Buy website traffic cheap


ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
بادشاہ خان
خطبہ الٰہ آباد کا شمار تحریک پاکستان کی اہم ترین دستاویزات میں کیا جاتا ہے۔ خطبہ الٰہ آباد اور نظریہ پاکستان دونوں نہ صرف ایک دوسرے کے آئینہ دار ہیں بلکہ فلسفہ اور عصری سیاسی تقاضوں کے اعتبار سے باہمی طور پر ہم آہنگ ہیں،اور یہ تاریخی خطبہ ڈاکٹر علامہ اقبال نے پیش کیا تھا، یہ مملکت خداداد پاکستان کی نظریاتی بنیادکی پہچان ہے، شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم رہنما اوران کاخواب جسے پاکستان میں سرگرم ایک مخصوص دین بیزار طبقہ اپنے غیر ملکی آقاوٗں کو خوش کرنے کے لئے نوجوانوں کے ذہنوں سے ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے، اور اسی لئے سب سے پہلے اس طبقے نے شاعر مشرق کا لفظ ختم کرنے کی کوشش کی، کالجز اور یونیورسٹیز میں علامہ اقبال کا تذکرہ ایک مشہور شاعر کے حوالے سے کیا جارہا ہے،ان کی شاعری کوبھی نوجوانوں سے پوشیدہ کرنے کے لئے دیگر شعراکے بارے میں مہم جاری رہتی ہے، آخر کیوں؟ سیدھی سی بات ہے علامہ اقبال اور نظریہ پاکستان دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور اگر نظریہ پاکستان سمجھنا ہے تو علامہ اقبال کوپڑھنا ہوگا،علامہ اقبال وہ واحد شخصیت ہیں کہ جنھوں نے نظریہ پاکستان کو کھول کر بیان کیا تھا، پاکستان کیوں بنا نا چاہیے؟اس کی وجوہات بیان کی تھی،اور اسی نظریے کو چھپانے کیلئے اور ملک کو لبرل ازم کے دلدل میں غرق کرنے کے لئے لبرل طبقہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے اہمیت کم کرنے کے لئے عمل پیرا ہے برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم رہنما کے یوم پیدائش کے موقع سرکاری چھٹی کو ختم کرنا اور متنازعہ کرنا اس کی ایک نشانی ہے، شاعر مشرق نے کیا تصور پیش کیا آئے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے مسلمانوں کے الگ قوم کا تصور عام کیا اورکہا۔
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
شاعر مشرق علامہ اقبال کا نظریہ تھا کہ ہم محض مذہب کی بنا پر الگ قوم کا دعوی نہیں کرتے بلکہ ہمار موقف ہے کہ اسلام جاندار اور آفاقی مذہب ہے اور دنیا بھر کے مسلمان ایک ملت اور اسلام پر یقین نہ رکھنے والے دوسری قوم ہیں۔ ۔ اس پیغام کو عام کرنے کے لئے انہوں نے صرف اشعار ہی کہے بلکہ ہندوستان کے طول وعرض میں گئے۔ خطبات دئیے۔ خط لکھے اور لیگ کی تنظیم میں بھرپور کردار ادا کیا۔ دو قومی نظریہ اور مسلم لیگ میں شمولیت میں وہ قائداعظم سے سینئر تھے۔ مگر دونوں بیرسٹر تھے۔ مغرب سے تعلیم یافتہ مگر دونوں کے سیاسی اختلافات تھے۔1927ء میں دہلی میں مسلم رہنماوں کے اجلاس میں جو تجاویز منظور کی گئیں۔ قائداعظم ان کے حق میں جبکہ علامہ اقبال حق میں نہ تھے۔ پھر سائمن کمیشن آیا تو قائداعظم کے سخت مخالف جبکہ علامہ اقبال حق میں۔ 1928ء میں نہرورپورٹ آئی تو قائداعظم ترمیمات کے ساتھ حق میں جبکہ علامہ اقبال مکمل رد کرنے کے حق میں تھے۔ پھر وقت آگیا کہ قائداعظم نے ان کا نقطہ نظر تسلیم کرلیا اور معروف عالم چودہ نکات پیش کئے۔ اب دونوں کے سیاسی مسلک ایک ہوگئے اور ملکرجدوجہد کرنے لگے اور مسلمانوں کو ایک کرنے کی کوشش کا آغاز کیا۔کچھ عرصہ بعد قائداعظم بددل ہوکر لندن چلے گئے تاہم علامہ ان کو واپس لانے کے لئے گہری سوچ بچار اور کوشش کرتے رہے۔ اسی اثنا میں دسمبر1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی سالانہ اجلاس الٰہ آباد میں ہوا،خطبہ الٰہ آباد کا شمار تحریک پاکستان کی اہم ترین دستاویزات
