Buy website traffic cheap

ماں

کیا قاتل صرف ماں ہے ؟

کیا قاتل صرف ماں ہے ؟
اختر سردار چودھری
چند دن قبل کراچی میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آتا تھا ۔جب ایک ماں جس کا نام شکیلہ ،عمر 28سال ،تعلیم بی اے نے اپنی ننھی بیٹی انعم راشد کو جس کی عمرصرف اڑھائی سال تھی سمندر میں ڈبو کر قتل کر دیا تھا۔اور خود بھی سمندر میں کود کر خود کشی کرنا چاہتی تھی ۔موقع پر موجود لوگوں نے اسے خود کشی کرنے سے باز رکھا اور پولیس کو اطلاع دے دی ۔جب تک پولیس موقع پر نہیں پہنچی انہوں نے شکیلہ کو خود کشی سے روکے رکھا ۔شکیلہ اور راشد شاہ کی شادی 2011 ء میں ہوئی تھی ۔انعم کی پیدائش سے قبل دو بچے دوران حمل ضائع ہو چکے تھے ۔قاتل ماں شکیلہ نے یہ سفاک قدم گھریلو لڑائی جھگڑوں سے تنگ آ کر اٹھایا ۔
ان کی گھریلو ناچاقی کی بڑی وجہ ان کے دو بچوں کا ضائع ہونا اور بیٹی انعم کا پیدا ہونا بتایا جارہاہے ۔جس کی وجہ سے گھر میں آئے روز جھگڑا ہوتا تھا۔ خاوند بیوی کو بیٹی پیدا کرنے کے طعنے دیتا تھا ۔علاوہ ازیں ملزمہ نے گھر یلو ناچاقی کی دوسری وجہ خرچہ کم ملنا بتائی ہے ۔راشد شاہ ایک بڑے نجی اسپتال میں ملازم ہے ۔ وہ اپنے ذاتی گھر میں رہائش پذیر تھا ۔تاہم مہنگائی کی وجہ سے بیوی کو محض 100روپے خرچ دیتا تھا۔
ایک ماہ قبل میاں نے اسے بچی سمیت گھر سے نکال دیا تھا ۔وہ اپنے والدین کے گھر گئی تو انہوں نے بھی اسے اپنے پاس رکھنے سے انکار کر دیا ۔جس کے نتیجے میں وہ دربدر ہوگئی اپنی زندگی سے تنگ آکر اس نے بچی سے چھٹکارا پانے کیلئے اسے سمندر کی لہروں کی نذر کردیا۔ اس واقعے میں ملزمہ پر تعزیراتِ پاکستان کے تحت دفعہ نمبر 322 لگائی گئی ہے۔
یہ دفعہ اس صورت میں لگائی جاتی ہیں جب کوئی انجانے میں ایسی مجرمانہ حرکت کرے جس کی وجہ سے کسی کی موت واقع ہوجائے۔بے شک کہ یہ قتل شکیلہ نے کیا ہے ۔اس بچی کی قاتل اس کی ماں ہی ہے ۔لیکن جن حالات و واقعات کے تحت شکیلہ بی بی یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہوئی ان اسباب کی تحقیقات کرنا بہت ضروری ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
کوئی حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ماں نے بیٹی کو قتل کرنے کا ایک سبب یہ بھی بتایا ہے کہ خاوند خرچہ کم دیتا تھا ۔اپنی پھول جیسی بیٹی کو قتل کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔کس دل سے اس نے یہ سفاک قدم اٹھایا ہوگا ۔عورت کو رب کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے تھا ۔اس کے پاس درجنوں راستے تھے۔ ملزمہ بی اے پاس تھی تو وہ ملازمت بھی کر سکتی تھی۔مالی مسئلہ تو حل ہو سکتا تھا ۔اگر خاوند خرچ کم دیتا تھا تو وہ اسی کم میں صبر شکر کرتی یا ملازمت کر لیتی یہ بات تو کسی صورت قابل قبول نہیں کہ خاوند کم خرچ دیتا تھا جس وجہ سے بیٹی کی جان لے لی ۔
اس کے علاوہ وہ کون سے حالات تھے،اسباب تھے جن کے تحت ایک پڑھی لکھی خاتون نے اپنی ہی پھول جیسی بچی کی جان لے لی۔آخر اس نے اپنی بیٹی کو قتل کرنے کا ہی فیصلہ کیوں کیا ۔۔ملزمہ بچی کو اس کے باپ کے گھر چھوڑ کر آ جاتی اور خود کشی کر لیتی ۔
اگر اس کے والد نے بھی اسے اپنے پاس رکھنے سے انکار کر دیا تھا ۔کسی رشتے دار کے گھر پناہ لے لیتی اس نے بچی کو قتل کیوں کیا ۔سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عورت کے ماں باپ نے اسے اپنے گھر رکھنے سے کیوں انکار کر دیا تھا ۔وہ والدین جنہوں نے بیس سال تک اس کی پرورش کی تھی ۔والدین اتنے ظالم کیسے ہو گئے تھے ۔
بیٹی کو قتل کرنے کا ایک سبب اس کا خاوند اس کی بیٹی پیدا کرنے کے طعنے دینا بھی ہے ۔بیٹی یا بیٹا پیدا کرنا کسی بھی عورت یا مرد کے اختیار میں نہیں ہے۔اس بچی کا قاتل اس کا باپ بھی ہے ۔اس نے اپنی بیوی کو طعنے کیوں دے ،ان طعنوں نے اس کی بیٹی کی جان لے لی ،وہ صرف بیٹا ہی کیوں چاہتا تھا ۔کیا وہ جو ایک ہسپتال میں کام کرتا ہے اتنا جاہل تھا کہ اسے یہ علم نہیں تھا کہ بیٹی یا بیٹا پیدا کرنا عورت کے اختیار میں نہیں ہے ۔کیا وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کو پیدا کرنے والی بھی ایک عورت ہے ۔اس نے اپنی بیوی اور بچی کو ایسا گھریلو ماحول کیوں فراہم نہیں کیاجہاں وہ سکون سے زندگی بسر کر سکتی ۔
یہ واقعہ ایک بہت بڑے سماجی مسئلے کی نشان دہی کر رہا ہے ۔بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔اس کی وجہ بے شک کہ ملزمہ پر ہونے والا ذہنی تشدد ہے ۔اس کے علاوہ اس کی وجہ عورت کا مایوس ہونا بھی ہے ۔اس کی وجہ عورت کا ضدی ہونا بھی ہو سکتا ہے ،اور ناشکری ہونا بھی ہے ۔عورت کا نا شکرگزار ہونا ایک بہت بڑا سبب ہے گھریلو ناچاقی کا جس پر ہمارے ہاں سب سے کم توجہ دی جاتی ہے ۔
یہ اس نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں ماں نے اپنے بچے کو قتل کیا ہو۔ اس سے قبل بھی درجنوں مائیں اپنے بچوں کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہیں۔ان سب نے وجہ یہی بتائی کہ شوہر نے انہیں گھر سے نکال دیا تھا۔ یا وہ ذہنی مریضہ تھیں ۔یہ سب عوامل اور اس جیسے درجنوں واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں ہمیں اولاد کی تعلیم کے ساتھ تربیت کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