Buy website traffic cheap


بین المذاھب ھم آھنگی وقت کی ضرورت

بین المذاھب ھم آھنگی وقت کی ضرورت
عمران امین
انسان نے ابتداء سے ہی اپنے رہن سہن کے لیے چند ضابطے اور اُصو ل بنا لیے تھے۔ تاکہ ایک معاشرے میں بسنے والے تمام لوگ پُرامن اور موافق ماحول میں رھتے ھوئے،ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا سیکھیں او ر اُنکی اپنی ذاتی او ر اجتماعی زندگیوں میں قانون کی بالادستی،عدل و انصاف اور بھائی چارے کو فروغ مل سکے۔ دراصل اس بہتری میں ہی بنی نوع انسان کی بقا پوشیدہ ھے۔اگرچہ ابتدائی انسان کی ذہنی سطح، بلوغت کے اُس اعلیٰ معیار پر نہ تھی جو کسی بھی مہذب انسانی معاشرہ کی ضرورت ھوتی ھے۔ مگر تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ھے کہ معاشرے میں امن اور سکون سے رھنے کے لیے اُس دور کے انسان میں بھی قانون اور ضابطے کی اہمیت کا احساس ضرور تھا۔ دنیا کے مذاھب کا مطالعہ کرنے سے بھی ھمارے علم میں آتاھے کہ دنیا کے تمام مذاھب نے معاشرے میں رھنے کے لیے کچھ اُصول بنائے اورافراد کو آپس میں ہمیشہ پیار اور محبت سے رھنے کا درس دیا ھے۔جب ھم اسلام کا مطالعہ کرتے ھیں تو پتا چلتا ھے کہ یہ تو ایک مکمل ضابطہ حیات ھے اور اسکی بنیاد میں ھی تمام انسانوں سے محبت کا عنصر شامل ھے۔ خُدا ئی دین کے پیامبر مختلف ادوار میں تشریف لائے اور انسانوں سے محبت کا درس اور رسم و رواج کی تشریح اپنی شریعت کے مطابق کرتے ھوئے انتہائی مشکل حالات میں بھی تعلیمات اسلامی کا درس اپنے علاقے کے لوگوں تک پہنچاتے رھے۔ اُن کی تعلیمات میں فرقے،نسل،رنگ،جنس، علاقے اور عقیدے کی کوئی قید نہیں تھی اور اُن کا مخاطب سب بنی نوع انسان تھے۔اُن کی تعلیمات میں تمام انسانوں کے احترام کو اعلیٰ خدمت اور دوسرے انسانوں کی خدمت کو اعلیٰ عبادت قرار دیا گیا۔دنیا کے دیگر مذاھب نے بھی بنی نوع انسان کو بتایا کہ زندگی کا مقصد دوسروں کو سہولت دینا اور آسانیاں پیدا کرنا ھے اوراُنھیں آپس میں فتنہ انگیزیاں پھیلانے اور لڑائی جھگڑوں سے پرھیز کرنا ھے۔جن معاشروں نے اپنی مذہبی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں شامل کر لیا وہ آج مہذب معاشرے کہلاتے ھیں اور جنھوں نے اپنی مذہبی تعلیمات سے رُوگردانی اور اجتناب کیا، وہ اپنے دین سے دُوری کی بنا پر مختلف معاشرتی بیماریوں،غیرمناسب انسانی رویوں، عدل و انصاف کے غیر متوازن نظام، انتشار اور فساد کا شکار ھو گئے۔
بدقسمتی سے پاکستان بھی اُن معاشروں میں سے ایک ھے جہاں مختلف رویوں کے عدم توازن کی بنا پر عدم تحفظ اور عدم برداشت کا عنصر پوری طرح سرایت کر چکا ھے۔ ھمارے نظام تعلیم میں صرف ڈگریاں بانٹی جا رھی ھیں مگر تربیت کا عنصر غائب ھے بلکہ یوں کہیں کہ تعلیم و تربیت کی اصل روح کا فقدان ھے۔ابھی ہمارے انصاف کے اداروں میں اتنی سکت نہیں کہ وہ جرائم کا مکمل خاتمہ کر سکیں۔مذہبی ادارے بھی بد قسمتی سے معاشرے کے آلودہ ماحول سے متاثر ھونے کی وجہ سے اپنا موثر کردار ادا نہیں کر پا رہے۔اس قسم کے بُرے حالات دشمن قوتوں کے لیے ہمیشہ اچھے اور سازگار ھوتے ھیں اور اس ابترصورتحال کے پیش نظر مفاد پرست سیاسی،مذہبی اورادبی ٹولے مختلف لسانی، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر اپنا کھیل کھیلنے کو تیار بیٹھے ھیں۔بد قسمتی سے ھمارا میڈیا بھی کھل کر ان لوگوں کو بے نقاب کرنے سے قاصر ھے کیو نکہ مفاد پرست ٹولے میں سے اکثر لوگوں کا میڈیا سے کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ھے۔مفاد پرست اور مُلک دشمن ٹولے نے عام عوام کو اپنے لچھے دار اور مصالحہ دار معاشرتی، لسانی، علاقائی اور مذہبی نعروں کے پیچھے لگانے کی کوشش تیز کر دی ھے اور پچھلے چند سالوں میں معصوم لوگ ان ظالموں کے ھاتھوں میں کھیلتے ھوئے بے شمار بم دھماکوں میں خودکُش بمبار کی حیثیت سے اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ھیں اور ان کاروائیوں سے کیُ بیگناہ افراد بھی شہید ھو چکے ھیں۔
