Buy website traffic cheap


کبھی خوشی کبھی غم

کبھی خوشی کبھی غم
امتیازعلی شاکر
ملک مشکل حالات سے گزررہاہے۔جمہوریت خطرے میں ہے۔الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔حکومت کی نالائقی اورنااہلی کی وجہ سے ملک مشکلات سے دوچارہورہاہے۔حکومت کی ناقص پالیسیوں اورناقص کارگردگی نے ملک کادیوالیہ نکال دیاہے۔ملک میں سرمایہ کاری ختم ہوگئی ہے۔حکمران کرپشن میں ملوث ہیں یہ سب بیانات اوربہت کچھ ہردورکی اپوزیشن کے پالیسی بیانات ہوتے ہیں۔حکومت سنبھالی توملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔گزشتہ حکومتوں نے ملکی خزانہ خالی کردیا۔گزشتہ حکمرانوں کی کرپشن نے ادارے تباہ کردیئے تھے۔ہم نے حکومت میں آتے ہی مثبت پالیسیاں بنائی۔کرپشن کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھائے۔دن رات محنت کرکے ملکی خزانے کوبھردیا۔مشکل حالات میں معاشی ٹیم نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے جس نے ایسا ماحول بنایا کہ ملک میں سرمایہ کار آرہے ہیں۔دنیابھرسے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے یہ اورمزیدبہت ساری خوشخبریاں ہردور کے حکمران سناتے ہیں ۔ہمیں توآج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ جب حکمران ملکی خزانہ بھردیتے ہیںتواُن کے جاتے ہی خزانہ خالی کیوں اورکیسے ہوجاتاہے اورپھراگلی حکومت خزانہ بھردیتی ہے اورپھراگلی حکومت آتے ہی خزانہ کیوں خالی ہوجاتاہے؟حاکم وقت ہمیں خوشی کی خبریں سناتے ہیںاوراپوزیشن وقت ہمیں آنے والے غم کی اطلاعات پہنچاتی رہتی ہے یعنی کبھی خوشی کبھی غم سیاسی زندگی کافلسفہ ہے ۔ایک خوشخبری یہ ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے کہاہے کہ ہم نے معیشت کے لیے مشکل فیصلے کیے۔ اب صورت حال دن بدن بہتر ہو رہی ہے 2015 ء تک تجارتی خسارہ صفر تھا اور ہمارے زرمبادلہ ذخائر اچھی سطح پر تھے 2016ء سے تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہوا۔ایکسچینج ریٹ ایڈجسٹ نہ ہونے سے زرمبادلہ ذخائر کم ہونا شروع ہوئے۔کرنٹ اکا ئونٹ خسارہ ماہانہ 2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ایکسچینج ریٹ تبدیلی کے بعد ماہانہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ نصف رہ گیا۔ایکسچینج ریٹ نہ روکا جاتا تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑتا۔آج روپے کی قدر مارکیٹ طے کر رہی ہے جس سے تمام قیاس آرائیاں ختم ہو گئی ہیں۔انہوں نے مز ید کہاکہ رواں سال جون میں زرمبادلہ کے ذخائر 7 ارب 20کروڑ ڈالر ہو گئے۔ حکومت کے اخراجات اور خرچ میں بھی توازن نہیں رہا اور ہماری ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح بھی کافی کم ہے۔ دوست ملکوں نے ہاتھ کھینچا تو آئی ایم ایف آخری آپشن تھا۔تازہ ترین غم کی خبریں۔ پاکستان کی معیشت جنوبی ایشیا میں دیگر ممالک کے مقابلے میں تنزلی کا شکارہو رہی ہے۔عالمی سطح پر بھی پاکستان ایک سال کے دوران مزید تین درجے نیچے چلا گیا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کی جاری کردہ عالمی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ خطے کے دیگر ممالک میں بھارت 68ویں۔سری لنکا 84 ویں۔بنگلہ دیش 105۔نیپال 108ویں جبکہ پاکستان دنیا بھر میں مجموعی طورپر110ویں نمبر پر ہے۔زیادہ دکھ اس بات پرہورہاہے کہ ہم بھارت کے ساتھ بنگلادیش سے بھی پیچھے ہیں۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ اداروں کی کارکردگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں 107ویں نمبر پر ہے۔رپورٹ مزیدحقائق سے پردہ اُٹھاتے ہوئی کہتی ہے کہ ملک میں منظم جرائم کی شرح میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی آئی ہے جبکہ پولیس پر اعتماد میں بھی کسی حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ملک میں عدلیہ کی آزادی میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ دیکھنے میں آیا۔جرائم کی شرح میں کمی اورپولیس پرکسی حدتک اعتماد بحال ہونا خوش آنندیعنی خوشخبری تصورکیاجاسکتاہے۔کبھی خوشی کبھی غم والافلسفہ سچ ثابت ہورہاہے اوریہ فلسفہ ہمیں سمجھارہاہے کہ خوشخبری سننے کے فوراًبعد غم اُٹھانے کیلئے تیاررہناچاہئے۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ملک میں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔آزادی اظہاررائے کے حوالے سے عالمی فہرست میںپاکستان 116ویں نمبرپر ہے۔رپورٹ میں افسوس ناک انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک سال کے دوران کرپشن کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔پاکستان دنیا کے 141 ممالک کی فہرست میں کرپشن کے اعتبار سے101ویں نمبر پر ہے۔رپورٹ میں مزیدانکشافات بھی کیے گئے ہیں پراب بات صرف کرپشن کے واقعات میں اضافے کی خبرپرآکے ٹھہرگئی ہے۔ماضی میں کرپشن کی ذمہ دارکرپٹ حکمران قیادت جیلوں میں قیدہے اورباقی نیب کی پیشیاںبھگت رہے ہیں ایسے میں کرپشن کے واقعات میں اضافہ کیسے اورکیونکرممکن ہے؟عوام یہی سمجھیں گے کہ رپورٹ تیارکرنے والوں سے غلطی ہوئی ہوگی۔نئے پاکستان میں توکرپشن ختم ہوناتھی بڑھ کیسے سکتی ہے؟قوم کے کپتان نے توکہاتھاسودن میں بڑی کرپشن ختم کردوں گا۔کسی کونہیں چھوڑوں گا۔ملکی دولت لوٹنے والوں کومعاف کیاتویہ قوم سے غداری ہوگی۔جب کپتان ماضی میں کرپشن کرنے والوں کومعاف کرناقوم سے غداری سمجھتے ہیں توپھرکپتان کی کپتانی میں کرپشن ختم ہونے کی بجائے بڑھ کیسے اورکیوں رہی ہے؟یقینارپورٹ تیارکرنے والوں کاتعلق گزشتہ حکمرانوں کے ساتھ ہوگایایہ رپورٹ اپوزیشن جماعتوں کوفائدہ پہنچانے کیلئے تیارکروائی گئی ہوگی۔ہمیں انتظارکرناچاہئے۔کس کاانتظار؟ارے بھئی حکومت وقت کی جانب سے کرپشن کے خاتمے کی خوشخبری کاانتظارکرناچاہئے۔ہمارافلسفہ یہی توکہتاہے کہ ہرخوشی کے بعد غم ہے اورہرغم کے بعد خوشی ہے ۔یہ توہم جان چکے ہیں کہ تمام خرابیاں گزشتہ حکمران چھوڑکرجاتے ہیں اورہردور کے حاکم ملک وقوم کیلئے بہترین فیصلے کرتے ہیں۔اپوزیشن حاکم وقت کی موجیں برداشت نہیں کرتی اورتوکوئی مسئلہ نہیں