Buy website traffic cheap


وزیر اعلیٰ کے دورے اور انکے ثمرات

وزیر اعلیٰ کے دورے اور انکے ثمرات
سلمان احمد قریشی
وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار صوبہ بھر میں مختلف شہروں کے ہنگامی اور مختصر دورے کررہے ہیں۔کرونا سے نمٹنے اور دیگر معاملات سے آگاہی کے لیے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ بھی کراچی کی سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔کے پی کے کے وزیراعلی محمودخان کی اپنی حکمت عملی ہے، بلوچستان کے وزیر اعلی جام کمال کو الگ مسائل کا سامنا ہے۔تمام وزراءاعلی اپنی بساط کے مطابق سرگرم ہیں۔وزیر اعلی عثمان بزدارکو ایک الگ چیلنج کا سامنا ہے انکا موزانہ سابق وزیر اعلی شہباز شریف سے کیا جاتا ہے۔سب سے بڑھ کر مسلم لیگ(ن) کی موثر میڈیا ٹیم اور سوشل ایکٹوسٹ روز اول سے ہی سردار عثمان بزدار پر تنقید کرنے میں مصروف ہیں۔سردارعثمان بزدار کی حمایت میں پی ٹی آئی کے ورکرز اس جذبہ اور انداز سے سامنے نہیں آتے جیسے وزیر اعظم عمران خان کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
قارئین کرام! میں ان پر امید افراد میں سے ہوں جو یہ توقع رکھتے ہیں کہ سردار عثمان بزدار بہتر انداز میں پنجاب کی عوام کی خدمت کریں گے۔اسکی بہت سی وجوہات ہیں ایک پس منظر ہے۔امید ہے سردار عثمان بزدار، سابق وزیر اعلی شہباز شریف سے بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔ شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کے معترف احباب یہ پہلو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ صرف وزیر اعلی ہی نہیں وزیراعظم کے بھائی کے طور پر بھی ایکٹ کرتے تھے۔ وہ فیصلہ سازی میں مشاورت کے قائل ہی نہیں تھے۔حالات، اختیارات، سیاسی تعلق،نظریاتی تربیت اور دیگر پہلو سامنے رکھ کر دیکھیں توسابق وزیر اعلی پنجاب غلام حیدروائیں سے سردار عثمان کا موزانہ کیوں نہیں کرتے؟۔
آج وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ بھی ایک الگ مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ انکے لیے ایک آئی جی تبدیل کرنا امتحان بن جاتا ہے جبکہ پنجاب میں اس دوران پنجاب میں پانچ آئی جی تبدیل ہوئے۔وزیر اعلی پنجاب کو ایسا چیلنج نہیں، وہ اپنی مرضی کرنے میں آزاد ہی نہیں۔وہ اپنی ذاتی تشہیر کے خواہشمند نہیں، اپنا الگ تشخص اجاگر کرنا بھی نہیں چاہتے۔ صرف اور صرف پارٹی پالیسی کے مطابق کام کررہے ہیں۔اپناذاتی ایجنڈا نہیں رکھتے۔ سابق وزیراعلی پنجاب میاں منظور وٹو اپنے دوراقتدار میں اتحادی پارٹی تو ایک طرف اپنی پارٹی کے مقابلہ میں ذاتی گروپ بنانے میں لگے رہے۔عثمان بزدار میں کوئی منفی رویہ نہیں۔وہ صرف عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اپنی گاڑی میں صرف ایک فرد کے ساتھ بغیرپروٹوکول کے کراچی میں مختلف علاقوں کے دورے کرتے ہیں۔صوبائی وزراءانکی ٹیم بن کر سرگرم ہیں۔وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار ہیلی کاپڑ کے ذریعے پنجاب میں مصروف عمل ہیں۔20اپریل کو انکا دورہ اوکاڑہ، ساہیوال، چشتیاں شیڈول تھا۔وہ پروگرام کے مطابق تحصیل دیپالپور تشریف لائے۔راقم الحروف کا تعلق چونکہ اس ضلع سے ہے اس لیے اس دورہ پر چند سطور لکھناضروری سمجھا۔وزیر اعلی سردارعثمان بزدار، سابق وزیراعلی پنجاب میاں منظور وٹو کے علاقہ کے دورہ پر آئے۔میاں منظور وٹو جنرل ضیاءالحق سے نوازشریف، حامدناصر چٹھہ سے پرویزمشرف، پھر پیپلز پارٹی اور اب پی ٹی آئی میں سیاست کر رہے ہیں۔جتنے سینئیرسیاستدان ہیں تو علاقہ کے مسائل بھی اتنے ہی پرانے ہیں۔۔۔جب حکمران پارٹی کے لیے سیاست نہیں پارٹی سے سیاست کریں گے تو اسکی قیمت اہل علاقہ کو ہی ادا کرنا پڑے گی۔گزشتہ دس سال سے اوکاڑہ سے دیپال پور تک دورویہ سڑک کی تعمیر کا عوامی مطالبہ ہے مگر لاہور کے انڈر پاس، فلائی اوورز،میڑوبس،
اورنج ٹرین سے پورے پنجاب کوخوش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔جبکہ ایک سوچ تو یہ ہے کہ میڑوبس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبہ کی سبسڈی لاہور کے رہائشیوں پر اضافی ٹیکس لگا کر پورا کیاجائے۔آخرکیوں پورا صوبہ شہباز شریف کی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے وسائل ان منصوبوں کے لیے وقف کرے۔وزیر اعلی سردارعثمان بزدار سے یہی توقع ہے کہ وہ پسماندہ علاقہ سے ہیں۔ لہذا پورے صوبہ کا خیال کریں گے۔خود کو لاہور یا کسی ایک علاقہ سے منسوب نہیں کریں گے۔
حکمران انسان دوستی عوام دوستی کا راستہ اختیار کریں تو ملک وقوم کو فائدہ ہوتاہے۔عوام دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ عوام سے قریبی تعلق قائم رکھا جائے۔حکمران جب عوام دوستی کا رشتہ استوار کرتے ہیں تو حقائق سامنے آتے ہیں۔مسائل کا حل عوامی خواہشات کے مطابق ہوتاہے۔ اگر حکمران میاں منظور وٹواور ان جیسے دیگر سیاستدانوں اور بیورکریسی کے حصار میں رہیں گے توعوام کی آواز آپ تک نہیں پہنچ سکے گی۔۔مسائل پر مٹی ڈالنا اتنا ہی آسان ہے جیسے آج سڑک پر مٹی ڈال دی گئی تاکہ وزیراعلی سردار عثمان بزدار کو احساس ہی نہ ہو کہ علاقہ کی حالت زار کیا ہے۔اوکاڑہ کی سڑکوں کی حالت زار کسی صورت میں اس سے بہتر نہیں جیسی اندورن سندھ کی منظر کشی پی ٹی آئی کرتی آرہی ہے۔ضلع اوکاڑہ سے پی ٹی آئی ایک بھی نشت نہیں جیت سکی اور آج بھی وزیراعلی پنجاب عام آدمی سے دور انہی روایتی سیاستدانوں پر انحصار کررہے ہیں تو بہتری نہیں آئے گی۔وزیر اعلی کے دورے ثمر آور نہیں ہو سکتے یہ غور طلب ہے۔