ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا اُمت ِمسلمہ کیلئے نایاب تحفہ
قرآنی انسائیکلوپیڈیا
8جلدوں پر مشتمل اس شاہکارکو عام فہم اور سادہ الفاظ میں پیش کیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیک
قرانی انسائیکلوپیڈیا میں تقریباًپانچ ہزا ر قرآنی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے،صرف موضوعاتی فہرست 400 صفحات پر مشتمل جو کہ 8جلدوںکے مشمولات کا خلاصہ ہے
میں نے اپنی نصف صدی کے مطالعہ قرآنی کا نچوڑ پیش کردیا ہے،ڈاکٹر طاہرالقادری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دونوں ایک باکس میں لگانا
انسانی جسم کے کیمیائی ارتقائ، حیاتیاتی ارتقائ، رحم مادر میں بچے کی تخلیق اورپرورش ، اس کے تخلیقی و تدریجی مراحل، جنس کا تعین ، حواس خمسہ ، انگلیوں کے نشانات کی تخلیق کی حکمت بھی موضوعات میں شامل ہیں، جبکہ پانچویں جلدوں میں حکومتی وسیاسی نظام ، نظام عدل ، نظام اقتصادیات ، جہادیات ، اصول تجارت وصنعت، نظام عدل ، جملہ امورحکومت، ٹیکسوں کا نفاذ، عوام کے حقوق، حکومت کے فرائض کو شامل کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : رضی طاہر
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ آخری اورمستند ترین کتاب ہے جسے دین کے معاملے میں انسانیت کی ہدایت کے لیے نبی کریم ﷺ پر نازل کیا گیا ہے۔اِس کتاب ہدایت سے استفادہ انسان تب ہی کرسکتا ہے جب وہ اِسے پڑھے گا، اِس کی تلاوت اور اِس کا مطالعہ کرے گا۔ مطالعہ قرآن کی فضیلت احادیث کی روشنی میں واضح ہے حضر ت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھلائے۔حضرت عمربن الخطابؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سرفراز فرمائے گا اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل کردے گا۔ گویا قرآن مجیدسے لگاﺅ ہی امت مسلمہ کو عروج کی بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج کے مسلمان نے قرآن مجید کو محض برکات حاصل کرنے کیلئے رکھ دیا ہے جبکہ اپنی زندگی میں قرآن کی تعلیمات کو اتارنے اور اسکے سمندر میں غوطہ زن ہوکر اسے اپنانے کوکوئی تیار نہیں ہے۔ ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ اب یہ فریضہ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے بانی و سرپرست ، سینکڑوں کتابوں کے مصنف اور عالمی شہرت یافتہ شخصیت ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ادا کیا ہے ، حال ہی میں ان کی آنیوالی شاہکار تصنیف قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں زندگی کے تمام پہلوﺅں سے متعلق قرآنی احکامات کو سادہ اور عام فہم زبان میں عوام الناس کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ قرآنی انسائیکلو پیڈیا8جلدوں پر مشتمل ہے جس میں تقریباً پانچ ہزا ر قرآنی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔صرف موضوعاتی فہرست 400 صفحات پر مشتمل ہے جو کہ 8جلدوںکے مشمولات کا خلاصہ ہے۔ قرآنی موضوعات کو عصری تقاضو ں کے عین مطابق عام فہم اور سادہ الفاظ میں پیش کیا گیا ہے تاکہ قاری کو سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ قرآن مجید میں استعمال ہونے والی اصطلاعات کیلئے تین جلدیں مختص کی گئی ہیں، عربی الفاظ کو سادہ اردو میں دیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والے کیلئے آسانی رہے۔ ابتدائی تین جلدوں میں عقائد واحکام پر50سے زائد موضوعات شامل ہیں جس میں ایمان کے بنیادی عناصر سمیت عقائد کے حوالے سے قرآنی دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ ارکان خمسہ ، عائلی و ازدواجی زندگی، والدین اور بچوں کے حقوق اور روزمرہ کے معمولات سے متعلق قرآنی احکامات کا احاطہ کیا گیا ہے۔جبکہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان جلدوں میں علم کی ضرورت و اہمیت اور سائنسی حقائق ، انسانی جسم کے کیمیائی ارتقائ، حیاتیاتی ارتقائ، رحم مادر میں بچے کی تخلیق و پرورش ، اس کے تخلیقی و تدریجی مراحل، جنس کا تعین ، حواس خمسہ ، انگلیوں کے نشانات (finger prints)کی تخلیق کی حکمت، زمین و آسمان کی تخلیق کے سائنسی پہلو، علم طبیعات، علم فلکیات،علم موسمیات، علم نباتات،علم الحیوانات اور ماحولیات جیسے متنوع موضوعات کو انسائیکلو پیڈیا کی زینت بنایا ہے،جو کہ آپ کے ہی علمی مقام کا خاصہ ہے۔ جلد چہارم میں دور حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق، دہشتگردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے امن و محبت ، عدم تشدد، غیر مسلموں کے حقوق، حسن سلوک، اخلاقیات اور تعلیمات انبیائے کرام کو شامل کیا گیا ہے، اس جلد کی اہمیت اس اعتبار سے بھی دو چند ہوتی ہے کہ اس میں بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری سے متعلق احکامات قرآنی بیان کیے گئے ہیں۔ پانچویں جلد میں حکومتی وسیاسی نظام ، نظام عدل ، نظام اقتصادیات ، جہادیات ، اصول تجارت وصنعت، نظام عدل ، جملہ امورحکومت، ٹیکسوں کا نفاذ، عوام کے حقوق، حکومت کے فرائض کو شامل کیا گیا ہے جبکہ اس جلد میں قوموں کے عروج و زوال کے اسباب بھی شامل ہیں۔ چھٹی سے آٹھویں جلد الفاظ قرآن کے جامع اشاریہ پر مشتمل ہے۔ یہ اشاریہ قاری کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے تاکہ الفاظ قرآن کے معانی سے ہر خاص و عام آشنا ہوسکے، مثال کے طور پر اگر کسی کو ایسی آیات درکار ہیں جن میں سورج ،چاند، دن، رات ، گھوڑا وغیرہ جیسے الفاظکا استعمال ہوا ہے تو اسے ایسی ساری آیات اس اشاریے میں یکجا مل جائیں گی، اشاریے کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے ۔ قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو بیک وقت معاشرے کے تمام طبقات کیلئے پیش کیا ہے جس میں علمائے کرام ، طلبہ و طالبات ، مدرسین، اساتذہ، سائنسدان، سیاست دان، ریاضی دان، انجینئرز، ڈاکٹرز ، صحافی ، تاجر، صنعت کار سمیت ہر فرد شامل ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانان عرب وعجم قرآن مجید سے اپنا ٹوٹا ہوا تعلق پھر بحال کریں تاکہ قرآن مجید کے علوم سے ہر فرد کو آگاہی مل سکے تاکہ امت مسلمہ کو پھر عروج نصیب ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا مضمون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر تم مومن ہو تو سود چھوڑ دو‘ کیونکہ شرک کے بعد
سود خوری سب سے بڑا گناہ
یقینا مسلمان اللہ اور رسولﷺ سے اعلان جنگ نہیں کرتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیک
(1)”مسلمان کی تو یہ شان ہے کہ پوری دنیا پہ کفر چھایا ہوا تھا اور تین سو تیرہ کی فوج نے بڑے لشکر جرار کو شکست دے دی ۔ چند نفوس قدسیہ نے مدینہ منورہ میںایک ریاست قائم کی اور ربع صدی میں روئے زمین پر اسلام کی روشنی پھیلا دی‘ دلوں کو منورکر دیا“
(2) ”اللہ سے جو جنگ کرے گا اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نام کا تو مسلمان ہو گا لیکن ذلیل کافروں کے جوتوں میں ہورہا ہو گا۔ کافروں سے بھیک مانگ کر کھا رہا ہو گا‘ کافروں کی غلامی میں دم ہلا رہا ہو گا اور ذلیل و رسوا ہو رہا ہو گا“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا محمداکرم اعوان
ہم مسلمان جو اللہ پر ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں‘ محمد رسول اللہﷺ کی رسالت پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں‘ حضورﷺ کی غلامی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اللہ کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ اللہ سے تعلق کو خراب نہ ہونے دو‘ اس بات سے ڈرتے رہو کہ ایسا نہ ہو جائے جو لوگ بھی اللہ پر ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں‘ محمد رسول اللہﷺ کی رسالت پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں‘ حضورﷺ کی غلامی کا دعویٰ رکھتے ہیںان کو ہروقت اس بات کا احساس رہنا چاہیے کہ ان سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو کہ جس سے اللہ کریم ناراض ہو جائیں۔اللہ کریم نے سود کو حرام قرار دیا ہے سود ی لین دین کرنا کھلم کھلا اللہ اور رسول ﷺ کے ساتھ اعلان جنگ ہے اسی لیے تو اللہ کریم نے قرآن مجید میں اہل ایمان سے کہا کہ اگر کسی کے ذمے کسی کا سود باقی ہے‘ اگر کسی سے لینا ہے‘ وہ چھوڑ دو۔اگر واقعی ایمان والے ہوتو سود چھوڑ دو۔ اللہ کی ناراضگی سے ڈرو اور اگر سود لے رہے ہو تو سود لینا چھوڑ دو۔ تمہارا جو سودباقی بنتا ہے وہ بھی ترک کر دویعنی ایمان مشروط ہو گیا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو سود چھوڑ دو اور اگرسود نہیں چھوڑو گے تو ایمان چھوٹ گیا۔ ایمان کے ساتھ ترک سود مشروط ہو گیاکہ اگر مومن ہیں تو سود چھوڑ دینا چاہیے‘ جو بنتا ہے وہ بھی چھوڑ دینا چاہیے‘ آئندہ کے لیے توبہ کرنی چاہیے آج اسی وقت سے سرمائے پہ جو سود بن رہا ہے‘ اسی وقت سے وہ بھی چھوڑ دو اور صرف اپنا اصل سرمایہ لے لو۔ اگر نہیں چھوڑتے تو پھر سود لینے اور دینے والے مسلمان نہیں رہیں گے‘ مومن نہیں رہیں گے۔اب ہمیں اندازہ کر لینا چاہیے کہ ہم کس درجے کے مسلمان ہیں۔
پھر اس پر بس نہیںفرمایا اگر تم سود سے باز نہیں آتے تو ایمان ضائع ہو جانے پہ ہی پر بس نہیںسود کھانا نہیں چھوڑو گے تو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہو جاو¿۔ لوگوں کو اللہ سے شکایت ہے کہ اللہ کافروں کو تو روز فتح دیتا ہے لیکن مسلمان جہاںدیکھومررہے ہیں۔ کیا یہی ایک جرم کہ ہم بحیثیت قوم سود کھا رہے ہیں‘ ہمیںایمان سے خالی کرنے کے لیے کافی نہیں! یہ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جس سے اللہ اعلان جنگ فرمائے گا تو کیا اس پر فرشتوں کی فوجیں چڑھا دے گا یا رسول اللہﷺ اس کے لیے بد دعائیں کریں گے! نہیں‘ ہو گا یہ کہ وہ اس دار دنیا میں کہلاتا مسلمان ہو گا لیکن مارکافروں سے کھا رہا ہوگا۔ اللہ سے جو جنگ کرے گا اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نام کا تو مسلمان ہو گا لیکن ذلیل کافروں کے جوتوں میں ہورہا ہو گا۔ کافروں سے بھیک مانگ کر کھا رہا ہو گا‘ کافروں سے امداد کا طالب ہو رہا ہو گا‘ کافروں کی غلامی میں دم ہلا رہا ہو گا اور ذلیل و رسوا ہو رہا ہو گا۔
مسلمان کی تو یہ شان ہے کہ پوری دنیا پہ کفر چھایا ہوا تھا اور تین سو تیرہ کی فوج نے بڑے لشکر جرار کو شکست دے دی ۔ چند نفوس قدسیہ نے مدینہ منورہ میںایک ریاست قائم کی اور ربع صدی میں روئے زمین پر اسلام کی روشنی پھیلا دی‘ دلوں کو منورکر دیا۔ یہ بھی تو مسلمان تھے! آج کیا وجہ ہے کہ عورتیں بے آبرو ہوتی ہیں تو آسمان سے ہماری کوئی مدد نہیںہوتی۔ کافروں پر کوئی افتاد نہیں پڑتی۔ بچے قتل ہوتے ہیں تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ مسلمان بازاروں اور عبادت گاہوں میں‘ سڑکوں پہ قتل ہو جاتے ہیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا‘ کیوں؟ سود کھانے سے باز نہیں آتے ہو تو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا تمہارے ساتھ اعلان جنگ ہے۔ اللہ کی جنگ ایسے ہوتی ہے کہ گھر سے مار پڑتی ہے‘ وجود سے مار پڑتی ہے‘ دل ساتھ چھوڑ دیتا ہے‘ دماغ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
فقہاءکرام فرماتے ہیں کہ جو سود سے تائب نہیں ہوتا‘ حکومت اسلامی کے ذمے ہے کہ اس کی اصل رقم بھی ضبط کر لے چونکہ اصل بھی اس کے لیے ہے جو توبہ کرتا ہے۔ اصل سرمایہ بھی اسے ملے گا جو سود سے توبہ کرے گا‘ سود چھوڑ دے گا تو اصلی رقم لے سکتا ہے۔ تم کسی پر ظلم نہ کرو‘ تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ آج دنیا میں کہیں مسلمان کی پہچان بھی ہے! اس کے لباس سے‘ اس کے حلیے سے‘ اس کے قد و قامت سے‘ اس کے کردار سے‘ اس کی عبادات سے‘ اس کے کمانے کھانے سے کوئی پتہ چلتا ہے! جب ہم نے اپنی شناخت ہی گم کر دی تو یہ ایک عجیب فلسفہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ زندگی تو فرعون کی طرح جئیں اور انجام موسیٰ علیہ السلام کی طرح ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ زندگی ہی انجام کا تعین کرتی ہے‘ جس راہ پہ ہم چل رہے ہیں وہ فرعون کی سی ہے تو پھر موسیٰ علیہ السلام جیسی موت کس طرح آئے! اللہ نے تو شرط لگا دی کہ اگرسود نہیں چھوڑتے توصرف یہ نہیںکہ مسلمان نہیں ہو‘ تم بد ترین لوگ ہو جن سے اللہ اور اس کا رسولﷺ اعلان جنگ کرتے ہیں۔ اللہ کی جنگ تو یہی ہو گی کہ ذلت ہو گی‘ مقدر میں رسوائی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسراا مضمون
دنیوی و اخروی عزت و کامیابی کا سرچشمہ
رحمت دو عالم ﷺکی سیرت
حضوراکرمﷺ نے اسلام کی عالم گیر دعوت توحید کا پیغام سلاطین عالم کے پاس پہنچایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیک
آپ ”ابر رحمت“ بن کر انسانیت پر برسے اور ان کو کفروشرک اور ضلالت و گمراہی کے ”گھٹا ٹوپ“ اندھیروں سے نکال کر ”توحید و رسالت“ کی روشنی سے منور کیا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبدالرحمن جامی
اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس کو تمام جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ”رحمتہ للعالمین“ کی آمد سے قبل پوری دنیا شرک و بدعت، ضلالت و گمراہی اور معصیت و نافرمانی کے عمیق گڑ ہے میں گری ہوئی تھی، انساینت نام کی کوئی چیز نہ تھی، لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، عورتوں اور غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا، مرد و عورت بیت اللہ کا برہنہ طواف کرتے، ایک خدا کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ بتوں کی پرستش کی جاتی حتی کہ خانہ کعبہ میں اس مقصد کیلئے 360تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے فسق و فجور اور بدکاریوں پر ندامت و شرمندگی کے بجائے اس پر فخر کیا جاتا تھا، شراب نوشی اور قمار بازی ان کا پسندیدہ و محبوب مشغلہ تھا، حسب و نسب پر تفاخر کیا جاتا، انتقام و کینہ وری کو وصف و خوبی سمجھا جاتا، بغض و عداوت میں کوئی عار نہ ہوتی، بتوں کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے اور چڑھاوے چڑھائے جاتے، زندہ جانور کا گوشت کاٹ کر کھا یا جاتا، ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ کو کمتر اور ذلیل سمجھتا، گھوڑ دوڑ پر بازی لگائی جاتی، سودی لین دین عام تھا، معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے صدیوں چلتے، گویا کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی… ان حالات میں جبکہ ہر طرف انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی حضور اقدس دنیا میں ”رحمتہ للعالمین“ بن کر تشریف لاتے ہیں اور عبد اللہ کے گھر سے طلوع ہونے والے اس آفتاب و ماہتاب کی روشنی سے پوری دنیا فیضیاب ہونے لگی، آپ کی آمد و تشریف آوری ایسی ”نعمت عظمیٰ“ ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں پر ”احسانِ عظیم“ سے تعبیر فرمایا ہے… آپ سراپا