مربوط کرنے ہیں۔ پاک چین تعلقات مثالی دوستی اور باہمی اعتماد پر محیط ہیں۔ہزار موسم ، لاکھ امتحان آئے لیکن پاک چین تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ترہوتے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کی بھر پور حمایت کر تی ہے جس سے خطے میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ میں توقع کرتا ہوں کہ حکومت سی پیک کے منصوبے تیزی سے مکمل کرے گی جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور خطے میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گا۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ اسی طرح وسط ایشیا کے ساتھ مختلف تجارتی و توانائی کے منصوبوں پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کیا جائے گا تاکہ معیشت کی ترقی کے اہداف کو یقینی بنایا جا سکے۔ پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور ہمیں معیشت ، دفاع، ثقافت اور دیگر تمام شعبوں میں باہمی تعاون میں مزید اضافہ کرنا چاہیے۔ترکی کے ساتھ ہمارے تعلقات خصوصی نوعیت کے حامل ہیں جو نہ صرف ہمارے درمیان بلکہ اس پورے خطے میں استحکام کے فروغ کا ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں ۔ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔ہمارے اس ہمسایہ ملک میں دیرپا امن سے ہمارے لیے اور خطے کے لیے تجارت کی نئی راہداریاں کھلیں گی اور ہم اس سلسلے میں ہمیشہ انتہائی خلوص سے کام کرتے رہیں گے ۔ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہش مند ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ہر مثبت قدم کا خوش دلی سے خیر مقدم کریں گے ۔صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ کشمیر کے تنازعے کا حل دونوں ممالک کے درمیان پائیدار تعلقات کے لیے لازم ہے۔ تصادم اور الزا مات کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتے پاکستان کی حکومت اور عوام مقبوضہ کشمیر کی عوام کی سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے ۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہر سطح پر کاوشیں جاری رکھے گا ۔ کشمیری عوام نے اپنے حقِ خودارادیت کے لیے اپنے لہو سے نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ کشمیری عوام کو ان کے حقِ خود ارادیت سے محروم رکھنا قابلِ مذمت ہے ۔ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کی حالیہ رپورٹ ہمارے مقف کو تقویت دیتی ہے ۔ عالمی برادری اوردیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی جارحیت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ میں اپنے خطاب کے آخر میں آپ تمام ارکانِ پارلیمان کو اس ایوان کا حصہ بننے پر مبارک باد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو پاکستانی عوام کی فلاح و ترقی کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اقوام عالم میں پاکستان ایک ذمہ دار اور باوقار ملک کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

صدر مملکت عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر اپوزیشن جماعتوں نے عام انتخابات کے دوران مبینہ دھاندلی اور پارلیمانی کمیشن نہ بننے کے خلاف احتجاج کیا ۔ مسلم لیگ (ن) ، اے این پی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی نے احتجاجاً مشترکہ اجلاس کابائیکاٹ کیا جب کہ پیپلز پارٹی اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق احتجاج کا حصہ نہ بنے اور ایوان میں موجود رہے ،ایم ایم اے کے سینیٹر عطاءالرحمان نے صدر کے خطاب کے دوران خلائی صدر نامنظور نامنظور کے نعرے بھی لگائے ، وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کومناکر ایوان واپس لانے کی مخالفت کی جب کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 2 دفع اپوزیشن کو منا کر ایوان میں واپس لانے میں ناکام رہے اور اپوزیشن کے صدر مملکت کے خطاب کے بعد بات کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ۔ پیرکو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول پیش کی گئی اور پھر بیگم کلثوم نواز کے ایثال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔وفاقی مذہبی امور نور الحق قادری نے دعا کروائی ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف اور غیر ملکی سفرا سمیت دیگر شخصیات نے شرکت کی۔سپیکر قو می اسمبلی نے صدر مملکت کو خطاب کی دعوت دی تو مسلم لیگ (ن)کے ارکان نے خطاب سے قبل بات کرنے کی اجازت مانگی تو سپیکر قومی اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان کو بات کرنے کی اجازت نہ دی اور کہا کہ پارلیمان کی روایات میں صدر کے خطاب سے قبل اپوزیشن کو بات کی اجازت نہیں دی جاتی ، قومی اسمبلی کا کل اجلاس ہے اپوزیشن اپنی بات قومی اسمبلی کے اجلاس میں کرے ۔ جس پر مسلم لیگ(ن)،ایم ایم اے ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی ،اے این پی نے احتجاجاً واک آﺅٹ کیا جبکہ پیپلز پارٹی اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے واک آﺅٹ نہ کیا اور ایوان میں بیٹھے رہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے صدر کے خطاب کے دوران خلائی صدر نامنظور نامنظور کے نعرے بھی لگائے ۔اس موقع پر اسپیکر اسد قیصر نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو پیغام بھجوایا کہ وہ اپوزیشن کو منا کر واپس لائیں جس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ساتھ بیٹھے وزیر اعظم عمران خان سے اجازت مانگی جس پر عمران خان نے نفی میں سر ہلا دیا ۔بعد ازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپوزیشن کو منانے گئے مگر ناکام لوٹے ۔ اس موقع پر اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ اگر صدر مملکت کے خطاب کے بعد بات کرنے کی اجازت دی جائے گی تو اپوزیشن اپنا واک آﺅٹ ختم کرکے ایوان میں آنے کو تیار ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر دفاع پرویز خٹک سے مشورے کے بعد اپوزیشن کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ جس پر اپوزیشن نے اپنا احتجاج جاری رکھا اور صدارتی خطاب کا بائیکاٹ کیا ۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے واک آﺅٹ کے بعد پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر مسلم لیگ (ن)کے سینئررہنماﺅں خواجہ محمد آصف،سینیٹر پرویز رشید ، ایاز صادق، خرم دستگیر،رانا تنویر و دیگر نے میڈیا سے گفتگو کی ۔ اس موقع پر خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ آج ہم نے صدارتی خطاب سے پہلے سپیکر سے فلور مانگا ہمیں فلور اس لیے نہیں دیا گیا کہ قواعد اجازت نہیں دیتے لیکن ہم بتانا چاہتے تھے کہ ایسی مثال موجود ہے۔ شاہ محمود قریشی کو صدارتی خطاب سے پہلے سردار ایاز صادق نے بات کرنے کی اجازت دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بات کو نہیں سنا گیا اورمجبوراً ہمیں واک آﺅٹ کرنا پڑا۔ ہم مختصر بات کرنا چاہتے تھے کہ وزیر اعظم کے انتخاب کے دن قائد ایوان نے یقین دلایا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی کے مسئلے پر پارلیمانی کمیشن تشکیل کیا جائے گا لیکن آج مہینہ ہوگیا ہے اور پارلیمانی کمیشن تشکیل نہیں دیا گیا۔ ہم انہیں وعدہ یاد دلانا چاہتے تھے اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ سرکاری پارٹی کے کچھ حضرات ہمارے پاس آئے اور کہا کہ صدر کے خطاب کے بعد آپ کو بات کرنے کا موقع دے دیتے ہیں لیکن پھر کہا گیا ہے کہ اس کی بھی اجازت نہیں دے سکتے آپ کل صبح بات کرلیں۔ آج کی بدمزگی کی ذمہ داری سرکاری جماعت پر آتی ہے۔ چالیس سیکنڈ بات کرنے کی اجازت دے دیتے ہم نے صرف انہیں وعدہ یاد دلانا تھا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ شروعات غلط ہورہی ہیں حکومت رونگ فٹ پر شروعات کررہی ہے ہمیں حق سے محروم کیا گیا ہے۔سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ ہم چاہتے تھے اپنا موقف عوام تک پہنچاتے، چاہیں گے دھاندلی پر پارلیمانی کمیشن جلد تشکیل ہوکر کام شروع کردے، (آج)منگل کو ہم پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھائیں گے۔(آج) ہم پھر اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں اٹھائیں گے،ہم چاہیں گے کہ دھاندلی پر پارلیمانی کمیشن جلد تشکیل ہو۔