Buy website traffic cheap

Shahid Nadeem Ahmad

قیام امن کی راہ نہیں چھوڑنی چاہئے !

قیام امن کی راہ نہیں چھوڑنی چاہئے !
تحریر :شاہد ندیم احمد
پاکستان ہمیشہ سے نہ صرف افغانستان، بلکہ پورے خطے میںامن و استحکام کا خواہاں رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ امریکہ طالبان مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے حالیہ افغان امن معاہدے میں مخلصانہ کوششیں کی گئیں، جنہیں عالمی سطح پر تسلیم کرنے کے ساتھ سراہا بھی گیاہے۔ افغانستان میں امن کی اسی دیرینہ خواہش کے پیشِ نظر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے مابین ہونے والی ملاقات میں بھی پاکستان کی جانب سے افغان امن کے تناظر میں کی جانے والی امریکی کوششوں کی مکمل حمایت کی گئی ہے ۔ اس موقع پر آرمی چیف نے بجا کہا کہ کورونا وائرس کی صورتحال میں ہمیں افغان امن عمل کے لیے حاصل شدہ کامیابیوں کا راستہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔افغان امن معاہدے کی مخالف قوتیں معاہدے کو ثبوتاژ کرنے کیلئے کوشاں ہیں ،مگرفریقین امن مخالف سازشوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں،اسی لیے افغانستان میں امن کیلئے سنجیدہ کوششیںتسلسل سے جا ری ہیں، اگر فریقین نے اسی طرح تدبر وتحمل سے کام لیا تو وہ وقت دور نہیں جب افغان قوم بھی امن کی فضا میں سانس لے سکے گی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان کے داخلی انتشار، عدم استحکام اور مسلسل لڑائی نے جہاں پوری دنیا کو کسی نہ کسی طرح متاثر کیا ،وہاں بلخصوص پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کو ان چار عشروں میں افغانستان کھاگیاہے۔پاکستان نے افغان جہاد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور عالمی برادری کا ساتھ اسی وجہ سے دیا کہ دنیا میں بدامنی کا خاتمہ ہو سکے اور ان قوتوں کو پسپا کیا جا سکے جو بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے لئے خطرات پیدا کرتی ہیں، پاکستانی قوم اور ریاست نے دونوں بار عالمی برادری کا ساتھ دینے کی بھاری قیمت چکائی ہے،اس کے باوجود جب امریکہ اور اس کے بعض اتحادی اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتے ہیںتو خسارے کا احساس شدت اختیار کرجاتا ہے ۔
پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاﺅ کی اپنی تاریخ ہے ، ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو پاک امریکہ تعلقات میں تیزی سے گراوٹ آئی،مگر2018ءکے عام انتخابات کے بعد پاکستان کی سیاسی قیادت تبدیل ہوئی تو پاک امریکہ تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے ،کیو نکہ سیاسی و عسکری قیادت نے مشترکہ حکمت عملی طے کی کہ پاکستان نے خود کو اپنے داخلی معاملات تک محدود رکھے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے دنیا پر واضح کر دیا کہ اب پاکستانی قوم دوسروں کی جنگ لڑنے کو تیار نہیں ہے۔اسی دوران حالات نے پلٹا کھایا اور امریکی حکومت کو بھی احساس ہوا کہ ملک کی معاشی مشکلات کا حل یہی ہے کہ جن علاقوں میں بلا مقصد جنگ لڑی جا رہی ہے، وہاں جنگی مہم ختم کر دی جائے،افغانستان سے باعزت واپسی کے لیے امریکہ کو پا کستان کی اشد ضرورت ہے ، امریکی حکام اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان صرف جغرافیائی طور پر افغانستان سے جڑا ہوا نہیں، بلکہ اپنے مضبوط رابطوں اور خطے میں مستعد کھلاڑی کی حیثیت سے افغانستان میں سب سے موثر معاونت فراہم کرنے کے قابل ہے۔
