Buy website traffic cheap

قرضوں

آئی ایم ایف پاکستان کی مددکے لئے تیار

کئی بار موقف بدلنے کے بعد بالا آخر حکومت نے آئی ایم ایف سے بیل آﺅٹ پیکج لینے کا باقاعدہ اعلان کر ہی دیا،یہ ایک الگ بحث ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے حکمران جماعت کا الیکشن سے قبل موقف کیا رہا ہے؟ مگر یہاں یہ دیکھنا زیادہ اہم ہے کہ کیا پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر ہوچکا تھا کہ نہیں؟کئی ماہ یہ خبریں گردش میں رہی اور حکومت تسلیم بھی کرتی رہی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے رابطہ میں ہے جبکہ دوسری جانب ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے اپوزیشن کا موقف رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے مطالبات کوعوام پر غیر اعلانیہ طور پر مسلط کیا جا رہا ہے ،اب وزیراعظم عمران خان نے دبئی میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات میں پاکستان اور آئی ایم ایف معاشی اصلاحات پر متفق ہوگئے ہیں،تفصیلات کے مطابق کرسٹین لیگارڈ سے ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کیلئے عالمی مالیاتی فنڈ کے تعاون کو سراہا اور قومی تعمیر کیلئے اپنے وژن کے بارے میں کہا کہ پاکستان میں معاشی اصلاحات کررہے ہیں، سماجی تحفظ کو فروغ دیں گے جبکہ منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ کا کہنا تھاکہ وزیراعظم عمران خان سے اچھی اور تعمیری ملاقات ہوئی جس میں پاکستان میں حالیہ معاشی ترقی اور مستقبل کےامکانات پربات چیت ہوئی‘ پاکستان کے ساتھ جاری آئی ایم ایف پروگرام پر بات چیت کے تناظر میں گفتگو ہوئی جس میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ آئی ایم ایف پاکستان کی مدد کیلئے تیار ہے۔ آئی ایم ایف کی ایم ڈی کے مطابق فیصلہ کن پالیسیوں اور معاشی اصلاحات کے مضبوط پیکیج سے پاکستانی معیشت میں استحکام آئے گا‘ پاکستان کی حکومت درست سمت معاشی اقدامات کررہی ہے ا ور معیشت کی بہتری کیلئے پاکستان سے تعاون جاری رکھیں گے۔ اعلا میے کےمطابق پاکستان اور آئی ایم ایف معاشی اصلاحات پر متفق ہیں۔ ملاقات کے بعد وزیراعظم عمران نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا کہ مس کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات میں مکمل ہم آہنگی پائی گئی، ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے اصلاحات کا عمل ناگزیر ہے، اصلاحات کے عمل سے کم آمدن والے طبقہ کو تحفظ ملے گا۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے حکومت پاکستان کے کرپشن کے خلاف اقدامات قابل ستائش قرار دیا،دوسری جانب حکومت اپوزیشن کی شدید تنقید کی ذد میں ہے وزیراعظم کی آئی ایم ایف کے احکام سے ملاقات کو آڑے ہاتھوں لیا جارہا ہے اورالزام عائد کیا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ عوام پر ڈالنے کاحکومت خفیہ وعدہ کر چکی ہے اور اب قوم مہنگائی کے ایک نئے طوفان کیلئے تیار رہے۔مسلم لیگ(ن) کے رہنماﺅں کی جانب سے 6 ماہ میں یہ عوام کو کوئی سہولت فراہم نہیں کرسکے،6 ماہ کے دوران 1400 ارب کے نوٹ چھاپے جانے کا الزام بھی عائد کر دیا گیا ہے۔یہاں اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے آئی ایم ایف سے ڈیل سے قبل ہی ہر سہولیات پر سبسڈی ختم کرنے کے علاوہ ٹیکسوں میں ردوبدل سے عوام پر مہنگائی کا بم گرایا جاچکا ہے، منی بجٹ جسے حکومت کی جانب معاشی اصلاحات قرار دیاگیا،آنے کے باوجود کاروباری شخصیات شش وپنج کا شکار ہیں، اگر آئندہ بجٹ میں آئی ایم ایف کے مطالبات مانتے ہوئے مزید مہنگائی کی گئی تو عوام کا شدید ردعمل سامنے آسکتا ہے ۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایسے حالات میں جب جولائی تا دسمبر 2018 وفاقی حکومت کے قرضوں میں 2 ہزار425 ارب روپے کااضافہ ہوا ۔ دستاویزات کے مطابق جولائی تا دسمبر غیر ملکی قرضے 1306 ارب روپے بڑھے جب کہ پہلی ششماہی میں ملکی قرضوں میں ایک ہزار 119 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ستمبر تا دسمبر 2018 قرضوں میں ایک ہزار 616 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کے پہلے 4 ماہ میں غیر ملکی قرضوں میں ایک ہزار ارب روپے اضافہ ہوا جب کہ ستمبر تا دسمبر مرکزی حکومت کے ملکی قرضے 6 سو 16 ارب روپے بڑھ چکے ہیں تو آئی ایم ایف کا پیکج کیسے ریلیف کا موجب ہوسکتا ہے ۔حکومت روپے کی قدر میں پہلے ہی بہت کمی کر چکی ہے جبکہ معاشی ماہرین کے مطابق جتنی کمی کر دی گئی ،ضرورت بھی نہ تھی، آج عوام کی حالت پانچ ماہ قبل سے بھی زیادہ ابتر ہے ، یہاں یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ حکومت کی جانب سے بتائی ضرورت کے مطابق پندرہ ارب ڈالر خزانے میں آچکے ہیں تو پھر آئی ایم ایف جانے کی اتنی تگ و دو کیوں کی جارہی ہے؟