Buy website traffic cheap

افغان مہاجر خواتین کے ہنر کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش

افغان مہاجر خواتین کے ہنر کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش

لاہور(ویب ڈیسک )پاکستان میں مقیم افغان مہاجر خواتین میں بہت با صلاحیت ہیں۔ ہمیں ان کے کشیدہ کاری کے ہنر اور صلاحیتوں کو استعمال کر کے انھیں معاشی لحاظ سے اس قابل بنانا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں۔‘ یہ کہنا تھا غیر سرکاری تنظیم آئی ڈی او کی سکل ڈیزائنر نازیہ خان کا جو افغان مہاجر خواتین کی کشیدہ کاری سے بنی اشیاء کی دو روزہ نمائش کے منتظمین میں شامل تھیں۔ مقامی ہوٹل میں اس دیدہ زیب نمائش کے انعقاد کا مقصد افغان مہاجر خواتین کی کشیدہ کاری اور ہاتھ سے بنی دیگر اشیاء کی بہتر مارکیٹنگ کے ذریعے ان کو بہتر معاوضہ دلانا تھا۔ بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ آئی ڈی او نے مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یواین ایچ سی آر کے تعاون سے مختلف علاقوں میں مہاجر اور میزبان علاقوں کی خواتین کو ہنر سکھایا ہے۔ ’ہمارے پاس پیشہ ور ہنر سکھانے والے ہوتے ہیں۔ ہمارے سوشل آرگنائزر ہیں جو ان خواتین کو چھ مہینے میں کام سکھاتے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’اس کے بعد ان خواتین کو یہ پتہ چلتا ہے کہ سلائی کیسے ہوتی ہے ۔ کشیدہ کاری میں رنگوں کا امتزاج کیا ہوتا ہے۔‘
نازیہ خان نے بتایا کہ جب ان کی چیز تیار ہوتی ہے تو اس کے بعد ہم اس کے لیے نمائش کا اہتمام کرتے ہیں جس کا مقصد ان کی اشیاء کو ایک بہتر مارکیٹ کی فراہمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مڈل مین کا کردار ختم کرنے اور ان خواتین کو ان کی محنت کا بہتر معاوضہ دلانے کے لیے ہم نے ’شاپ آرٹیسن‘ کے نام سے اپنی آن لائن ویب سائٹ بھی لانچ کی ہے۔‘ نازیہ خان نے بتایا کہ ’ہمارے ساتھ ہنر مند کے نام سے جو ’آؤٹ لیٹ‘ ہے اس میں چھ سو سے زائد خواتین رجسٹرڈ ہیں۔ وہ جو کام کرتی ہیں اس کی محنت کا انھیں اچھا معاوضہ ملتا ہے۔ اس سے ان کے گھر چلتے ہیں۔ کشیدہ کاری ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے دلی خوش محسوس ہوتی ہے کہ یہ خواتین کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گی۔ یہ ہنرمند خواتین ہیں ہم نے ان کے ہنر کو استعمال کرنا ہے۔ ان کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے یہ بہت اچھا قدم ہے۔ ان کے پاس ٹیلنٹ ہے بس اس کو تھوڑا سا پالش کرنے کی ضرورت ہے۔‘ نازیہ خان نے بتایا کہ وہاں بہت زیادہ غربت ہے۔ جب سے آئی ڈی او نے یواین ایچ سی آر کے تعاون سے یہ منصوبہ شروع کیا ہے وہاں پر کافی تبدیلی آئی ہے۔ لوگوں کے بچے اسکول جانے لگے ہیں ۔انہی پیسوں سے وہ سکول کی فیس بھی ادا کرتے ہیں ۔ اس نمائش میں آنے والی ایک خاتون زفرین احمد کا کہنا تھا کہ ایسی نمائشوں کا انعقاد ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں ناخواندگی اور غربت زیادہ ہے۔ ’ایسی خواتین اپنے لیے ملازمت نہیں ڈھونڈ سکتیں۔ ان کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ گھر میں بنائی گئی اشیاء کو دکھائیں تاکہ ان کو آمدنی مل سکے۔‘