Buy website traffic cheap

parliment outside

کون کرسی پر بیٹھے گا ؟

کون کرسی پر بیٹھے گا ؟
رقیہ غزل
پاکستان میں جمہوری عمل کی تاریخ کچھ بھی ہو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم ملکی تاریخ کے گیارویں عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ انتخابی عمل سبوتاژ کرنے اور انتخابات کو متنازعہ بنانے کی سیاسی شعبدہ بازیاں انجام کو پہنچ چکی ہیں ۔ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کی ہزار ہا کوششوں کے باوجود انتخابی عمل کو پر امن اورشفاف بنانے کے لیے پورے ملک میں ضروری انتظامات کئے جا چکے ہیں ۔اپنے دور حکومت میں ہر مشکل مرحلے میں افواج پاکستان کو بلانے والوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا کہ پاکستانی قوم سلامتی اداروں کی زیر نگرانی تیسری آئینی مدت کے لیے وفاق اور صوبوں میں جمہوری حکومتوں کا انتخاب کرنے جارہی ہے ۔
حالیہ انتخابات ہر لحاظ سے منفرد ہیں کہ ایک طرف تو روایتی قیادت کے خلاف احتسابی عمل جاری ہے اور دوسری طرف مذہبی جماعتیں ’’متحدہ مجلس عمل ‘‘ کے اتحادی جھنڈے تلے لادین عناصر کے خلاف جنگ کا نعرہ لیکرکر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جبکہ نظریاتی قیادت کی امین سمجھی جانے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف اپنے منشور سے ہٹ چکی ہے اور جیت کے لیے ہر طرح کاہتھکنڈا استعمال کیا جا رہا ہے۔پیپلز پارٹی کے قائدین پر بھی کرپشن کے مبینہ الزامات ہیں تاحال کوئی کاروائی نظر نہیں آرہی البتہ بلاول بھٹو زرداری ایک شعلہ بیاں مقرر اور لیڈر بننے کی کوشش کر رہاہے اس کو حالیہ انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی نہ بھی حاصل ہو لیکن اگر وہ آنے والے سالوں میں با قاعدگی سے عوامی رابطے میں رہا تو مستقبل کے لیے اچھی توقعات رکھ سکتاہے ۔بہرحال مقابلہ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہی نظر آتا ہے پاکستانی عوام ملکی و مذہبی معاملے میں بہت حسا س اور جذباتی ہیں ایسے میں شریف خاندان ہمدری حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہا ہے کہ مسلم لیگ کے قائدین بد عنوانی اور کرپشن الزامات ثابت ہونے کے بعد سزا کے حقدار قرار پائے ہیں اور ملک مخالف بیان اور اغیار سے یارانہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ایسے میں سروے تو مسلم لیگ ن کی پوزیشن کمزوربتاتے ہیں پھر بھی شہباز شریف ایک طاقتور امیدوار ہے لیکن اس کی کشتی بھی مکافات عمل کے بھنور میں اٹکتی نظر آتی ہے ۔
یہ کہنا پڑے گا کہ حالیہ سیاسی منظر نامہ تشویشناک اور افسوناک ہے اخلاقیات کا جنازہ اٹھ چکا ہے اورعوام سے کوئی بھی مخلص نظر نہیں آتا ۔ ارکان پارلیمینٹ کی طرف سے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں حالانکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے بارہا کہاگیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو تمام اختیارات حاصل ہیں اور کسی بھی ادارے کا کوئی دباؤ نہیں ہے ۔ ملکی و قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی تو جیسے روایتی سیاستدانوں کا وطیرہ بن چکا ہے ۔بلاشبہ درج بالا بیانیے کی وجہ احتسابی گھیرا ہے جسکا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے لیکن انتہائی افسوسناک ہے کہ اب تو مفادات کے رسیا کھلم کھلا ملک و قوم کے دشمن بن چکے ہیں اور اداروں کیخلاف سر عام نعرہ بازی اور ڈائیلاگ بازی کر رہے ہیں لیکن قانونی گرفت سے آزاد ہیں ۔
