Buy website traffic cheap

افغان جنگ

امریکی صدر کا افغان جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف ،خارجہ پالیسی کی کامیابی

رواں برس یکم جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان مخالف ٹوئیٹ کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات تناؤ کا شکار ہوئے تھے۔ جنوری میں ٹرمپ نے اپنے پیغام میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے گزشتہ 15 سالوں کے دوران پاکستان کو 33 ملین ڈالر امداد دے کر حماقت کی جبکہ بدلے میں پاکستان نے ہمیں دھوکے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں دیا۔بعدازاں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی پاکستان کی سیکیورٹی معاونت معطل کرنے کا اعلان کرکیا جبکہ بعد ازاں پاکستان کو مذہبی آزادی کی مبینہ سنگین خلاف ورزی کرنے والے ممالک سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں بھی شامل کیا گیا۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک اور دیگر افغان طالبان کے خلاف کارروائی تک معاونت معطل رہے گی۔گذشتہ ماہ بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا،ہم پاکستان کو سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر سے زیادہ دیتے تھے۔امریکی صدر نے بعدازاں ٹوئٹر پر بھی اسی قسم کے بیانات داغے، جس پر پاکستانی قیادت کی جانب سے بھرپور ردعمل سامنے آیا۔اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا امریکی صدر کا ’’ریکارڈ درست‘‘ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ’’ نائن الیون حملوں میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کے غلط دعوے دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کو جانی و مالی نقصان کی صورت میں لگنے والے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے،امریکی صدر کو تاریخی حقائق سے آگاہی کی ضرورت ہے، پاکستان نے امریکی جنگ میں بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے لیکن اب ہم وہی کریں گے جو ہمارے اور ہمارے لوگوں کے مفاد میں بہتر ہوگا‘‘ ۔
واضح رہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، لیکن امریکا اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتا ہے۔اس سب کے باوجود امریکہ بہادر یہ بھی جانتا ہے کہ وہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغان طالبان کیساتھ مذاکرات کر ہی نہیں سکتا، اس لئے امریکی محکمہ خارجہ کے سمجھداروں نے ٹرمپ کو سمجھایا ہوگا کہ پاکستان کیساتھ لچک کا مظاہرہ کریں۔اس کے بعد امریکی صدر نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھا ہے جس میں پاکستان سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تعاون مانگا گیا ہے۔اس بات کا نکشاف چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے ٹی وی اینکرز اور سینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران کیا،ملاقات میں سیاسی صورتحال سمیت مختلف امور پر بھی بات چیت کی گئی۔تاہم گزشتہ روز
وائٹ ہاؤس نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو خط بھیجے جانے کی تصدیق کردی ہے۔ترجمان نیشنل سیکیورٹی کونسل نے خط کی تفصیل بتائے بغیر کہا کہ پاکستان سے افغان امن عمل کے لیے مکمل حمایت کی درخواست کی گئی ہے۔دوسری جانب پاکستان سے افغان مصالحت کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے ساتھ تعاون پر بھی زور دیا گیا ہے۔سینئر صحافیوں کے مطابق وزیراعظم کا امریکہ کے حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ماضی میں امریکا سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا گیا، اب ہم نے امریکا کو برابری کی بنیاد پر جواب دیا تو ٹرمپ نے خط لکھا، ہم پوری کوشش کریں گے کہ افغان مسئلے کا حل نکالنے کے لیے جو کردار ادا کرسکیں وہ کریں۔بلاشبہ افغان جنگ کا مذاکرات کے ذریعے حل خطے کے لیے اہم ہے، مسئلہ افغانستان کے حل کے لیے امریکہ کو پاکستان کی معاونت درکار ہے۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے دوٹوک رویہ اختیار کرنے کے بعد امریکی صدر کو بلآخر افغان جنگ میں امریکہ کسیاتھ پاکستان کی قربانیوں کا بھی اعتراف کرنا پڑا۔یہ وزارت خارجہ کی بھی بڑی کامیابی تصور کی جاسکتی ہے۔