رشد و ہدایت اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے کامل نمونہ ہیں اور آپ کے ”اسوہ حسنہ“ میں دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کو مضمر کر دیا گیا ہے، آپ ”ابر رحمت“ بن کر انسانیت پر برسے اور ان کو کفروشرک اور ضلالت و گمراہی کے ”گھٹا ٹوپ“ اندھیروں سے نکال کر ”توحید و رسالت“ کی روشنی سے منور کیا، آپ نے انسانیت سے گری ہوئی ایک ایسی قوم میں مثالی پاکیزہ اور باکردار روشن زندگی گزاری کہ جن کی بداعمالیوں کی وجہ سے کوئی ان پر حکومت کرتا بھی اپنے لیے توہین و عیب سمجھتا تھا… اس کا نقشہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے ”شاہِ جش“ نجاشی کے دربار میں ان الفاظ میں کھینچا… اے بادشاہ سلامت! ہم بے دین اور کم علم تھے، بتوں کی پرستش کرتے، مردار کھاتے، بے حیائی کے دلدادہ تھے، اپنے بھائیوں پر ظلم ڈھاتے، ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتے تھے، ہم میں سے طاقت ور کمزور پرستم کیا کرتا تھا، ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی، مہمانداری کا نام و نشان نہ تھا، کوئی قاعدہ قانون نہ تھا کہ اچانک ہم میں سے ایک پاکیزہ انسان کو اللہ رب العزت نے آخری پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا جس کے حسب و نسب، سچائی، امانت و دیانتداری، پاکدامنی، تقویٰ و طہارت، ہمدردی و پاکیزگی کو ہم خوب جانتے تھے، اس ”در یتیم نے ہم کو بتایا کہ ہم سب کا پروردگار ایک اللہ ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور وہ ماں باپ اور اولاد سے پاک ہے، وہ اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہے گا وہی سب کا خالق و مالک اور رازق ہے نفع و نقصان اس کے ہاتھ میں ہے یہ بت کسی چیز کے مالک نہیں ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سب کی حاجت روا اور مشکل کشا ہے… اس کے ساتھ ساتھ حضور نے ہمیں یہ بھی ہدایات فرمائیں ہیں کہ ہمیشہ سچ بولا کرو، اپنا وعدہ پورا کیا کرو، حرام باتوں سے بچو! خون ریزی اور یتیم کا مال کھانے سے دور رہو، کسی کا ناحق مال نہ کھاﺅ، اسی طرح پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اور ساتھ ہی نماز پڑھنے کا حکم دیا، روزہ رکھنے اور زکوٰة ادا کرنے کی تاکید فرمائی، مہمان نوازی کا درس دیا… ہم سب ان پر ایمان لائے اور ان کی اتباع کرتے ہوئے ان پر دل و جان سے فدا ہوئے… ”رحمتہ للعالمین“ ”اعلانِ نبوت“ سے قبل ہی صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے لوگ آپ کے پاس امانتیں رکھواتے اور معاملات کے فیصلے کرواتے، لیکن جب ”رحمتہ للعالمین“ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعلانِ نبوت کرتے ہوئے ان کوبتوں کی پرستش ترک کر کے ایک خدا کی عبادت کرنے، اور آپ کی رسالت کی گواہی دینے کے بارے میں کہا تو یہی قوم جو آپکی پاک دامنی اور صدق و امانت کی قسمیں کھانے والی تھی وہی آپ کے خلاف ہو گئی، پھر آپ کے راستہ میں کانٹے بچھائے جانے لگے، آپ کو ہر طرح تنگ کرتے ہوئے ستایا جاتا، طائف کے میدانوں میں آپ کو توحید کی دعوت دینے کی پاداش میں پتھر مار مار کر لہولہان کر دیا جاتا ہے… ام المو¿منین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ ”رحمتہ للعالمین“ سے سوال کیا کہ! کیا آپ پر ”احد“ سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آیا؟ تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ مجھے اذیت و تکلیف (کافروں) سے طائف کی گھاٹی میں پہنچی جس دن میں نے عبد یالیل کے بیٹے پر (دعوت و تبلیغ کے لئے) اپنے آپ کو پیش کیا۔
محمد کی غلامی دین حق کی شرط اول ہے
گر ہو اس میں کچھ خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