اخلاقی زوال کی وجہ سے پڑھے لکھے باشعور افراد انتخابی عمل سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں چونکہ وہ حالات کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ ہر جماعت یہ نعرہ لگا رہی ہے کہ اس نے انقلابی تحریک کا آغاز کیا تو شریف خاندان سمیت دیگر مجرمان گرفت میں آرہے ہیں ۔جب بھی ایسا کوئی مضحکہ خیز بیان یا تجزیہ سامنے آتا ہے تو ذہن میں وہ چوہا ضرور آتا ہے کہ جو اس ڈر سے چھپتا پھر رہا تھا کہ اس پر شیر کے قتل کا الزام نہ لگ جائے ۔قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک جنگل میں ایک شیر اپنی طبعی موت مر گیا مگر رات میں کتوں نے اسے یوں جھنجھوڑا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی حملے کے نتیجے میں اس کی موت ہوئی ہے ۔چوہا شیر کا قریبی دوست تھا جو اکثر شکاریوں کے جال میں پھنسنے پر اس کی مدد کر دیا کرتا تھا ۔لومڑی سب سے پہلے شیر کو دیکھنے پہنچی اور جب واپس گھر جا رہی تھی تو دیکھا کہ ایک چوہا چھپتا چھپاتا گزر رہا تھا ۔لومڑی نے پوچھا : چوہے بھائی ! کیا ہوا کس سے چھپ رہے ہو ؟ تو چوہا بولا : بہن !’’ شیر کا قتل ہو گیا ہے اور میں اس فکر میں چھپ رہا ہوں کہ کہیں مجھ پر نہ ڈال دیا جائے ‘‘۔ تو مسئلہ یہ ہے کہ شیر آدم خور ہو جائے تو قدرتی انصاف کا نشانہ بن جاتا ہے ایسے میں دعوے داروں کو اپنی فکر کرنی چاہیے اور ایسا ہی ہوا ہے ۔ایفی ڈرین کیس میں حنیف عباسی کو عمر قید ہوئی تو پی ٹی آئی والوں نے خوب خوشیاں منائیں چونکہ شیخ رشید کی جیت حتمی نظر آرہی تھی مگر الیکشن کمیشن نے متعلقہ حلقے میں انتخاب ہی ملتوی کر دیا ۔شاید اسی دن کے لیے وصی شاہ نے کہا تھا :
حقارت سے نہ دیکھو اے اہلِ ساحل اہلِ طوفاں کو
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کنارے ڈوب جاتے ہیں
ہمارے ہاں عجیب رواج ہے’’ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو‘‘ کے مصداق جس میں اپنا فائدہ ہو وہ فیصلہ خدائی انصاف ٹھہرتا ہے اور جس میں نقصان ہو وہ فیصلہ’’ سازش‘‘ قرارپاتا ہے ۔افواج پاکستان کے خلاف بڑھتی ہوئی ہرزہ سرائی کس طور بھی قابل معافی نہیں ہے ۔ایک فوج ملک کی بقا کی آخری لکیر ہوتی ہے اور دنیا یہ بات جانتی ہے کہ پاکستان کی افواج دنیا کی بہادر اور مضبوط ترین افواج ہیں کہ اس دھرتی کے بیٹے آہنی ارادوں کے مالک اور اسلام کی وہ شمشیر ہیں جو اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں ۔ان کے خون میں وفا اور وطن پر قربان ہونے کا جذبہ شامل ہے ۔دہشت گردی کے خلاف کئے گئے آپریشنز میں تقریباً 40,000 بچے شہید ہو چکے ہیں اور ہر روز میرے وطن سے جانثاروں کے جنازے اٹھتے ہیں ۔یہ سیاسی شعبدہ باز کیا جانیں کہ حب الوطنی کیا ہوتی ہے؟ ان کے بچوں کی تو شہریت ہی پاکستانی نہیں ہے ۔۔انھیں کیا پتہ کہ بیٹوں اور عزیزوں کا شہید ہونا کیسا ہوتا ہے ؟ ان کی ماؤں کو کیا پتہ کہ ماؤں کا حوصلہ اور برداشت کیا ہوتی ہے ؟لفاظی آسان ہے مگر حقائق نا قابل برداشت ہیں ۔آج ملک و قوم کی دولت لوٹنے والے زیر عتاب آئے تو سازش کا ڈھنڈورا پیٹ ڈالا حالانکہ یہ تو مکافات عمل ہے کہ طاقتور کٹہرے میں کھڑے ہیں !یقیناًیہ فیصلے پاکستانی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے ۔۔!