اب سوال یہ ھے کہ اس دھشت،خوف اور بے یقینی کی کیفیت سے کیسے نکلا جائے؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ھے۔آج ضرورت اس بات کی ھے کہ ملک میں بسنے والے سب مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے اور ھر فرد کو امن اور بھائی چارے کا پیغام دیکر، عوام الناس کی آواز بنانے کا فرض سونپا جائے۔ وہ سب لوگ امن کے پیامبر بن کر اپنے مکتبہ فکر اور قومیت میں یہ پیغام پھیلاتے ھوئے برداشت کے رویئے کو معاشرے میں عام کریں۔ یہ وقت کی ضرورت ھے کہ دوسرے مذاھب، نسلوں اور جنس کی عزت و تکریم کی جائے تاکہ سب لوگ ایک محفوظ اور پُرامن معاشرے کے اندر اپنا مثبت کردار ادا کرتے ھوئے خوشحالی والی زندگی گزاریں۔اس کے علاوہ
تعلیمی نصاب میں بھی ایسا مواد شامل کرنا ضروری ھے جو لوگوں میں ایک دوسروں کیلیے محبت کے جذبات کوبیدار کرے اور اُن کے شعور کو مزید جلا بخشے۔ پرائیویٹ سیکٹر مٰیں بھی ا یسے افراد کی حوصلہ افزائی ھونی چاھیے جو اس کام میں حکومت کی مدد کرنا چاھیں اوراس کے بدلے میں انھیں پوری حکومتی سپورٹ حاصل ھونی چاھیے۔عوام کے لیے کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دینا ھو گا تاکہ معاشرہ صحت مندافراد پر مشتمل ھو۔یہ بات خوش آئند ھے کہ پاکستانی لوگ اب اس بات کو محسوس کرتے ھیں کہ مخالفت برائے مخالفت اچھی بات نہیں بلکہ برداشت کے رویے سے سب کو لے کر چلنا ھے اور پھر آگے بڑھنا ھے۔حکومتی سرپرستی میں عوامی کارنر میٹنگز اور ورکشاپس کا انعقاد بھی ضروری ھے۔ سکولوں میں بین المذاھب ھم آھنگی، نوجوان نسل کے نصاب کا باقاعدہ حصہ ھونا چاھیے اس سلسلے میں حکومت کو باقاعدہ مہم چلانا ھو گی۔عوام الناس کے اندر اس بات کو راسخ کرنا ھو گا کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ بھی دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کا احترام کرتے تھے اور اسلام کے پھیلنے میں تلوار سے زیاہ ہمارے اعلیٰ اخلاق،درگزر اور برداشت جیسے رویوں کااہم کردار رھا ھے۔پاکستانی عوام کو بھی اب اپنا کردار ادا کرنا ھوگا اورمعاشرے میں موجود موقع پرست اور مفاد پرست شرپسند عناصر کی سرکوبی کرتے ھو ئے ایسے رویوں کو فروغ دینا ھوگا کہ جن سے عدم برداشت کے رویے میں کمی ھو اور معاشرے میں موجودتمام مکاتب فکر اپنی سیاسی،سماجی،ثقافتی،مذہبی اور معاشرتی سرگرمیاں آسانی سے ادا کرسکیں۔
ھمارے ملک میں سندھ کے صوبے میں ہندؤں کی آبادی کافی ھے اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے افراد بھی ھیں۔وھاں کی مُسلمان آبادی اور دیگر مذاھب کی آبادیاں آپس میں اتفاق و محبت سے صدیوں سے رہ رھے ھیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کے بعض علاقوں میں بھی بیشمار مذاھب کے لوگ امن اور بھائی چارے سے صدیوں سے رہ رھے ھیں۔ ننکانہ میں سکھوں کی کثیر آبادی ھے مگر وھاں کبھی بھی سکھ اقلیت کو کسی بھی قسم کا مسئلہ نہیں ھوا۔یہ سب اس بات کا عندیہ ھے کہ جن علاقوں میں ابھی تک نفرت انگیزی کا مواد نہیں پہنچا،یا پھروھاں کے افراد نے اس مواد کا اثر نہیں لیاوھاں ابھی بھی پیار محبت کے گیت گائے جاتے ھیں اور ایسا باقی سارے ملک میں تبھی ممکن ھو گا جب سب مل کر اس مشن کو آگے لے کر چلیں گے۔حکومت نے اس مشن کو معاشرے میں قابل قبول بنانے کے لیے اب تک مجموعی طور پر اچھی کوشش کی ھے اور بیرونی عناصر کی سازشوں کو سمجھتے ھوئے،ایسے اقدامات اُٹھائے ھیں کہ جن سے شر پسند عناصر کی بیغ کنی ھوئی ھے۔یہ بات ذھن میں رھنی چاھیے کہ اگر معاشرہ پُرامن ھے تو ترقی بھی ھو گی اورخوشحالی بھی ھو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا