Buy website traffic cheap

ڈاکٹر

لاہور کی ادبی فضا”جشن ڈاکٹر زبیر فاروق“ سے معطر

حسیب اعجازعاشر

روزبگولے اُڑتے ہیں
اُڑتا جائے صحرا وقت
ڈاکٹر زبیر فاروق کو اُردو ادب کے پہلے عرب شاعر قرار دیا گیا ہے ،اُردو کے61 مجموعہ کلام شائع ہوچکے ہیں،1971سے 1978تک بسلسلہ تعلیم کراچی میں مقیم رہے، ڈو میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ نمودسحر کے سیکریٹری او ر سب ایڈیٹر رہے، ٹین ایگرکی ادارت بھی کی، کراچی میں قیام کے دوران انگریزی ماہنامہ ہاراولڈ میں چھپتے رہے، خیلج ٹائم میں ایک سال تک ان کا طبی ہفتہ وار کالم چھپتا رہا،شاعری میں شفیق سلیمی کو اپنا اُستاد مانتے ہیں ،شاعری کے علاوہ فلمی کہانیاں لکھنا، گلوکاری، اور میوزک کمپوزنگ کا بھی شوق ہے، اپنی غزلوں پر بننے والی میوزیکل ویڈیوز میں اداکاری بھی کی ہے ، ڈاکٹر زبیر فاروق کی اپنی آواز میں آڈیو کیسٹ ”صدائے دل“بھی منظر عام پر آکر دھوم مچا چکی ہے
متحدہ عرب امارات کے مختلف مقامات پر برپا ہونے والی ہفتہ وار ادبی نشست نے جلد ہی ڈاکٹر زبیر فاروق کے ڈرائینگ روم میں جگہ بنالی، شفیق سلیمی، اسلام اعظمی، منور عزیز، سعید کوکب، گلوکار عزیز عزمی اور میزبان ڈاکٹر زبیر اس ادبی نشست کے بنیادی ممبر تھے۔یہ نشست لگ بھگ پچیس سال جاری رہی، ان نشستوں میں دوبئی تشریف لانے والے پاک و ہند کے درجنوں شعراءشرکت کر چکے ہیں۔ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سویلین اوارڈ ہلال امتیاز سے بھی نوازا جاچکا ہے، اُردو کے علاوہ عربی شاعری بھی خوب کرتے ہیں اور انگلش میں طبع آزمائی میںپیچھے نہیں رہے، انگلش کلام کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے
How could i dream of decieving you
I could never even think of leaving you
My mind could be distrustful at times
But my heart’s always beliving you
ڈاکٹر زبیر فاروق کی اُردو شعرو ادب اور شخصیت پر ہلا پھلکا ادبی جائزہ لیا جائے تو ان کی زندگی میں اُردو کی ایک خاص اہمیت ہے، اُس کی زندگی اور اردو سے محبت کی کھلی کتاب کی طرح ہے،وہ کھلی کتاب کی طرح ہے، وہ کھلے دل سے دوستوں سے ملتا ہے اور دوستوں سے خلوص کی توقع کرتا ہے،دوستوں کے رویے پر شاکی ہونے کے بجائے وہ چراغ رُخ زیبا تھا مگر خوشیوں میں نکل پڑتا ہے،تلاش کا یہ عمل آسان نہ تھا، تیرگی میں کھوٹے کھرے کی پہچان آسان کب رہتی ہے اور پھر بندہ مزاج کا سادہ اور دل کا اُجلا ہو تواُلجھن اور بڑھ جاتی ہے
جب چاندنی پھیلی تھی جو بن پہ تھا چندا بھی
تب سامنے میرے تھا تیرا رُخ زیبا بھی
ڈرتا ہوں کہیں تو بھی آجائے نہ دھوکے میں
سادہ ہے مزاجاً بھی دل کا ہے تُو اُجالا بھی
اس کی زندگی میں اردو اور دوستوں کی محبت شامل رہے اور جہاں تک غم دنیا کا تعلق ہے یہی تو زندگی ہے ، غم و درد اور آنسو
تمھارے غم کے ہوں اے کاش،آنسو
یونہی لگتے نہیں خوش باش، آنسو
جبھی تو یہ نڈھال اتنے ہوئے ہیں
اٹھاتے ہیں وفا کی لاش آنسو
