Buy website traffic cheap


مظلوم پاکستانی قوم کا اصل مسئلہ؟؟

مظلوم پاکستانی قوم کا اصل مسئلہ؟؟
عمران امین
اس خاکدان ارضی نے عجب قسمت پائی ھے۔ اس لاچار اور کمزور ہستی پر بے شمار قوتوں نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑھے اور پھر کچھ وقت گزرنے کے بعدنئے فاتح کے لیے جگہ خالی کر دی۔یہاں کبھی اہل روم کا ڈنکہ بجا،کبھی اھل یونان کا طوطی بولا، کبھی بنی اسرائیل نے اپنی حماقتوں کا ثبوت دیا توکبھی بنی اسماعیل نے زینت بڑھائی۔کبھی عجمیوں نے محفل سجائی توکبھی مصریوں کے زور بازو کو آزمایا گیا۔کبھی وحشی تاتاریوں کی ہلاکت خیزیوں کو دکھایاگیا۔کبھی عرب جلوہ افروز ھوئے اور دنیا کو نیا دستور دے گئے۔میرے دوستوں!کبھی انگریزوں کا بول بالا ھوا،کبھی نازیوں کاپرچم لہرایا،کبھی روس کے سر پر تاج سجایا گیا اور اب امریکہ کو دنیا کا حکمران ماناگیا۔غرضیکہ اس دنیا کی بساط مسلسل تغیر و انقلاب کا شکار رہی۔اس لگاتار سفر میں جو مخلوق سب سے زیادہ متاثر ھوئی وہ خودد حضرت انسان تھا۔
ھے ہزاروں قافلوں سے آشنا، یہ رھگذر
چشم کوہ نور نے دیکھے ھیں کتنے تاجور
ہم نازاں ھیں اپنے اکابرین ملت پر، جنہوں نے اپنے خون جگر سے اس خاک وطن کے ہر ذرے کی حفاظت کی اور اس قوم کو زندہ و سلامت رکھنے کے لیے سازوسامان مہیا کیا۔یہ مُلک پاکستان ہماری دیرینہ آرزوؤں کی تکمیل کا ذریعہ ھے۔یہ اسلام کے لیے اس تاریک ماحول میں ایک گوہر شب چراغ ھے۔مگر افسوس آج اس ملک میں کیا ھو رھا ھے۔بدقسمتی سے قائد اعظم کی رحلت نے وہ سارے خواب چکنا چور کر دئیے جو برصغیر کے مسلمانوں نے ایک آزاد وطن کے دیکھے تھے۔اظہار رائے کی آزادی،بنیادی انسانی حقوق کی حاکمیت،مذہبی رواداری،بنیادی انسانی ضروریات کی بآسانی فراہمی،انصاف کی فراوانی، مساوات کا اسلامی تصور،اعلیٰ اخلاق حسنہ اور ایسے کئی خواب جن کی تعبیر کے واسطے عوام الناس کی اکثریت نے اپنے محبوب رہنماء قائد اعظم کا ساتھ دیا تھا۔قائد اعظم کی وفات پرمولانا شبیر احمد عثمانی نے کہا”وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے“۔مگر اُس عظیم انسان کے بعداس مُلک کی اشرافیہ نے ان نازک خوابوں کو بے دردی سے کچل دیا۔عوام کے لیے ایک غیر تحریر شدہ نیا دستور اور نیا آئین غیرا علانیہ طور پرنافذ کر دیا گیا۔ایک پاکستان اشرافیہ کا اور دوسراپاکستان عوام کا۔ایک قانون اشرافیہ کے لیے اور دوسرا قانون عوام کے لیے۔
کسی کا حکم ھے کہ دریا کی لہریں
ذرااپنی سرکشی کم کر لیں
اپنی حد پر ٹھہریں
اُبھرنا،پھر بکھرنا اور بکھر کر پھر اُبھرنا
غلط ھے اُن کا یہ ہنگامہ
یہ سب ہے
وحشت کی علامت،بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ھوگی
اگر لہروں کو ھے،دریا میں رہنا
تو ہو گا ان کو چُپ چاپ بہنا
ہماری غلامی کے پلان میں سارے مکاتب فکر کے پراگندہ ذہن شامل تھے۔خصوصی طور پر ہمارے مذہبی اور سیاسی میدان کے سب ٹُنڈے،لنڈے،ماجھے،ساجھے اور لنگڑے لُولے پہلوان اس کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ان لوگوں نے ذہنی غلامی کی سمت چلنے والی قوم میں کوئی بھی ایسی حس نہ رہنے دی جو مستقبل میں ان کے خلاف کوئی موثر آواز بلند کر سکے۔آپ خود فیصلہ کر لیں کہ پچھلے دنوں جو تماشہ اس ملک میں لگایا گیا اور جس طرح سے چند افراد کے معاملے کو سارے پاکستان کا معاملہ بنایا گیا۔پورا PAID MEDIA اور ذہنی غلامی کا شکار، پاکستانی قوم اپنے دکھ درد کیا بھولتی وہ تو اپنی خوشیاں اور سُکھ بھی بھول گئی۔نہ روٹی کی فکر نہ آٹے کی فکر۔بس ایک ہی غم کہ نجانے ہمارے محبوب قائدین کا کیا بنے گا؟؟نجانے ہمارے محبوب سیاسی اور مذہبی رہنماء اگلا قدم کیا اُٹھائیں گے؟؟۔جبکہ دوسری طرف ساہیوال کے گناہگار لوگوں کے قتل میں ملوث معصوم افراد کی رہائی،ماڈل ٹاؤن کے قانون شکن افراد کے خلاف پولیس کے جہادی ایکشن پر عوام کی طرف سے مسلسل NO COMMENTS کا ردعمل کس بات کی نشاندہی کرتاھے؟۔