بدقسمتی تو یہ ہے کہ کوئی سچ سننا نہیں چاہتا کہ پاکستان کی ستر دہائیاں یہ دُہائیاں دیتے گزر گئیں کہ پاکستانی عوام کو آمریتی یا جمہوری کسی بھی دور حکومت میں مسائل سے چھٹکارا نہیں ملا بلکہ ہر جانے والی حکومت نے پاکستان کو مزید مقروض کیا اور ختم ناہونے والے بحرانوں کا جنگل بنا دیا مگر اپنے اثاثوں اور جائیدادوں میں اس قدر اضافہ کیا کہ دنیا کے لیے رشک نگاہ بن گئے ۔ کرپشن تو ہر دور میں ہوئی مگر پچھلے پانچ برسوں میں کرپشن کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔ شریف خاندان ملکی خزانہ خالی کر گیا ہے بلکہ وزیر خزانہ اسحق ڈار کے توریڈ وارنٹ جاری ہوچکے ہیں مگر یہ پتہ نہیں کونسی سائینس ہے کہ میاں شہباز شریف کہہ رہے کہ 25جولائی کوعوام شیر پر مہر لگا کر شریف خاندان اور حنیف عباسی کو بے گناہ ثابت کریں گے اور باہر لے آئیں گے کیونکہ شریف خاندان کے لیے یہ حالات نئے نہیں ہیں !یہی وجہ ہے کہ غربت و افلاس و نا انصافی میں پسے ہوئے عوام کسی بہتری کی امید نہیں رکھتے اور سوچتے بھی نہیں ہیں بس پیسوں کیلیے جلسے جلوسوں میں چل پڑتے ہیں اور ووٹ بھی اسے ہی دیں گے جس کے باپ دادا ذہنی غلام تھے ۔رائے عامہ ہموار کرنے والوں کی بھی بڑی زیادتی ہے کہ وہ تعلیم سے بے بہر ہ معصوم افراد کو حق تک پہنچنے ہی نہیں دیتے بلکہ اپنی ذاتی وابستگیوں کی وجہ سے تصویر کا ایک ہی رخ پیش کرتے ہیں اور دوسرے کو اپنی چرب زبانی اور ماہرانہ فن سے یوں بیان کرتے ہیں کہ حقائق مسخ ہوجاتے ہیں اور ایک باشعور انسان بھی الجھ کے رہ جاتا ہے۔ مذید سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال کر باشعور عوام کو بدظن کر لیا ہے بدیں وجہ نہ کسی کی عزت سلامت ہے اور نہ ہی اب زمانہ کسی کی عظمت کی گواہی دے گا ۔دعوی تو سب کو ہے کہ سڑکیں ،پل اور عمارتیں بنائی ہیں مگر آج سوال یہ ہے کہ کیا دِلوں میں بھی کوئی عمارت بنائی ہے ؟
کہا جاتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے غزنی میں ایک خوبصورت محل تعمیر کروایا اور ساتھ ہی ایک خوبصورت باغ بھی بنوایا ۔جب یہ باغ تیار ہو گیا تو وہاں ایک جشن منعقد کیا گیا جس میں تمام ارکانِ سلطنت کو مدعو کیا گیا اور خاص طور پر اپنے باپ امیر ناصر الدین سبکتگین کو اس محل کو دیکھنے کی دعوت دی گئی ۔سلطان محمود غزنوی کے باپ نے اس باغ کو دیکھ کر اپنے بیٹے سے کہا : اے فرزند !’’ اگرچہ یہ باغ بہت خوبصورت اور قابل ستائش وقابل دید ہے مگر یہ کام تو غلاموں ، مزدوروں اور معماروں نے انجام دیا ہے ،اس میں تمہاری بڑائی کیاہے ؟بادشاہ کی شان و شوکت کا تقاضا ہے کہ ایسی عمارت کی بنیاد ڈالے جس کی کوئی مثال نہ ہو ‘‘۔محمود نے بڑے ادب سے پوچھا : آپ کون سی عمارت کا ذکر فرما رہے ہیں ؟سبکتگین نے جواب دیا کہ اس سے مراد اہل علم اور غرباء کے دل ہیں ان گھروں کی زمین میں اگر تم اپنی محبت اور احسان کے بیج بوؤگے تو ان کے پھل ایسے ہونگے کہ چکھنے سے تمہیں دین و دنیا کی سعادت ملے گی اور تمہارا نام روز حشر بھی زندہ رہے گا ۔کہا جاتا ہے کہ سبکتگین نے مرنے سے چند روز قبل اپنے بیٹے کو گفتگو کے دوران کہا کہ انسان نازل شدہ مصائب سے چھٹکارا پانے کی ترکیبیں سوچتا رہتا ہے مگر آخرت کو فراموش کر دیتا ہے یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے قصاب بھیڑ کو بال کترنے کے لیے زمین پر لٹاتا ہے تو وہ مرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے ۔قصاب اپنے کام سے فارغ ہو کر اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتی ہے اور اس واقعہ کو بھول جاتی ہے ۔جب دوسری مرتبہ قصاب پکڑتا ہے تو وہ شک و شبہہ میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔خوف اور امید دونوں کا خیال من میں رہتا ہے اور قصاب بال کتر کر چھوڑ دیتا ہے تو اس کے دل سے خوف ختم ہو جاتا ہے ۔تیسری دفعہ جب ذبح کرنے کے لیے زمین پر گراتا ہے تو یہی سمجھتی ہے کہ چند لمحوں بعد پہلی طرح آزاد ہو جائے گی ۔بے خبری اور بے خوفی کے عالم میں خوشی سے گرتی ہے اور اسی عالم میں اس کے گلے پر چھری پھیر دی جاتی ہے ۔
بے خبری ، بے خوفی اور مفاد پرستی نے ملک و قوم کی ساکھ اور استحکام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے ۔ ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ روپے کی قدر ختم ہو چکی ہے ۔ پاکستان کا بچہ بچہ قرض میں ڈوب چکا ہے اور بنیادی سہولیات پر کوئی قابل قدر کام نہیں کیا گیا ۔پانی کا بحران قیامت سے کم نہیں ہوگا جس کے آثار نظر آرہے ہیں ۔المختصر گڈ گورننس کا خواب پورا نہیں ہوسکا ایسے میں تو وقت ہی بتائے گا کہ کون دلوں میں زندہ ہے اور کون کرسی پر بیٹھے گاہم بس دیکھیں گے !