امریکا اپنے مفادات کے حصول کیلئے پا کستان سے تعلقات بہتر بنانے کا خواہا تھا ،مگر اس میں بڑی روکاوٹ بھارت بن رہا تھا،کیو نکہ امریکا بوقت ضرورت بھارت کو اپنا سٹریٹجک پارٹنر قرار دے کر پاکستان پر دباﺅ ڈالتا رہتاتھا، نئی امریکی ضروریات نے پاکستان کو گنجائش دی کہ وہ بھارت کو خطے کے معاملات میں اپنی من مرضی کرنے سے روکے ،صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی اور آئی ایم ایف سے بیل آﺅٹ پیکیج کے حوالے سے اپنا دباﺅ کم کرتے ہوئے پاکستان سے ایک بار پھر افغان طالبان سے امن معاہدے کے لئے کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی۔ صدر ٹرمپ نے افغان نژاد زلمے خلیل زاد کو اپنا خصوصی ایلچی نامزد کیا اور پا کستان کے بھرپور تعاون سے ایک بار پھر مذاکراتی عمل شروع کیا گیا ،قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان اور امریکہ کے مابین حتمی مذاکرات سے قبل پاکستان کی کوششوں سے مری‘ بیجنگ‘ماسکو اور دوحا ہی میں طالبان سے متعدد مذاکراتی دور چلے، دو ماہ قبل دوحا میں جب طالبان اور امریکہ کے درمیان حتمی معاہدے پر دستخط ہوئے تو امریکہ نے یہ بات تسلیم کی کہ وہ دستخط ہونے کے اگلے دن سے ہی اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنا شروع کر دے گا،جبکہ طالبان نے یہ شرط قبول کی کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان افغان سرزمین امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
اس معاہدے میںطالبان اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی شرط پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ مذاکرات سے قبل افغان حکومت 5ہزار طالبان کو رہا کریں گے،مگر افغان حکومت 5ہزار طالبان کی رہائی کو اپنے سیاسی اقتدار کے لئے خطرہ سمجھ کر ٹال رہی ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک امن معاہدے کے پابند نہیں ہوں گے کہ جب تک افغان حکومت اور امریکہ اپنی تسلیم شدہ شرائط پر عمل نہ کریں، معاہدے کے تحت تمام فریقوں پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر فائر بندی کر دیں،جبکہ صورت حال یہ ہے کہ معاہدے سے چند روز بعد ہی افغان صدر نے معاہدے اور طالبان کے متعلق ایسے بیانات جاری کرنا شروع کر دیے کہ جن سے مفاہمت کے ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ امریکہ اپنی افواج کا بڑا حصہ افغانستان سے واپس لے جا چکا ہے، لیکن طالبان اور افغان حکومت کے مابین تصادم کم نہیں ہو سکاہے ،کیو نکہ افغان امن معاہدے کے مخالف قوتوں کے مفادات تصادم سے جڑے ہیں۔
پاکستان نے طالبان کو امن معاہدے تک لانے ،سازگار ماحول بنانے اور اپنی مشکلات کے باوجود امریکہ کی مدد کرنے کا مشکل کام اس امید پر انجام دیا ہے کہ افغانستان طویل خون ریزی سے نجات حاصل کر کے پرامن ترقی کی جانب اپناسفر شروع کر سکے۔ ایک آزاد‘ مستحکم‘ پرامن اور خوشحال افغانستان، اس افغانستان سے کہیں زیادہ پا کستان کے لیے موزوں اور فائدہ بخش ہو سکتا ہے۔اس لیے وزیر اعظم اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فریقین کو امن معاہدے پر عملدرآمد اور ممکنہ رکاوٹوں کو دور کرنے پرزور دیا ہے۔ امریکی حکام کو یہ امر ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا کہ افغانستان میں امن کے لئے طالبان انٹرا افغان مذاکرات پر غیر مشروط طور پر رضا مند نہیں ہوئے، یہ معاہدہ امریکی ساکھ اور ضمانت پر روبہ عمل ہو رہا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ امریکہ دونوں فریقوں کو معاہدے کی پاسداری کا کہنے سے قبل افغان حکومت کو مفاہمت دشمن طرز عمل سے باز رہنے کی سخت ہدایت کرے ،امریکہ کو اس امر کا بھی احساس کرنا چاہئے کہ معاہدے کے لئے انتھک کوشش کرنے والے پاکستان کے لئے امریکہ کے علاقائی اتحادی سازشوں میں مصروف ہیںاور اُن کی سازشیں خطے کے تنازعات کو حل کرنے میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس لیے افغان قیام امن کیلئے فریقین کو حاصل شدہ کامیابیوں کے راہ پر مستعدی سے گامزن رہنا ہو گا ،اگر اسی طرح تدبرو فراست سے کام لیاگیا تو وہ وقت دور نہیں کہ جب افغان قوم واقعی امن کی فضا میں سانس لے سکے گی۔