Buy website traffic cheap

تحریک

ضلع اوکاڑہ میں تحریک انصاف کی شکست

تحریر :عابد حسین مغل
پاکستان تحریک انصاف کی ضلع اوکاڑہ میں بدترین شکست ، پارٹی عہدیداران کی بے وفائی یا ٹکٹوں کی تقسیم میں پارٹی کی غلط پالیسی یاپھر ووٹرز پر پیسے کا راج، مضبوط امیدوار کیوں ہار گئے جماعت کے لیے لمحہ فکریہ ، تحریک انصاف کو ضلع میں کامیابی کے لیے مضبوط تنظیم سازی کی ضرورت ، ضلع اوکاڑہ کی کل 4قومی اور 8 صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں سے 4قومی اسمبلی اور 7صوبائی اسمبلی کی سیٹیں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کرلی جبکہ ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ لے کر آزاد امیدار کامیاب ہوئی اور پاکستان میں وفاق اور صوبے میں حکومت بنانے والی پاکستان تحریک انصاف کو ضلع بھر کی تمام سیٹوں پر ناکامی کا سامنا ہوا جو پارٹی کے لیے ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے اگر پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی تقسیم کی بات کی جائے تو پارٹی نے این اے 141کا ٹکٹ 2013کے الیکشن میں ضلع اوکاڑہ میں واحد منتخب ہونے والے ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری مسعود شفقت ربیرہ کو نظر انداز کرکے پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات سید صمصام علی بخاری کو دے دیا جس وجہ سے ضلع بھر میں تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز پارٹی پالیسی سے متنفر ہو گئے اس کے نتائج ضلع بھر میں تحریک انصاف کی شکست کی صورت میں سامنے ہیں ایسی طرح تحریک انصاف نے اوکاڑہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن 2015میں غلط امیدوار کو ٹکٹ دے کرپارٹی ساکھ کو بے حد نقصان پہنچا یااور وہ ہی غلطی دوبارہ کی گئی ،این اے 141کی ٹکٹ پارٹی نے سید صمصام شاہ بخاری اوران کے ساتھ پی پی 183سے مہر جاوید ، پی پی 190سے رائے حماد اسلم کھرل کو ٹکٹ دیا گیا اس حلقہ میں مہر جاوید اور سید صمصام علی بخاری نئے امیدوار تھے دیہاتی حلقہ ہونے کی وجہ سے ان کا حلقہ میں ووٹ بنک موجود نہ تھا جبکہ اس حلقہ میں چوہدری مسعود شفقت ربیرہ ،پی پی 183میں محمد اکرم بھٹی اور پی پی 190سے رائے حماد اسلم کھرل کا پینل مضبوط تصور کیا جاتا تھا پینل کو ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے تحریک انصاف کو قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔این اے 142اوکاڑہ سٹی کا ٹکٹ سابق وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال (مرحوم ) کے بیٹے نوجوان قیادت راؤ حسن سکندر ،پی پی 188کاٹکٹ انجمن مزارعین کے حمایت یافتہ چوہدری عبد اللہ طاہر اور اوکاڑہ شہر سے 189کا ٹکٹ معروف سماجی راہنما و تاجر چوہدری سلیم صادق کو دیا گیا ضلع بھر میں دو حلقوں میں تحریک انصاف کی کامیابی کو عوامی سطح پر واضح برتری حاصل تھی اس میں اوکاڑہ سٹی پی پی 189جس سے چوہدری سلیم صادق امیدوار تھے جبکہ دوسرا حلقہ پی پی188جس سے چوہدری عبد اللہ طاہر امیدوار تھے ، اوکاڑہ شہر کی سیٹ پر ہر زبان پر چوہدری سلیم صادق کا نام تھا ،لیکن الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی بھر پور کامیابی نے سب کو حیرا ن کر دیا ، تحریک انصاف کی شہر میں ناکامی کی دو وجوہات ہی دیکھنے کو ملی ہیں ایک تو مسلم لیگی امیدواران کا پیسے کا بے دریغ استعمال اور دوسراپاکستان تحریک انصاف کے عہدیداران وذیلی تنظیموں کی بے وفائی ہی ناکامی کی بڑی وجہ تھی 2015کے ضمنی الیکشن میں پارٹی کی ضمانت ضبط کروانے والے محمد اشرف خان سوہنا ،سابق ضلعی صدر اظہر محمود چوہدری اور چیئرمین یونین کونسل چوہدری محمد شفیق بھی صوبائی اسمبلی پی پی 189سے ٹکٹ کے امیدوار تھے عوامی سروے کے مطابق چوہدری سلیم صادق مضبوط امیدوار تصور کیے جاتے تھے کیونکہ محمداشرف خاں سوہنا ضمنی الیکشن میں اپنی سیاسی ساکھ کھو