Buy website traffic cheap

اپوزیشن

حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے۔۔کوئی بھی تصادم ملک کے مفاد میں نہیں

پی ٹی آئی کی جارحانہ اندازسیاست نہ الیکشن سے قبل مخالف جماعتوں کے لئے قابل قبول تھی نہ ہی الیکشن کے بعد۔آخر قبول کیوں ہو؟اب تو پی ٹی آئی اپنی مسلسل جدوجہد کے بعد برسراقتدار آچکی ہے اور ایسے میں بحثیت حکمران جماعت پی ٹی آئی پر توبڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلا جائے ،تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو کہیں کوئی ایک مثال نہیں ملتی کہ حکمران جماعت تن تنہا ہی ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے رہی ہو ،اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد جس میں تحریک انصاف کی حمایتی جماعت بھی شامل ہو گئی ہے سراسر حکمران جماعت کے جارحانہ اندازو بیان کی بدولت ہی ممکن ہوپایا ہے ۔خبر کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے دلچسپ بات تو یہ ہے اس موقع پر حکومتی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)مینگل بھی اپوزیشن کیساتھ مل گئی ہے۔ اپوزیشن نے مشترکہ لائحہ عمل کیلئے تجاویز تیار کر نے کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی ہے جس میں پیپلز پارٹی،مسلم لیگ (ن)،اے این پی،ایم ایم اے کے علاوہ بی این پی مینگل کا ایک رکن بھی شامل ہے۔متحدہ اپوزیشن نے مشترکہ اعلامیے میں کہاگیا ہے کہ حکومتی معاشی پالیسیاں قومی سلامتی کےلئے خطرہ بن چکی ہیں۔حکومت کی نااہلی، ناتجربہ کاری اور بے حسی کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں،حکومت نے بدانتظامی اور نالائقی کی وجہ سے عوام کو بجلی اورگیس کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دوچار کردیا،ناقص پالیسیوں کی بدولت میڈیا صنعت کوشدید بحران کا سامنا ہے،بڑی تعداد میں میڈیا ورکرز اور صحافی بے روزگار ہورہے ہیں،پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تیسرے منی بجٹ کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔گزشتہ روز کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اورقومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف محمد شہبازشریف کی دعوت پرپارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان اور قائدین کا اہم اجلاس پارلیمنٹ ہاوس میں اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں ہوا۔اجلاس میں سابق صدر اورپاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری،پیپلز پارٹی رہنما سید خورشید شاہ، سید نوید قمر،سینیٹر شیری رحمن،سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، ن لیگی رہنماخواجہ محمد آصف، احسن اقبال، رانا تنویر حسین، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنائاللہ، سینیٹر پرویز رشید، سینیٹر ڈاکٹر آصف کرمانی، مریم اورنگزیب اورمتحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے مولانا اسدمحمود اور مولانا عبدالواسع نے شرکت کی۔اگر کہا جائے تو پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) کے تعلقات پر پڑی برف پگھل رہی ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔اس اجلاس میں اتحادیوں کا کہنا تھا کہ کہ حکومتی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے سٹاک ایکسچینج میں اب تک 40ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے اور کاروباری اور معاشی سرگرمیاں منجمد ہوچکی ہیں۔ اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس نے حکومت کی طرف سے صوبائی خودمختاری اور وفاقی اکائیوں کے آئینی، جمہوری اور داخلی امور میں مداخلت، منتخب حکومتیں گرانے کے رویہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے وفاق پاکستان کے لئے خطرہ قرار دیا۔اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ عوام کے آئینی، جمہوری، معاشی اور انسانی حقوق کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا اور ان کے دفاع کے لئے اپوزیشن متفق اور متحد ہو کر پوری قوت سے مزاحمت کرے گی۔جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کے پارلیمنٹمیں رویے پربرہمی کا اظہارکیا اور کہا کہ اپوزیشن والے عوام کے مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں اور شورشرابے اور ایوان سے واک آﺅٹ کے علاوہ انہیں کوئی غرض نہیں وہ اپنی کرپشن چھپانے کیلئے حکومت پر دباﺅ بڑھانا چاہتے ہیں مگر احتساب پرکسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوگا جبکہ پارلیمنٹ کوکسی کی کرپشن چھپانے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔یہاں تعجب کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم خود پارلیمنٹ میں حاضر نہیں ہورہے جس پر مریم اورنگزیب ”لاپتہ وزیراعظم“کا بیان بھی جاری کر چکی ہے ۔اپوزیشن کا وفاقی حکومت کے خلاف اتحاد اپنی جگہ دوسری جانب وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے سندھ میں تبدیلی کے لیے فارورڈ بلاک بنانے کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی دعوی کیا کہ صوبے میں تبدیلی کے لیے پیپلزپارٹی کے سینئر اراکین نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔ایسی صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کے رواں ماہ کے آخری ہفتے سندھ کے متوقع دورے پر نئی بحث شروع کر دی ہے کہ واقعی یہ کراچی پیکج کے حوالے سے صرف ہوگا یا پس پردہ کوئی محرکات اور وجوہات ہیں ۔ بہرحال ایک بات تو کلیئر ہے کہ سیاسی درجہ حرارت گرما گرم ہے اور دونوں اطراف سے جیسے کو تیسا کی پالیسی نظر آرہی ہے نہ انداز میں لچک ہے نہ بیان میں ۔حکمت عملی اور پیش رفت کوئی اچھی نشاندہی نہیں کر رہے ۔حکومت کو گہری غوروفکر کی ضرورت ہے کہ وقت ابھی اُنکے ہاتھ سے نکلا نہیں اور نہ ہی سیاسی حالات بے قابو ہیں۔موجودہ سیاسی صورتحال کی احساسیت کا حکومت کا ادراک ہونا چاہیے کیونکہ تصادم پارلیمنٹ کے اندر ہو یا باہر کسی صورت ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