Buy website traffic cheap

Column, Abdul Waris Sajid, Gender Discrimination, Islam, Quran

بیٹا ہی کیوں؟ بیٹی کیوں نہیں!

بیٹا ہی کیوں؟ بیٹی کیوں نہیں!
عبدالوارث ساجد!

بعض اوقات انسان حیوان سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ حیوانات میں بھی اولاد سے محبت کا جذبہ موجزن ہوتا ہے قابل تعریف ہے کہ حیوان اپنی اولاد میں مذکر ومؤنث کی تفریق کئے بغیر یکساں پیار کرتا ہے مگر حضرت انسان کے ہاں یہ تفریق شدت سے موجود ہے اسے اولاد میں صرف نرینہ اولاد سے لگاؤ ہے بیٹے کی پیدائش ہی اس کی خوشی کا ٹھکانہ ہے جبکہ بیٹی اس کے لیے قابل نفرت اور گالی سے کم نہیں اور اگر اللہ اسے بیٹی کی شکل میں رحمت سے نوازے توانسان پل بھر میں حیوان سے بھی بدتر بن جاتا ہے اور اس اولاد کو ہی کوڑے کے ڈھیر پر جا پھنکتا ہے۔ چند سال ہی ہوئے کہ لاہور میں دو سنگدل افراد2نامولود بچیاں کوڑے کے ڈھیر پر پھینک کر چلے گئے۔ نومولود بچیاں پھینکنے کا پہلا واقعہ ڈیفنس کے علاقے سوئی گیس کالونی میں پیش آیا جہاں پر پیدا ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی ایک ننھی کلی کو تھیلے میں ڈال کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا، پاس کھڑے لوگوں نے تھیلے کو ہلتا دیکھ کر بچی کو باہر نکالا اور اسے ایدھی سنٹر کے حوالے کر دیا گیاہے۔ دوسرا واقعہ ریوارز گارڈن میں پیش آیا جہاں پلاسٹک کے تھیلے میں پڑی ایک اور ننھی کلی ریسکیو1122کی مدد سے میوہسپتال پہنچائی گئی۔
یہ ہے انسان کی بیٹی کی پیدائش پر نفرت کی وہ تصاویر جسے پڑھ کر انسان کانپ جاتا ہے۔بیٹیوں سے نفرت کے یہ دو واقعات ہی نہیں معاشرے میں درجنوں ایسی مثالیں ہیں جو انسانیت کے لیے ایک بد نما داغ ہیں اسی لاہور میں بیٹا پیدا نہ ہونے پر بیٹی کو دریائے راوی میں پھینکنے والے رکشہ ڈرائیور کا واقعہ بھی مشہور ہوا۔ محمد عمر نے اپنی ڈیڑھ سالہ بیٹی زینب کو دریائے راوی میں پھینک دیا تھا اور بعد میں اس کے گم ہونے کا ڈرامہ رچا دیا تھا۔ پولیس نے ملزم کی بیوی کی درخواست پر ملزم کو گرفتار کر لیا یہ شخص سلامت پورہ کا رہائشی تھا۔اس کی شادی سمیرا نامی خاتون سے ہوئی تھی جس سے اس کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، بیٹا پیدا نہ ہونے پراس کا اکثراپنی بیوی سے لڑائی جھگڑا رہتا تھا، بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ سیر کے بہانے دریائے راوی پر گیا جہاں اپنی ڈیڑھ سالہ بیٹی کو دریا میں پھینک دیا اور گم ہونے کا ڈرامہ رچا دیا تاہم شک ہونے پر سمیرا نے شاہدرہ پولیس کو درخواست دی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اس کے خاوند عمر کو بیٹے کی خواہش تھی اور اس نے یہ انتہائی اقدام بیٹے کی پیدائش نہ ہونے پر اٹھایا۔ شاہدرہ پولیس کے مطابق ملزم پہلے اپنے جرم سے منحرف تھا اس کا کہنا تھا کہ اس کی بیٹی گم ہو گئی ہے، تاہم بعد میں ملزم نے اعتراف جرم کر لیا، اس نے پولیس کو بیان دیا کہ وہ بیٹے کا خواہش مند تھا، اس کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، رکشہ چلانے سے گھر کا خرچہ پورا نہ ہوتا تھا، تنگ آکر یہ انتہائی قدم اٹھایا
انسان بعض اوقات حیوانوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے یہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے ہر شیطانی حربے آزمانے پے اتر آتا ہے بیٹے ہی خاطرسرگودھا کے علاقہ ظفر کالونی کی رہائشی 24سالہ ثوبیہ کو سسرال والوں نے ایسی اذیتوں سے گزارا کہ وہ بیٹا تو پیدا نا کر سکی مگر پاگل بنا دی گئی ثوبیہ کی شادی4سال قبل کامران سے ہوئی۔ شادی کے ایک سال بعد بیٹی پیدا ہوئی جب دوسری پیدائش ہونے والی تھی تو سسرال والے اس کا علاج کروانے کے لیے عاملوں کو لے آئے جو زچکی میں ہی ثوبیہ کو کمرے میں بند کر کے جن نکالتے رہے4عاملوں کے بہیمانہ تشدد سے ثوبیہ کی حالت غیر ہو گئی۔ اور وہ اپنے حواس کھو بیٹھی۔