آنسو ہیں تو ڈاکٹر زبیر فاروق کے ہاں چھیڑ چھاڑ بھی ہے ، بے ضرر سی ۔۔مسکراہٹیں بکھیرتی ہوئی۔۔گدگداتی ہوئی۔۔۔یہ غزل دیکھیئے۔
کل رات بن گئی تھی مری بات خواب میں
تھا بڑھ کے اُسکا میں نے لیا ہاتھ ہاتھ میں
جاگا تو دیکھا جسم ہی سارا تھا تر بتر
ہوتی رہی تھی وصل کی برسات خواب میں
پھر یوں ہوا کہ ساری حدیں پار کرگیا
قابو میں رکھتا کب تلک جذبات خواب میں
ڈاکٹر زبیر فاروق اپنا پل پل شاعری کی خواب ناک فضا میں گزارتا ہے، وہ اُس وقت بھی فکرسخن میں مصروف ہوتا ہے جب دوسرے نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں زندہ ہے اور خوش ہے کون کیا کر رہا ہے۔اُسے اس بات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔جب وہ کسی کے بارے میں برا سوچتا نہیں تو ایسے میں کوئی اُس کے خواب محل کے طرف پتھر لفظ اُچھالتا ہے تو وہ کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔
دل کو تجھ سے بات کرنے کا بہت ہی شوق ہے
تیرے لہجے کی ہمیشہ تلخیاں ڈستی رہیں
وہ یہ سمجھ نہیں پاتا کہ محبت کی پکار کے جواب میں سنگ کہاں سے اور کیوں آنے لگتے ہیں؟ اُداسی کے بادل گھر گھر کرآنے لگتے ہیں تو اس کا تجزیہ کرنے لگتا ہے گوتم کی طرح وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے
درد کی اس حکمرانی میں خوشی ممکن نہیں
درمیاں ان بہتے اشکوں کے ہنسی ممکن نہیں
سانس لینا بھی ہوا مشکل مجھے تیرے بغیر
زندگی میں سہہ سکوں تیری کمی ممکن نہیں
دل پتھر اور سوچ دریچہ بند ہوجائے تو دوسری بات ہے،مگر پھر آدمی انسان کہاں رہتا ہے؟حالات کیسے بھی ہوں ڈاکٹر زبیر فاروق اپنے جذبات کو مرنے نہیں دیتا، تعلقات میں دراڑ آجائے تو ملول ہوجاتا ہے اور یاد دلانے لگتا ہے
تم سب کے عہد نامے پر کیا دستخط نہیں
اس میں قصور میرا ہی یارو فقط نہیں
پھر خیال آتا ہے کہ دوست کے دل کے آبگینے کو کہیں ٹھیس نہ لگ جائے۔۔کہیں دوست روٹھ نہ جائے،سو اُس کی دلجوئی یوں کرتا ہے
حالانکہ اُس نے آج تک سچ کا دیا نہ ساتھ
جو کہ رہا ہے آج وہ کچھ بھی غلط نہیں
گزرے ہوئے دن اور مصروف راتیں یاد آتی ہیں تو مسکراہٹ آن لیتی ہے، فتوحات محبت کی کتاب خود بخود صفحے اُلٹنے لگتی ہے۔یاد آتا کہ زندگی ایسی بیکار بھی نہیں گزری۔ مسکراہٹ ہونٹوں پر کھیلنے لگتی ہے۔
میں مجنوں کا کچھ روز ہم سررہا ہوں
مجھے مرتبہ یہ بھی حاصل رہا ہے
یہ مسکراہٹ آپ ہی آپ ایک مختلف شکل اختیار کر لیتی ہے۔بے اختیار ہنسنے کو اور ہنسائے کو جی چاہنے لگتا ہے، مسکراہٹیں بکھیرنے والی نظم ”ٹیلی فون“یاد آجاتی ہے تو دل مچلنے لگتا ہے، غم دنیا اور شکوے اور شکاتیں بجا۔۔۔۔۔۔سب ایسے ہی رہنا ہے تو کیوں نہ کچھ مختلف کر لیا جائے، دو گھڑی کے لئے خود بھی ہنس لیا جائے، اور دوسروں کو بھی ہنسا دیا جائے ۔
یہ کس نے مٹا ڈالا مرے پیار کو نمبر
دیوار پہ لکھ رکھا تھا دلدار کا نمبر
مصروف ہی ملتا ہے صبح و شام یہ مجھ کو
ہے کس نے دیا مجھ کو یہ بیکار کا نمبر
ڈاکٹر زبیر فاروق کی شاعری کے اجزائے ترکیبی پرانے سہی وہ نئی بات نکالنے کا ہنر رکھتا ہے اور شاعری سنانے اور ڈھنگ اُس کا اپنا ہے ، سطح آب پُرسکون مگر تہہ آب اضطراب ہی اضطراب ۔۔۔۔عرض کی تمنا جوں کی تُوں ہے ۔۔محبوب کی بے اعتنائی صدیوں پہلے کی طرح ہے۔۔محبوب کی بے رُخی اور بے وفائی کی ادائیں غزل کو توانائی بخشتی ہیں ۔۔ غزل ایسی سخت جان ہے کہ کم بخت مرتے مرتے بچ جاتی ہے اور پھر دوسری اصنافِ شاعری کو ترحمانہ نظروں سے تکنے لگتی ہے۔۔غزل کو عوام سے گفتگو ہے اور عوام ہی اسے دوام بخشتی ہے ۔۔غزل وحشت پسند ہے۔ ۔یہ اپنے خالق سے ابنار ملٹی چاہتی ہے۔۔
زندگی بھر کی یہی وحشت ہے میاں
آگہی کی یہی قیمت ہے میاں
پُرسکوں یونہی نہیں لگتے ہیں
عمر بھر کی یہ ریاضت ہے میاں
چاروں موسموں اور زندگی کے مختلف رنگوں کی طرح ڈاکٹر زبیر فاروق کی شاعری میں ہر طرح کے رنگ موجود ہیں۔بات کچھ وقت نکالنے اور سمندر کھنگانے کی ہے، آب دار موتی آپ کے ہاتھ ہی جائیں گے
نظر نہ آئیں گے تجھ کو زمین رنگ ہیں یہ سب
بچھے ہیں ہرطرف ہی یہ حال،خیر ہوتیری
خیالات کی رنگا رنگی اور ڈاکٹر زبیر فاروق کی اُردو شاعری سے محبت اُسے ایسی توانائی بخشے ہوئے ہے کہ اُس کے قدم ماند نہیں پڑتے، ساتھ شعری مجموعوں کی تخلیق عام بات نہیں ایک سنگِ میل ہے، اب بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ ڈاکٹر زبیر فاروق ابھی تازہ دم ہے
بتاتے ہیں تیور یہ فاروق کے
وہ ڈالے گا لازم کوئی واردات
ڈاکٹر زبیر فاروق کامیابی کے ساتھ اپنا شعری سفر جاری رکھے ہوئے ہے، بے وفائی کے زخموں اور بیانئے میں لکنت کے باوجود وہ خواب محلوں کی تعمیر پر بضد ہے ، حوصلے،ہمت اور لگن کے ساتھ
خدا اور وقت بھی فاروق اُن کا ساتھ دیتا ہے
کہ جو ہیں بانٹتے آسانیاں پابند لوگوں میں
گزشتہ دنوں ڈاکٹر زبیر فاروق کے اعزاز میں اعظمی پبلیکیشن کے زیراہتمام پلاک،لاہور میں ”جشن ڈاکٹر زبیر فاروق“کا انعقاد کیا گیا جس میں حلقہ اُردو ادب کے وابستہ نمایاں شخصیات نے کثیر تعداد نے شرکت کی، شفیق سلیمی کے زیر صدارت اس تقریب میں نجیب احمد، خالد شریف، عباس تابش، اسلام اعظمی ، شائستہ مفتی،احمد یزدانی، نبراس سہیل، ممتاز لاہوری بھی شریک ہوئے ۔ظہیر بدر نے نظامت کی۔مقررین نے اپنے خطاب میں ڈاکٹرزبیر فاروق کی ادبی خدمات کے اعتراف میں خراجِ تحسین پیش کیا۔تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی تقریب کے پہلے حصے میں شعراءکرام نے اپنے اپنے منفرد کلام اور لب و لہجہ سے محفل کے ادبی رنگ کو خوب دوبالا کیا۔شرکاءکی دلچسپی قابل دید تھی، جو شعراءکر کلام بہت محظوظ ہوتے رہے اور داد و تحسین بھی لٹاتے رہے ۔جبکہ تقریب کے دوسرے حصے میں معروف گائیک ظہوراحمد(دبئی) اور غلام عباس نے اپنے ڈاکٹر زبیر فاروق کے کلام پر اپنی آواز کا جادو جگایاکہ شرکاءبے ساختہ واہ واہ کہہ اُٹھے ۔۔ صاحب محفل ڈاکٹر زبیر فاروق نے لاہور میں اس شاندار و یادگار تقریب کے انعقاد پر اسلام اعظمی کا شکریہ ادا کیا اور شرکاءسے بھی اظہار تشکرکیا جو دلجمعی کے ساتھ تقریب کے اختتام تک نشستوں پر برجمان رہے ۔