میں کیا جاتا ہے۔ خطبہ الٰہ آباد اور نظریہ پاکستان دونوں نہ صرف ایک دوسرے کے آئینہ دار ہیں بلکہ فلسفہ اور عصری سیاسی تقاضوں کے اعتبار سے باہمی طور پر ہم آہنگ ہیں۔ نظریہ پاکستان بنیادی طور پر یہ مفہوم رکھتا ہے کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں جن کے اپنے اپنے جداگانہ مذاہب، ثقافتیں اور رسوم و رواج ہیں۔۔ وہ نہ تو آپس میں شادیاں کرتے ہیں اور نہ ہی اکھٹے کھانا کھاتے ہیں۔ درحقیقت وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ متضاد تصورات پر مبنی ہیں۔ زندگی کے بارے میں انکے تصورات مختلف ہیں۔ ہندو اور مسلم مختلف تاریخی ماخذوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انکی رزمیہ نظمیں ہیرو اور تاریخی کارنامے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اکثر اوقات ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہوتی ہے۔“ہمارا دعویٰ ہے کہ قومیت کی ہر تعریف اور معیار کے مطابق مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔ ہماری قوم دس کروڑ انسانوں پر مشتمل ہے اور مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں جو کہ اپنے خاص تہذیب و تمدن، زبان و ادب، فنون و تعمیرات، رسم و اصطلاحات، معیار و قدر، رسم و راج، نظام تقویم، تاریخ و روایات رکھتی ہے۔“
خطبہ الٰہ آباد 1930ء میں اس وقت دیا گیا جب برصغیر میں ہندو اور مسلمان برطانوی سامراج کے غلام تھے اور دور دور تک ان کی آزادی کے آثار نظر نہیں آتے تھے اگرچہ لاکھوں فرزندان توحید شمع آزادی پر قربان ہو چکے تھے۔ اس خطبہ میں مفکر اسلام علامہ اقبالؒ نے پہلی مرتبہ ایک مضبوط پلیٹ فارم سے برصغیر کے شمال مغربی مسلم علاقوں پر مشتمل ایک آزاد خود مختار مسلم ریاست کا تصور پیش کیا جو کہ نظریہ پاکستان کا عکاس تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اس تاریخی خطاب میں اسلام کی آفاقیت، دوقومی نظریہ، الگ مسلم ریاست، اسلامی ریاست کے کردار اور ہندوستان کے دفاعی حصار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ اسلام ایک آفاقی تہذیب ہے۔ یہ ہر قوم ہر فرقے کیلئے اور سب زمانوں کیلئے ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے الگ مملکت قائم کردی جائے کیونکہ دونوں اقوام کا یکجارہنا ناممکن ہے اور نہ ہی یکجا ہوکر آگئے بڑھ سکتے ہیں۔ الٰہ آباد میں گنگاوجمنا کا پانی جس طرح الگ الگ نظر آتا ہے۔ اس طرح یہ دونوں اقوام اکٹھی رہنے کے باوجود الگ الگ ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ہندوستان کے اندر مسلم انڈیا کا قیام عمل میں لایا جائے۔ مزید فرمایا۔”میں پنجاب، سرحدی صوبہ، سندھ، بلوچستان کوضم کرکے ایک الگ مملکت کی صورت دیکھنا چاہتاہوں۔ مذکورہ ریاست مسلمانوں کی آخری منزل ہے“۔
آ ج شاعر مشرق کے نظریے پاکستان پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے، نو نومبر کا دن ڈاکٹر علامہ اقبال کی یاد میں ان کے افکار کو عام کرنے کے لئے کون سامنے آئے گا، کیونکہ حکمران تو اس بار کرتارپور کی افتتاح سے اور اگلے سال کوئی اور مہم اسی دن لانچ کرسکتے ہیں،اس کے لئے جوانان کو آگے آنا ہوگا،علامہ اقبال کو نوجوانوں سے بہت امید تھی، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے جوانوں کے بارے میں کہا تھا
نہیں ہے ناامیداقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