تو طے ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب بہت زیادہ گھرانوں میں بیٹی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کی پیدائش پر کوئی خوشی نہیں ہوتی معاشرے اور لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے بظاہر اس سے پیار لاڈ ضرور ہوتا ہے لیکن حقیقتاً اسے بوجھ اور گالی ہی سمجھا جاتا ہے اور کبھی زندگی میں موقع ملے تو اس بوجھ کو اتارنے میں۔ ذرا بھر تاخیر نہیں ہوتی بلکہ اس بیٹی کو خود پر قربان کر کے خود کو سلامت رکھ لیا جاتا ہے گویا بیٹی گائے، بکری کی سی حیثیت اختیار کر گئی ہے اس کی بہت سی مثالیں ہماے معاشرے سے ہی جا بجا بکھری پڑی ہیں ”بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں بیوی کو قتل کر دیا گیا“ ایسی خبریں پاکستان کے ہرخطے سے اخبارات کی زینت بنتی ہیں اورجہالت کی انتہا ہے کہ اس میں روزبروز ا اضافہ ہو رہا ہے۔ بیٹی کی پیدائش کا جرم وار عورت کو سمجھاجاتاہے اس جرم کی پاداش میں اسے مارا پیٹا جاتا ہے۔ خاندان بھر کے افراد طعنوں سے نوازتے ہیں اور شوہر حضرات مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ بہت سی عورتوں کو اسی وجہ سے طلاق بھی دے دی جاتی ہے۔ ایسی خبریں اخبارات میں پڑھنے کو ملتی ہیں تو مرد کی عقل پر سر پیٹنے کو دل کرتا ہے بھلا بیٹی یا بیٹے کی پیدائش میں ماں کو کیا اختیار؟ اگر عورت کے بس میں ہو تو کون ماں ہے جو بیٹا پیدا نہ کرے اور اپنے خاوند وساس کی خوشنودی کا سبب نہ بنے مگر یہ اختیار بے چاری عورت کے پاس نہیں مگر پھر بھی ذمے دار اور قصور وار عورت ہوتی ہے اور سزا پاتی ہے۔مرد نہیں سوچتا کہ چلو عورت بیٹا پیدا نہیں کر سکی تو وہ مرد ہے وہ زور لگا کر بیٹی کی جگہ بیٹا پیدا کرلے کیا مرد کے بس میں ہے؟ اگر مرد کے بس میں نہیں تو پھر عورت ذمہ دار کیسے ہوتی ہے افسوس صد افسوس کہ اسی ناکردہ گناہ کی پاداش پر پھر بھی عورت ہی جان کی بازی ہار جاتی ہے۔
میرے اپنے شہرشیخوپورہ میں فیصل آباد روڈ کی آبادی نواں کوٹ میں زیادہ بیٹیاں پیدا کرنے کی پاداش میں خاوند نے 6بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ماں شمشاد بی بی کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پولیس کے مطابق ملزم نے 3ماہ قبل اپنی نوازئیدہ10یوم کی بیٹی کو بھی پانی کے ٹب میں ڈبو کر موت کے حوالے کر دیا تھا اور اس کی طبعی موت کا ڈرامہ رچا کر اسے دفن کر دیا تھا بتایا گیا ہے کہ مقتولہ کی ایک بیٹی طبعی موت مری تھی جبکہ ایک کو ملزم نے ہلاک کیا اور اب 4بیٹیاں اور اڑھائی سالہ ایک بچہ حیات ہیں جبکہ ملزم کا بیوی سے زیادہ بیٹیاں پیدا کرنے پر گھر میں لڑائی جھگڑا رہتا تھا اور وقوعہ کے وقت مقتولہ نے وارننگ دی تھی کہ اگر وہ لڑنے جھگڑنے سے بازنہ آیا تو بچی کے قتل کا راز فاش کر دوں کی جس پر ملزم نے مشتعل ہو کر اپنی بیوی کو بھی فائرنگ کر کے ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔
اللہ کے کام نرالے ہیں۔ وہ انسانوں کو شیطان بننے پر اپنے رب ہونے کا یقین نہ دلائے تو مٹی کے یہ پتلے دنیا پر فرعون بن جائیں۔ عورت ذات کو بیٹی پیدا کرنے کا جرم وار سمجھ کر طلاق دینے والا مرد اس وقت بہت پچھتایا جب اس نے بیٹی کی پیدائش پر بیوی کو طلاق دے دی مگر خدا کا کرنا کہ باپ کے ٹھکرائے جانے کے بعد بیٹی کی جنس تبدل ہو گئی اوع وہ، بیٹا بن گیا۔
ظالم باپ نے تو دور جہالت کی یاد تازہ کر دی مگر قدرت کے کھیل نرالے ہیں، رحمت کو زحمت سمجھنے والے جاہل باپ نے بیٹی کی پیدائش پر بیوی کو تو چھوڑ دیا مگر باپ کے ٹھکرانے کے بعد بیٹی کے جنس تبدیل ہو گئی اور وہ بیٹا بن گئی۔۔ حافظہ سمیرا کا کہنا ہے کہ میرے سسرال والوں نے دھوکہ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری بیٹی کو بیٹابنا دیا۔ میں بیٹی پیدا ہونے پر بھی خوش تھی اور آج بھی خوش ہوں۔دین والے لوگ ہمیشہ اللہ کی رضا پر خوش نظر آتے ہین ان کے ہاں بیٹی زحمت نہی رحمت سمجھی جاتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مومن کے لئے تو بیٹی! جنت کا دروازہ ہے
