Buy website traffic cheap

Column, Bushra Nasim, Corona Virus, China

کرونا وائرس!اللہ تعالی کا عذاب

کرونا وائرس!اللہ تعالی کا عذاب
بشریٰ نسیم

چینی صوبہ ووہان میں پھیلنے والا کرونا نامی وائرس تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے ایک ماہ سے کم عرصے میں جو وبا پھیلی اس نے چین سمیت دنیا بھر کے افراد 56کا شکار کیا ہے اور تشویشناک حالات کی بناپر پاکستان میں ہائی الرٹ کی کیفیت ہے کرونا وائرس کی اب تک نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں اس وائرس کو خوردبین کے ذریعے دیکھ کر معلوم ہوا کہ وائرس کے گرد کناروں پر نیم گول ابھار نظر آتے ہیں جو عموماً تاج جیسی شکل بناتے ہیں اسی بناپر اسے کورونا وائرس کا نام دیا گیا کیونکہ لاطینی زبان میں تاج کو کراون کہا جاتا ہے 1990 ء میں کرونا نامی وائرس کا نام دنیا کے سامنے آیا یہ وائرس مختلف شکلوں میں دیکھا جاتا رہا ہے پھر 2003 ء میں بھی اسکے آثار دیکھے جا چکے ہیں یہ وائرس ریسپائریٹری سسٹم کو متاثر کر کے جان لیوا نمونیا اور فلو کی وجہ بن سکتا ہے۔ چین میں لوگوں نے بد ہضمی، سردی لگنے، بخاراور کھانسی کی شکایت کی ہے۔ جن پر حملہ شدید ہوا انہوں نے سانس لینے میں دقت بیان کی ہے۔ پاکستان میں بھی اسکے اثرات دیکھے جا چکے ہیں وزیرِ مملکت برائے صحت نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے پاس کرونا وائرس کی شناخت اور اسکریننگ کے مناسب انتظامات موجود نہیں۔اس وائرس سے بچنے کیلئے عالمی ادارہ صحت نے مختلف ہدایات جاری کی ہیں کہ بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھویا جائے۔ سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔ کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں۔ پالتو جانوروں سے دور رہیں۔ کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔عالمی ادارے نے جس طرح کی ہدایات پیش کی ہیں وضو سے پوری ہوجاتی ہے۔ اس طرح دن میں پانچ مرتبہ وضو کرنا ہر طرح کی انفیکشن سے بچاو میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔چین میں وائرس سے مجموعی طور پر 213 افرادہلاک ہوچکے ہیں، 9692 مریضوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ چین کے قومی صحت کمیشن نے اپنی روزانہ کی رپورٹ میں کہا ہے کہ 1527مریضوں کی حالت تشویشناک ہے جبکہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے چین کیلئے براہ راست پروازیں معطل کر دیں۔ اب تک مرنے والے 43 افراد میں سے 42 کا تعلق ہوبے صوبہ سے ہے جبکہ ایک تعلق ہیلوجیانگ صوبہ سے ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او (عالمی ادارہ صحت) نے غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر عالمی طور پر ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر نے چین سے باہر لوگوں میں وائرس پھیلنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ہنگامی حالت نافذ کرنے کی اصل وجہ یہ نہیں کہ دیگر ممالک میں کیا ہورہا ہے، ہمیں تشویش ہے کہ یہ وائرس ہمارے کمزور نظام صحت کے ساتھ دیگر ممالک میں بھی پھیل سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر نے وائرس سے نمٹنے کے لیے چینی حکومت کے غیر معمولی اقدامات کو سراہا اور چین پر تجارتی اور سفری پابندیوں کے امکان کو خارج کردیا۔ دوسری جانب امریکہ نے اپنے شہریوں کو چین کا سفر کرنے سے روک دیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ چین نے عالمی ادارہ صحت کو اس نئے وائرس کے کیسز کے حوالے سے پہلی بار دسمبر کے آخر میں آگاہ کیا تھا۔ دنیا کے 18 ممالک میں کرونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں امریکہ، فرانس، جاپان، جرمنی، کینیڈا، جنوبی کوریا، ویت نام، آسٹریلیا، فلپائن، بھارت اور دیگر ممالک شامل ہیں۔