کیاہم ایک قوم ھیں؟؟۔ بلدیہ فیکٹری میں گندے اور بیکار لوگوں کو زندہ جلایا جانا بھی عوامی مسئلہ نہیں،سندہ میں کتے کاٹنے کی ویکسین کی عدم دستیابی بھی عوامی مسئلہ نہیں،ڈینگی کے عفریت کا تیزی سے پھیلنا بھی عوامی مسئلہ نہیں،مہنگائی کے جن کا کنٹرول سے باہر ھونا بھی عوامی مسئلہ نہیں،لاڑکانہ میں سو ارب سے زائد رقم ترقیاتی کاموں کی مد میں خرچ ھوئی مگر اُس کی حالت موہنجوڈارو سے کم نہ ھونا بھی عوامی مسئلہ نہیں،تھوک کے حساب سے ٹی ٹی ایز پکڑی گئی اور مزے کی بات کہ بھیجنے والے بھوکے ننگے لوگ،یہ بھی عوامی مسئلہ نہیں۔کشمیر پرعالمی برادری کا بھارت پر بڑھتاھوا پریشر،پاکستان کا مسئلہ نہیں، کرتار پور بارڈر کے سلسلے میں دنیا کو پاکستان کا خیر سگالی والا بہترین پیغام،پاکستان کا مسئلہ نہیں، سعودی ایران تعلقات کا بہتری کی جانب سفر،پاکستان کامسئلہ نہیں،ایل او سی پر مسلسل بھارتی جارحیت،پاکستان کامسئلہ نہیں،معیشت کی بحالی کے لیے حکومتی مثبت اقدامات پرعالمی اداروں کا اظہاراطمینان، پاکستان کامسئلہ نہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا تھا مگر مُلکی سیاسی حالات کی وجہ سے دورہ سعودی عرب کا ملتوی ھونا،پاکستان کا مسئلہ نہیں۔بھارتی وزیر اعظم مودی کو پاکستانی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت نہ دینے کا دلیرانہ فیصلہ،پاکستان کا مسئلہ نہیں۔یہ ھے وہ طرز عمل جو کسی بھی زندہ قوم کے کردار کا خاصہ نہیں ھوتا۔عوامی اور ملکی مسائل کو پس پُشت ڈال کر افراد کے ذاتی مسائل پر سینہ کوبی کرنا،جاہل قوموں کا وطیرہ رہا ھے۔دراصل معذور اور اپاہج پاکستانی قوم کا اصل مسئلہ صرف اپنے سیاسی اور مذہبی آقاؤں کی رضا اور آشیر باد حاصل کرتے ھوئے اُن کے حقوق کا تحفظ اور اُن کی ”آل بچاؤ،مال بچاؤ اور کھال بچاؤ“ مہم کو کامیاب بنانا ھے۔پچھلے ایک ماہ سے ہمارے میڈیا اور عوام کے مسئلے صرف چند لوگوں سے متعلق رہے ھیں۔یہ وہ چندلوگ ھیں جن کا پاکستان سے صرف اتنا تعلق ھے جتنا انگریزوں کا برصغیر سے تھا۔وہ یہاں حکمرانی کرنے اور اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے آئے تھے اور بس۔ماضی میں بے وقوف پاکستانی عوام کااپنے محبوب سیاسی لیڈروں سے ایک ہی مطالبہ رہا ھے کہ وہ ہمیشہ اپنے ملک سے وفاداری کا ثبوت دیں گے۔اگرچہ سیاسی قیادت کی طرف سے جواب میں یقین دھانیاں ہی ھوتیں رھیں مگر حقیقت اس سے بالکل اُلٹ رہی۔جو بھی آیا اسکابس ایک ھی نعرہ تھا”ھل من مزید“۔”مجھے مزید کھلاؤ“۔بد قسمتی کی بات یہ ھے کہ یہ سادہ لوح قوم اپنی ذہنی غلامی کی وجہ سے ہمیشہ اس اشرافیہ کے چنگل میں پھنستی رھی اور اب یہ حالت ھے کہ”گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا“۔خدا خدا کر کے عوام نے تبدیلی سرکار کو اس بار موقع دیا تو پرائے تو پرائے،اپنے بھی سازشوں کا جال بننے لگے۔احتساب کا کڑا امتحان شروع ھوا۔ جس جس نے اس وطن عزیز کے عوام کی امانت کو ”مال مفت،دل بے رحم“ کی طرح لوٹا۔ وہ اپنے بچاؤ کا بندوبست کر نے لگا۔چاھے وہ حکمران جماعت سے ھو یا اپوزیشن سے۔متاثرین احتساب نے عمدگی سے ڈالر کی اُڑان اور پٹرول کی دھاڑ کی وجہ سے مہنگائی کا ایک طوفان برپا کر دیا اور عوام الناس اس سے سخت پریشان ھوئے۔عوام وقتی مشکل کو برداشت کرنے کو تیار ھیں اگر آنے والا کل ا ٓسان ھو۔اس بات میں سچائی ھے کہ قوموں کو اپنی حالت بدلنے کے لیے خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ھے۔مالی اور جانی قربانیاں دینی پڑتی ھیں راہ حق میں آنے والی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا جاتاھے اور ہر قسم کے آرام و آسائش کو چھوڑ کر زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کیا جاتا ھے۔کامیاب قوموں کی زندگی کا راستہ گُلزاروں سے نہیں گزرتا بلکہ خارزاروں سے ھو کر گزرتا ھے۔
گُلوں کو ہر کوئی زیب گلُو ھے کر لیتا
مزا تو جب ھے کہ کانٹوں کو ہمکنار کریں