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے پاس ایک عورت اپنی دو بچیوں سمیت آئی اور مجھ سے کھانے کے لیے کچھ مانگا۔ اتفاق سے گھر میں اس وقت ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے وہی کھجور اس عورت کو دے دی۔ عورت نے اس کھجور کے دو حصے کیے اور آدھا آدھا دونوں بچیوں کو دے دیا۔ خود اس کے حصے میں کچھ نہ آیا۔ ام المؤمنین کو بڑا تعجب ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اللہ کے رسولﷺ گھر میں تشریف لائے تو ان سے یہ قصہ بیان کیا۔ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:”جو شخص بیٹیاں دے کر آزمایا گیا، پھر وہ ان کی اچھی تربیت کرے تو قیامت کے دن یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جائیں گی“
(مسلم:2629، بخاری: 1418)۔ یہ احادیث کسی بھی مسلم گھرانے کے لیے بے پناہ خوشی و مسرت کا باعث ہیں۔ جب ان کے ہاں بچیاں پیدا ہوتی ہیں تو دیندار والدین اس سے خوش ہوتے ہیں کہ یہ بچیاں ان کے لیے جنت کا دروازہ کھول رہی ہیں۔ ایسے والدین جن کے پاس بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں یا بیٹوں سے زیادہ ہیں تو ان کو لڑکی کی پیدائش پر افسوس نہیں بلکہ خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ بیٹی تو والدین کے لیے رحمتیں لے کر آتی ہے۔ تاریخ میں ایک دلچسپ قصہ ملتا ہے ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں تھیں۔ ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہو گا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی۔ اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں ہو گئیں، اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی۔ وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے۔ شیطان نے اس کو بہکایا، چنانچہ اس نے ارادہ کر لیا کہ اب بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ اس کج فہمی پر غور کریں!بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور؟ رات کو سویا تو اس نے عجیب وغریب خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے، اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہو چکی ہے، لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لے گئے۔ پہلے دروازے پر گئے تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے، وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لیے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے، وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاوٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرضیکہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کو کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا۔ فرشتے اس کو لے کر اس دروازے پر میرے لیے رکاوٹ کون بنے گا۔ اسے معلوم ہو گیا کہ جو نیت اس نے کی تھی، غلط تھی۔ وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف و دہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل چکی تھی اور اس کے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی: ”اے اللہ! مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔“
اس لیے جن لوگوں کا قضا وقدر پرایمان ہے، انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدۂ خاطر ہونے کی بجائے خوش ہونا چاہیے۔ ایمان کی کمزوری کے سبب جن بدعقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں، یہ سراسر غلط ہے۔ اس میں بیویوں کایا خود ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک ذریعہ ہیں، پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ وہی جس کو چاہتا ہے لڑکادیتا ہے، جس کو چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے۔ ایسی صور ت میں ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اللہ کی قضا و قدر پر راضی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ شوریٰ میں ارشاد فرمایا
”آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹادے دیتا ہے، یا پھر لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتاہے، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔“(الشوریٰ:43آیت:50-49)