اس وائرس کے تیزی سے پھیلاو نے چین کی معیشت اور عالمی ترقی پر اس کے اثرات کے حوالے سے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔ دوسری طرف خیبر پی کے میں بھی وائرس کا مشتبہ مریض ہسپتال میں داخل کردیا گیا۔۔ کرونا وائرس کا مشتبہ مریض سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال سوات منتقل کردیا گیا۔ مشتبہ مریض سے متعلق سینئر ڈاکٹرز کا اجلاس ہوا۔ ڈاکٹروں اور عملے کو حفاظتی کٹ فراہم کردی گئیں جبکہ کراچی میں چین سے واپس آنے والے طالب علم ارسلان کو ہسپتال میں داخل کردیا گیا۔ چین سے کرونا وائرس کو پاکستان آنے سے روکنے کے لیے پاکستانی حکام نے چین کے راستے کراچی بندر گاہ تک پہنچنے والے سامان کو ریلیز کرنے سے انکار کردیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ جب تک اس سامان پر جراثیم کش ادویات کا سپرے نہیں کیا جاتا یا اس کو اس مشین سے نہیں گزارا جاتا جو اس وائرس کی نشاندہی کرسکے اس وقت تک اس سامان کو بندرگاہ سے ریلیز نہیں کیا جائے گا۔اس وائرس کے پھیلاؤ کا مرکز‘ چین کا وسطی شہر ووہان ہے۔ تو آغاز میں کہا گیا کہ وہان کی مچھلی مارکیٹ جہاں سی فوڈ بیچا جاتا ہے۔ وہاں سے یہ وائرس پھیلا۔ لیکن پھر جلد ہی اس کی نفی کر دی گئی۔ کیونکہ اس وائرس کے ابتدائی 41کیسوں میں سے 13کیس ایسے تھے جن کا مچھلی مارکیٹ سے کوئی ربط ثابت نہیں ہوا۔کچھ سائنس دان SARSکی مزید پیچیدہ شکل کرونا وائرس کو قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ اسی وائرس ہی کا ایک تسلسل ہے۔ جسے اس صدی کی پہلی دہائی میں مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔اور دوسری دہائی کے آغاز پر یہ مزید بگڑی ہوئی شکل میں حملہ آور ہوا ہے۔ابھی حتمی طور پر کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا کہ آخر یہ بھیانک وائرس کس ذریعے سے پھیلا۔ مختلف رائے دی جا رہی ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس وائرس کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد وہ ہیں جن کی غذا میں سانپ اور چمگادڑیں شامل ہیں۔اس سے پہلے SARSوائرس کے حوالے سے بھی یہ ثابت ہو چکا کہ یہ وائرس چمگادڑ سے پھیلا تھا۔ ان دونوں وائرسوں سے ہونے والی بیماری کی علامات بھی تقریباً ایک جیسی ہیں۔۔ کرونا وائرس سے جڑے ہوئے حقائق اور مناظر ایسے ہیں کہ انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس دنیا کے خالق نے ہمارے کھانے پینے‘ رہن سہن اور زندگی کے طور‘ اطوار میں جو حلال و حرام‘ جائز و ناجائز پاکی اور ناپاکی کی حدیں قائم کر رکھی ہیں اسی میں انسان کی بقا اور نجات کا سامان ہے۔ فطرت کی ان حدود کو توڑنے والا انسان خود اپنے اوپر عذاب الٰہی کو دعوت دیتا ہے۔کرونا وائرس کو اللہ کا عذاب تو امریکہ کا ایک پادری بھی برملا کہہ رہا ہے۔ کسی مسلمان کی بات کو تو دنیا بنیاد پرستی کہہ کر جھٹلا دے گی۔ لیکن ایک غیر مسلم پادری وہی بات کر رہا ہے کہ فطرت کی قائم کردہ حدود کو توڑنا ہی انسان کی بربادی کا باعث ہے۔ وہان‘ چین کا وہ شہر ہے جہاں کرونا وائرس نے تباہی پھیلا رکھی ہے۔ گنجان آباد شہر کی گلیوں‘ شاہراہوں اور بازاروں میں موت کی ویرانی رقص کر رہی ہے۔ مگر ہسپتالوں کے باہر بلا خوف ابتدائی ٹیسٹوں کے لئے قطار میں کھڑے خوف زدہ لوگوں کا ہجوم ہے۔ ہزاروں افراد لپیٹ میں آ چکے ہیں۔بیجنگ میں دو بڑے ہسپتال 15دنوں میں تعمیر کرنے کا کام ہنگامی بنیادوں پر جاری ہے۔وہان شہر میں بیسیوں پاکستانی طلبہ حکومت پاکستان کی طرف سے تعاون اور امداد کے منتظر ہیں کہ انہیں موت اور خوف کے اس شہر سے نکالا جائے۔امریکہ‘ بھارت‘ جاپان‘ برطانیہ اپنے شہریوں کو وہان سے نکال چکے ہیں جبکہ پاکستان کی اپنے شہریوں کے لئے یہ بے حسی اور پراسرار خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کرونا وائرس صرف چین تک محدود نہیں‘ دوسرے کئی ملکوں تک بھی پھیل رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو اس کی مکمل روک تھام کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہیے۔