Buy website traffic cheap

فکس میچ شروع۔۔۔!!

فکس میچ شروع۔۔۔!!

فکس میچ شروع۔۔۔!!
تحریر: عدنان عالم
حکومت کی ریل جمہوریت کی پٹڑی پر چل نکلی ہے۔تحریک انصاف انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت سازی کے مرحلے سے گرنے کے بعدآزمائش اور امتحان کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔بظاہر ’’میچ فکس ‘‘ہو گا مگرٹیم ورک سامنے آئے گا۔ایک منفرد اور تجربہ کار ٹیم کے انتخا ب کی گونج بہتری کی نوید سنا رہی ہے۔دوسری جانب اب تک کی مضبوط اپوزیشن کی جانب سے بھی ا حتسابی مہم تیار ہے جس سے حکومت کو ہر لمحہ گزرنا ہو گا ۔ حزب اختلاف میں سب سے اہم کردار مسلم لیگ ن کا ہو گا جو بار بار اقتدار کے ایوانوں میں اپنی ٹیم کے ساتھ ’’فکس‘‘ میچ کھیلتی رہی ہے۔ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کو مزید تقسیم سے بچنے کے لئے بہترین حکمت عملی اپنانا ہو گی ۔اپوزیشن میں شامل تمام جماعتوں کے لئے محض دھاندلی ہی نہیں بلکہ خود احتسابی کی جانب بھی غور کرنے کی ضرورت ہے اپنی اپنی جماعت کے مقاصد اور بقاء کے پہلو کو نظر انداز کرنے کی روش چھوڑ کر’’خلائی‘‘طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہو گا جو نظریہ ضرورت کے تحت سیاسی جماعتوں میں توڑپھوڑکا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں، بلکہ عمران خان کے فین کلب سے پہچانی گئی اور پھر اس میں ’’سیاستدانوں ‘‘کی کھیپ شامل کر کے تنظیمی صورت سامنے آئی اور ایک سیاسی جماعت بن کر ابھری ۔اس جماعت میں عمران خان کی شخصیت سب سے متاثر کن ہے ۔عمران خان نے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ اپنی سیاست کا آغاز نئی سیاسی جماعت بنا کرکیا۔مگر مسلم لیگ ایک تسلسل کا نام ہے جس کی کمان روایتی سیاستدانوں کے ہاتھ میں رہی ۔یہاں تک کہ ایک آمر بھی مسلم لیگ کی چھتری تلے بیٹھا جموریت کے تسلسل کے لئے سیاسی جدوجہد کا پرچار کر رہا ہے ۔ہر نومولود سیاستدان کو مسلم لیگ سے ہی سیاسی کیریئر کا آغاز کرنا پڑا۔ پھر وہ اڑان بھرتے رہے یا پھر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر بیٹھ گئے ۔یہاں تک کہ تحریک انصاف کے ساتھ بھی موجودہ حکومت میں مسلم لیگ کے چند’’ ٹکڑے‘‘(مسلم لیگ ق،عوامی مسلم لیگ،مسلم لیگ فنکشنل) شامل ہوئے تو حکومت سازی میں کامیابی حاصل ہوئی۔ یہی لمحہ غور طلب ہے کہ مسلم لیگ کے ’’بڑے‘‘ اس غوروفکر سے کیوں ناپید ہیں کہ مسلم لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ختم ہونا چاہیے۔ آخر مسلم لیگ ہی تقسیم کیوں ہوتی ہے ۔ جمہوری ہو ،چاہے آمریت زدہ حکومت فارورڈ بلاک مسلم لیگ ہی سے کیوں سامنے آتا ہے۔ تخریبی حالت یہ ہے کہ الف سے ے تک مسلم لیگ موجود ہے مسلم لیگ ہی کی تختی ہر کوئی اپنے گلے میں لٹکائے جمہوریت کا راگ الاپ رہا ہے مگر اقتدار کے لئے اس میں ،ن ،م کا اضافہ کر کے مفاداتی سیاست کو ترجیح دے دی جاتی ہے۔مسلم لیگ کی قیادت نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ کہ قیام پاکستان کی داعی جماعت کے ٹکڑوں میں تقسیم کس کا ایجنڈا ہے اور کیوں متحدہ مسلم لیگ کی کوششوں کو زائل کیا جاتا ہے۔
۹۹ء میں بھی’’ صفایا‘‘ کیا گیا اور مسلم لیگ ہی کے فارورڈ بلاک سے حکومت سازی کی گئی تب بھی مسلم لیگ کی قیادتوں نے سر جوڑنے کی بجائے مفادات کے آگے سر جھکانے کو ترجیح دی۔پھر موقعہ ملنے پر بھی مسلم لیگ (ن) نے مسلم لیگ کی بقاء کے لئے کوئی راست قدم نہیں اٹھایا ۔
تحریک انصاف کو کاروبارِ حکومت کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کی پختگی اور شفافیت کو بھی برقرار رکھنا ہو گا ۔اپنی جماعت کے ارتقاء اور یکسانیت کے لئے جماعت کے مقاصد کو اقتدار کے بدمست نشے میں فراموش نہیں کرنا،بلکہ ہوش اور حواس سے ان برائیوں کا صفایا کرنا ہو گا جو ریاست کو گھن کی طرح چاٹ گئیں۔محض انتخابات میں حریفوں کا’’ صفایا‘‘ اگلی صف میں آنے کے لئے باقی نہیں ، اپنی صفوں میں بھی اتحاد قائم رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ’’سیاسی اتحاد‘‘مشروط اور جانبدار ہوتے ہیں ان میں دراڑوں کی گنجائش موجود رہتی ہے۔محض غیر متنازعہ لیڈرشپ ہی متحد رکھنے کی ضامن ہوتی ہے اور تحریک انصاف کی بنیاد سیاسی بنیادوں پر نہیں شخصی بنیادوں پر قائم ہوئی جس میں عمران خان کی پر اثر شخصیت کا جادو چلتا گیا اور تحریک انصاف بنتی گئی۔اب ’’تبدیلی ‘‘کے ساتھ ہی ایک نئی تحریک انصاف سامنے آئے گی جس میں نئے اور پرانے سیاستدانوں کی فراست کا امتحان ہو گا ۔ یہی توقعات مسلم لیگ سمیت دیگر جماعتوں سے بھی ہونی چاہیئے کہ وہ میثاق جمہوریت کی بجائے ،جماعتی بنیادوں پر سیاست کو فروغ دیں اور توڑ پھوڑ کے عمل سے بچنے اور دوسرے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے باز رہنے کے لئے اور’’ فکس میچ‘‘ کھیلنے کے لئے سیاسی کارکنوں کی نظریاتی تربیت کے عمل کا آغاز کریں،کیونکہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کا حسن ہیں ’’سیاسی حماقتیں‘‘ نہیں۔