Buy website traffic cheap

ڈیجیٹل

عمران خان کی چومکھی لڑائی

عمران خان کی چومکھی لڑائی
اقبال حسین
عمران خان کی پہلی تقریر اور بیانات کا شور غوغا ابھی تھما نہیں تھا کہ مستقبل کے وزیر اعظم نے ایک اور بیان داغ دیا کہ میں وزیر اعظم ہاؤ س میں نہیں رہوں گا تو میرے ذہن مین اس وقت بانی پاکستان کا وہ بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے گورنر جنرل ہاؤ س میں رہنے سے انکار کیا تھا اور پھر سعودی سفیر کے سامنے پڑی سادہ پانی کی بوتل والی تصویر وائرل ہوئی تو خیالات نے کروٹ لی اور میں ماضی کے دھندلکوں میں ڈوبتا چلا گیا ،خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کی جوانی اور خلافت کا دور سامنے پھرنے لگا جس میں چشم فلک نے ایک امیر زادے کو جس کے خوشبو بھرے لباس کے چرچے پورے شہر میں تھے خلافت کی باگ ڈور سنبھال دی تو زمانے نے دیکھا کہ وقت وصال خلیفہ راشد کے گھر میں ایک ہی کرتا تھا جس کو دھو کر کفن کے طور پر پہنایا گیا ۔ کہتے ہیں کہ انسان کو مثبت انداز میں سوچنا چائیے اور اچھے وقت کی امید رکھنی پڑتی ہے کیونکہ بقول ناصر کاظمی زندگی پڑی ہے ابھی تو میں نے بھی ایک لمحے کو فرض کیا کہ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ گردش ایام بھی پلٹ جائے اور وہ صبح و شام پھر لوٹ آئیں کیونکہ ہمیں اس وقت ایسے ہی رہنما کی ضرورت ہے جو مثل خورشید ہو اور جس کی تابناکی سے ہمارا مستقبل سنور جائے لیکن اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو مسائل کا ایک بہت بڑا اژدھا منہ کھولے عمران خان کو ہڑپ کرنے کو تیار ہے۔ اب کپتان خان بھی ایک چومکھی لڑنے کو تیار ہو جائیں اور یہ جنگ ہوگی افسر شاہی، روایتی سیاست، غیر ملکی قوتوں اور ڈولتی معیشت کے خلاف ہو گی جس میں موصوف کو ایک ماہر جنگجو کی طرح چاروں طرف سے نہ صرف ان حملوں سے بچنا بھی ہے بلکہ دشمنوں کو شکست فاش بھی دینی ہے ۔ گو ابھی تک عمران خان نے باقاعدہ طور پر حلف نہیں اٹھایا لیکن عمران خان کا بغیر پروٹوکول پشاور کا تن تنہا دورہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہو کہ طوفان کی آمد آمد ہے اور زمانے کے انداز بدلنے کو ہیں کاش ایسا ہو کہ مخالفین ہاتھ ملتے رہ جائیں اورنیازی خان ان طوفانوں سے ہماری امت کی کشتی کو سنبھالتا ہوا کنارے تک لا سکے اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جائے۔
موجودہ زبوں حال ملکی معیشت مستقبل کی حکومت کے لئے سب سے اہم اور پہلا مسئلہ ہے مو جودہ ملکی معیشت کی ڈولتی ناؤ اب اس بات کی متقاضی ہے کہ بیرون ملک قرضہ جات پر انحصار کرنے کی بجائے اگر عمران خان اپنے بیرون ملک تمام فالوورز اور ساتھیوں سے دو لفظی درخواست بھی گزار دے کہ نئے پاکستان کو آپ کے سرمائے کی ضرورت ہے اور پیسہ ہنڈی کی بجائے حکومتی اداروں کے ذریعے بھیجا جانے لگے تو ملک ایک ایسی مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملے گی جس کی مثال نہیں ملتی ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں جیسا اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑسکتا ایسے ہی اکیلا کپتان ہمارے ملک کو ان گھٹا ٹوپ اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا جب تک ہم سب اس کاساتھ نہ دیں۔ اس کے علاوہ ڈیم بنانے جیسی فنڈ ریزنگ سکیم بھی میرے خیال میں عوام کی خاص توجہ حاصل نہیں کر سکی تو قرض اتارو سکیم یا اس طرح کی فنڈ ریزنگ سکیم اب ہماری عوام میں وہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکے گی جن کے موجودہ حالات متقاضی ہیں ۔ ادھر ہنود و یہود کی نظریں بھی ہماری ملکی سیاست پہ لگی ہوئی ہیں تو اس صورت میں کپتان کو کسی بھی غیر ملکی طاقت یا آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج کی توقع رکھنا ایسے ہی جیسے دشمن سے گولی کی بجائے حلوے کی پرات کی توقع رکھی جائے اسی تناظر میں عمران خان کا ایک پرانا دعوی بھی خاص اہمیت رکھتا ہے جس میں اس نے ملکی سرمایہ لوٹنے والوں کے سرمائے کی واپسی کا وعدہ کیا تھا جو مستقبل قریب میں تو مفید ہو سکتا ہے لیکن اس وقت کوئی امید بر نہ آنے صورت نطر آر ہی ہے ۔عمران خان کو اب ضرورت ایک شوکت عزیز جیسے ماہر معاشیات کی ہے جو ہمارے ملک کی معیشت کی الف ب کو نہ صرف سمجھتا ہو بلکہ ایسے منصوبے بھی پیش کر سکیں جو دور رس ہونے کے ساتھ ساتھ فوری طورپر نافذ العمل بھی ہوں۔ عوام کو نہ صرف سستی بجلی اور پٹرول چاہئے بلکہ ضروریات زندگی ارزاں ہوں تو تب وہ عمران خان کے گن گائیں گے ۔ سابقہ حکومت نے کسانوں کو جو ریلیف پیکج دیا تھا ان میں سے ایک اہم چیز ٹیوب ویل صارفین کے پاس واپڈا کے بقا یا جات تھے جو میرے خیال میں اربوں کے بقایا جات کی صورت میں اب بھی کسی مسیحا کے منتظر ہیں اس کے علاوہ ہر مالی قومی ادارے کو جس سائنسی طریقے سے نوچا کھسوٹا جاتا رہا ہے اگر ان قومی اداروں کے نادھندگان کو کوئی ریلیف پیکج دے کر واجبات کی وصولی ممکن ہو جائے تو کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے۔
ایک اور بڑی طاقت افسر شاہی کی ہے اور عوام روزانہ یہ بات سن رہی ہے کہ فہرست تیار ہو گئی ہے، کسی کرپٹ افسر کو برداشت نہیں کیا جائے گا لیکن مجھے یہ بات صرف بیانات تک ہی نظر آ رہی ہے کیونکہ ایک مناسب حد تک اکھاڑ پچھاڑ تو ہو سکتی ہے مگروسیع پیمانے پر افسر شاہی کو چھیڑنے سے نہ صرف افسران بالا بد دل ہوں گے بلکہ ہر تحریکی کام میں رورے اٹکانے اور منصوبہ جات کی فائل کو بجائے پہیہ لگانے کے سرد خانے کی روایتی کوشش کریں گے۔ اس لئے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف خربوزوں کے کھیت کی رکھوالی گیدڑوں سے کروانے پر مجبور ہو گی لیکن یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ افسر شاہی کو نتھ ڈال دی جائے اس کے علاوہ میرے خیال میں اتنے محاذ کھولنا خود عمران خان کی سیاست کے لئے بھی ایک امتحان سے کم نہ ہو گا۔ مجھے تو اب ایسا لگ رہا ہے کہ پرانے پاکستان کی ڈینٹنگ ، پینٹنگ اور ٹھوکا ٹھاکی کرنے میں ہی موصوف کو اتنا الجھا دیا جائے گا کہ وہ نئے پاکستان کی تعمیر سے عاجز آسکتے ہیں
روایتی سیاست کی بات کریں تو اس وقت عمران کی حکومت کو سب سے بڑا خطرہ دھرنے کی سیاست کا ہے جس کا ذکر میں اپنے اولین کالم میں کر چکا ہوں کہ کپتان نے اپنی قومی اسمبلی کی قلیل نشستوں نے نواز حکومت کی چولیں تو ہلا دی تھیں تو اب یہ کیسے ممکن ہو گا کہ اس کے تمام سیاسی حریف ان کو چین کی بانسری بجانے دیں اور اس بات کا واضح ثبوت مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری اور شہباز شریف گھٹ جوڑ ہے جس سے صاف نطر آ رہا ہے کہ پرانے مداری نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر کام میں روڑے اٹکائیں گے اور بات دھرنے تک بھی پہنچ سکتی ہے جس کے بعد کا انجام ہر اہل نظر کے سامنے ہے۔
کپتان کی سب سے اہم جنگ معاشرتی نظام سے ہوگی کیونکہ جب تک ماحول نہیں بدلے گا آنے والی نسلوں کی تربیت ممکن نہیں ہو سکے گی اس مقصد کے حصول کی خاطر یکساں نظام تعلیم اور نا انصافی سے پاک معاشرہ ہی عمران خان کا خواب ہے لیکن اس خواب کی تعبیر اس صورت میں ممکن ہے جب عوام اور افسر شاہی ان کے ساتھ ہوں ۔ ایک لمحے کے لئے سوچئے کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پہ پانی پی سکیں ( شیر سے مراد میری مسلم لیگ نون والا شیر نہیں ہے)۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے کیا خان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں تو پہلی فرصت میں تیار ہو جائیں کہ کپتان نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں تعیشانہ زندگی کی بجائے سادہ زندگی گزاروں گا۔
میں نے آج تک کپتان کے طرز سیاست پہ تنقید نہیں کی لیکن فرسودہ نطام کا رونا ہر حال میں روتا رہا ہوں اور ہمیشہ اس بات کا دعوی دار ہوں کہ نیا پاکستان اس وقت معرض وجود میں آسکتا ہے جب ہم سب مل کر پرانے پاکستان کو مکمل طور پر چھوڑ نہیں دیتے لیکن کوئی بھی اس پرانے پاکستان سے ہجرت کرنے کو تیار ہی نہیں ہے تو نیا پاکستان ایک خواب ہی رہے گا وہ نیا پاکستان جس میں سب نیک ہوں ، نظام تعلیم سب کے لئے ایک ہو ، کوئی چور اور لٹیرا نہ ہو ، کوئی ظالم ، رسہ گیر اور چور نہ ہو ۔ امن اور بھائی چارہ ہو ۔ اخوت و محبت ہو ۔ جہاں غریب کی بھی اتنی عزت ہو جتنی پراڈو والے کی ہوتی ہے ۔ جہاں زینب اور حسینہ اکیلی اور تنہا سنسان گلی سے گزر سکیں ۔ جہاں فیصلے بھی عمر بن الخطابؓ والے ہوں اور عمل پیرا ہونے والے بھی خالد بن ولیدؓ جیسے ہوں ۔ جہاں ہر شاخ پہ الو نہ بیٹھا ہو جہاں قاضی شریح جیسا منصف ہو تو خلیفہ بھی حضرت علیؓ جیسا ہو۔