بیٹھے تھے ، سابق ضلعی صدر و ٹکٹ ہولڈراظہر محمود چوہدری بلدیاتی الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم پر متنا زع ہو کر کارکنوں میں مقبولیت کھو چکے تھے جس وجہ سے کارکنوں کی بڑی تعداد ان دونوں امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے خلاف نظر آتی تھی جبکہ شہر کے ملحقہ دیہاتوں سے چیئرمین یونین کونسل چوہدری محمد شفیق شہر کی سیاست میں غیر معروف تھے اس وجہ سے راؤ حسن سکندر کو بھی چوہدری سلیم صادق کی صورت میں اچھا پینل مل رہا تھا ، اس پینل کو ٹکٹ ملنے کے بعد محمد اشرف سوہنا نے سٹی صدر فیاض حسین چشتی سے مل کر کھل کر اپنی ہی جماعت تحریک انصاف کی مخالفت اور مسلم لیگی امیدواران کی حمایت شروع کردی، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے تو فیاض چشتی پر پیسے لے کر کارکنوں کو خریدکر مسلم لیگ کی حمایت میں ووٹ ڈالنے تک کا الزام بھی لگایا ہے لیکن اظہر محمود چوہدری کی مکمل خاموشی اورچوہدری محمد شفیق جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر چیئرمین یونین کونسل منتخب ہوئے تھے ان کی مسلم لیگی امیدواران کی کمپین تحریک انصاف کی ہار کی بڑی وجہ بنی اسی طر ح این اے 143میں سید گلزار سبطین شاہ پی پی 187میں پی ٹی آئی کے ضلعی صدرچوہدری طارق ارشاد اور پی پی 184سے آزاد امیدوار سابق صوبائی وزیر سید رضا علی گیلانی کی صورت میں بھی ایک مضبوط پینل تھا اس میں سب سے اچھا الیکشن چوہدری طارق ارشاد کا تھا ان کی بھی کامیابی کو یقینی کہا جاتا تھا لیکن ان کو بھی پی ٹی آئی کے امجد ڈولہ جیسے ہی کھلاڑیوں کی مخالفت کا سامنا تھا جو ایک بڑی وجہ بنی ان کوسابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو کی سپورٹ بھی ان کی ہار کو نہ رو ک سکی، اس حلقہ میں سید گلزار سبطین شاہ کو سید رضا علی گیلانی لے کر آئے تھے لیکن وہ خود مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ چھوڑ کر آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے تھے وہ پی پی 184اور پی پی 185سے امیدوار تھے لیکن 185میں میاں منظور وٹو کی بیٹی روبینہ شاہین وٹو پی ٹی آئی کی امیدوار تھیں جس وجہ سے میاں منظور وٹو اور سید رضا علی گیلانی کے درمیان مفاہمت نہ ہو سکی میاں منظور خاں وٹو نے این اے 143میں سید گلزار سبطین شاہ اور پی پی 187سے چوہدری طارق ارشاد کی حمایت تو کی لیکن پی پی 184 اورپی پی 185میں سید رضا علی گیلانی کی مخالفت کی اسی وجہ سے سید رضا علی گیلانی کے پی پی 185سے الیکشن میں حصہ لینے پر روبینہ شاہین وٹو اور این اے 144سے میاں منظور خاں وٹو بھی پینل سمیت الیکشن ہار گئے این اے 144میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو آزاد الیکشن میں حصہ لے رہے تھے پی ٹی آئی نے ان کے مقابلہ پر اپنا امیدوار میدان میں نہیں اتارا تھا ان کے بیٹے میاں خرم جہانگیر وٹو پی پی 186اور ان کی بیٹی پی پی 185سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار تھے میاں منظور خاں وٹو اپنے ہی گھر سے پورا پینل لے کر میدان میں آئے تھے یہ بھی ان کی ہار کی بڑی وجہ ہے میاں منظور خاں وٹو الیکشن سے چند روز قبل ہی پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو ئے تھے این اے 143اور 144میں تعمیر وطن گروپ اور شاہ مقیم گروپ کے درمیان چھوٹے چھوٹے اختلافات پاکستان تحریک انصاف کی ہار کی بڑی وجہ ہیں ماضی میں بھی ضلع اوکاڑہ میں تحریک انصاف کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا رہا تھا اوکاڑہ شہر میں پارٹی عہدیداران کی بے وفائی سے پارٹی کے مضبوط ترین امیدواروں کی ہار پارٹی قیادت کو اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اب ضلع اوکاڑہ میں ماضی کے پٹے ہوئے ناکارہ عہدیداران کی تبدیلی وقت کی ضرورت ہے اور پارٹی میں اچھی کار کردگی دیکھنے والے امیدواران کو پارٹی کے دست شفقت کی ضرورت ہے ۔