Buy website traffic cheap

بیٹی کی تعلیم

بیٹی کی تعلیم ادھوری کیوں؟

لاہور(ویب ڈیسک)کنزا نے بچپن ہی سے ڈاکٹر بننے کا خواب آنکھوں میں سجا رکھا تھا، جسے تعبیر دینے کے لیے اُس نے دِن رات خُوب محنت کی۔ میٹرک میں اے وَن گریڈ آیا، تو انٹر میں بھی بہترین مارکس حاصل کیے۔ ابھی میڈیکل کالج میں داخلے کا معاملہ درمیان ہی میں تھا کہ خاندان سے اچھا رشتہ آگیا اور والدین نے یہ سوچتے ہوئے کہ اپنے لوگ ہیں اور پھر جب ڈاکٹری پڑھ کر بھی لڑکی نے گھر داری ہی کرنی ہے، تو کیوں نہ فرض سے جلد سبکدوش ہوجائیں، جَھٹ ہاں کردی۔ یہ کہانی صرف کنزا ہی کی نہیں، بے شمار لڑکیوں کی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اوّل تو لڑکیوں کے خوابوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی، پھر زیادہ تر گھرانوں میں معاشرے کے دبائو میں آکر جلد از جلد رشتے ڈھونڈے جاتے ہیں اور اُن کی شادی کروا دی جاتی ہے۔ اور پھر لڑکیاں بھی گھر، گر ہستی میں الجھ کر خود اپنے ہاتھوں سے اپنے اعلیٰ تعلیم کے خواب کا گلا گھونٹ دیتی ہیں۔ حالاں کہ دینِ اسلام میں حصولِ علم کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا آغاز ہی ’’اقراء‘‘یعنی پڑھ سے کیا۔ پھر حدیث شریف میں ہے، علم حاصل کرنا ہر مَرد اور عورت پر فرض ہے۔ ہماری اس طویل تمہید کا خدانخواستہ یہ مقصد نہیں کہ عورت گھر نہ سنبھالے، بلکہ ہم تو یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ گھرداری کے ساتھ خود کو تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کرے، تاکہ گھر کے ساتھ ساتھ نسلوں کو بھی اچھی طرح پروان چڑھا سکے۔جس لڑکی نے نئی نسل کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ آگے چل کر معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے، تو اُسے کم از کم خود تو اس قابل ہونا چاہیے ناں!!لہٰذا اگر کسی لڑکی کو شادی کے بعد یہ موقع ملے کہ شوہر اور اہلِ خانہ تعاون کرنے والے ہوں، تو اُسے لازماً اپنی تعلیم جاری رکھنی چاہیے۔ اگر اُسے لگے کہ وہ گھریلو ذمّے داریوں کی ادائی کے ساتھ اپنی ادھوری تعلیم بھی مکمل کرسکتی ہے۔ کالج، یونی ورسٹی میں داخلہ لے سکتی ہے، تو اسے چاہیے کہ فوراً سے پیش تر اپنا ادھورا تعلیمی سلسلہ بحال کرے۔ کالج، یونی ورسٹی میں داخلہ لینا ممکن نہ بھی ہو، تو پرائیویٹ طور پر بھی یہ سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کم از کم اُسے اپنی آنے والی نسل کے لیے ایک پڑھی لکھی ماں کہلانے کا اعزاز تو حاصل ہوسکے گا۔

تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچّوں کا اچھے سے اچھے اسکول میں داخلہ کروائیں، مگر جب عموماً اسکولز میں والدین کے انٹرویوز ہوتے ہیں، تو والدین کی بات چیت کے انداز، رکھ رکھاؤ اور دیگر کئی معاملات کے علاوہ سرِ فہرست اُن کی تعلیمی استعداد پرکھی جاتی ہے،خصوصاً ماں کی۔اور صرف اسی ایک مقام پر نہیں،ایک تعلیم یافتہ ماں اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے اِک اِک قدم پر، ایک ناخواندہ ماں کی نسبت کہیں بہتر اور اچھی ماں کے طور پر اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ پڑھی لکھی ماں، جو نسل پروان چڑھاتی ہے، ایک اَن پڑھ ماں(گرچہ ماں تو ماں ہی ہوتی ہے، کون سی ماں ایسی ہوگی، جو اپنی اولاد کو ایک اچھا انسان بنانا نہیں چاہے گی) باوجود پوری کوشش کے، اولاد کی تعلیم و تربیت اُس نہج پر نہیں کرپاتی۔ یوں ہی تو نپولین بونا پارٹ نے نہیں کہا تھا کہ’’تم مجھے اچھی مائیں دو، مَیں تمہیں اچھی قوم دوں گا‘‘۔

قصّہ مختصر، والدین بیٹوں کی تعلیم کے لیے ایڑی چوٹی کا زور ضرور لگائیں، لیکن بیٹیوں کے صرف اچھے ’’بَر‘‘ دیکھ کر اُن کی تعلیم کا سلسلہ کسی طور موقوف نہ کریں، خاص طور پر اُن بچّیوں کا، جو ذہین، پڑھاکو ہوں، دِن رات محنت کرتی ہوں اور بچپن ہی سے اعلیٰ تعلیم کے خواب بُن رہی ہوں۔ اُن کے مستقبل کا فیصلہ اُن کی مرضی و منشا کے مطابق ان کی تعلیم کی تکمیل کے بعد یا اس شرط کے ساتھ کریں کہ اگلی زندگی، اُن کی تعلیم کی تکمیل میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