Buy website traffic cheap


عیدوں پر کرایوں میں اضافہ!

عیدوں پر کرایوں میں اضافہ!
تحریر:علی جان
ہماری بدقستی ہے کہ جتنے بھی پیٹرول پمپ ہیں زمینداروں اور جاگیرداروں نے لگائے ہوئے ہیں اور حکام سے مل کرعوام کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں پاکستان میں آئل مارکیٹنگ کی کل اکیس کمپنیاں ہیں۔ پاکستان میں آئل باون روپے تیس پیسے فی لیٹرپڑتا ہے مگرہمارے حکمرانوں نے ٹیکس لگالگا کرسنچری کروادی ہے اورپھر بھی سنوائی ہے کہ پیٹرول مہنگا ہوگاسوال یہ ہے کہ ٹرانسپورٹیشن ٹیکس کراچی والوں پر کیوں لگتا ہے حالانکہ ساری خام مال اسی شہرمیں آتا ہے۔اگرڈیلراور حکمران مہنگائی کا کھیل کھیل رہے ہیں تو اس میں اوگراکا بھی ہاتھ ہے کیونکہ ہرماہ آئل کمپنیوں کی میٹنگ ہوتی ہے جس میں وہ سفارشات بنوا کے اوگراکو بھیجتے ہیں اور اوگرانئی قیمتیں طے کرتا ہے اور نئی وزارت کو منظوری کیلئے بھیجتی ہے اس لیے اگراوگراسے کچھ پوچھا جائے تو ان کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ حکومتی پالیسی ہے اس کے آخر میں پھرایف بی آر ٹیکس لگاتا ہے اس ٹیکس کے کھیل میں سب چوراورلٹیرے ہیں حکومت کے وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اپنے پانچ سال پورے کرکے بھاگ جاتے ہیں عوام بارہا احتجاج کرتی ہے سڑکوں پر نکلتی ہے مگران پرلاٹھی چارج کرکے ان کی زبان خاموش کردی جاتی ہے یا پھر امن وامان میں بگاڑپیداکرنے کا کہہ کے احتجاج ختم کروا دیا جاتا ہے حالانکہ انکی پچھلی جیب میں انکو اپنا حصہ مل جاتا ہے جس وجہ سے ان کے کان پے جوں تک نہیں رینگتی جس کی وجہ سے عیدین پرسفرکرنے والوں کوریلیف کے بجائے دوگنا کرایااداکرنا پڑتا ہے اورشہرمیں بسنے والے اپنے والدین کے ساتھ عیدکی خوشیاں منانے کیلئے جاتے ہیں۔لاہورمیں میرے بڑے بھائی ملنے آئے جوکچھ دن ٹھہرکے واپس گاؤں جانے لگے میں انکوبس میں بٹھانے گیا تومیں نے جا کے ٹکٹ لینے کیلئے گیا بھائی نے بتایا کہ میں 750بھرکے لاہورآیا ہوں اسی روٹ کی ہی ٹکٹ لینی تھی توپتہ چلا کہ جوٹکٹ ہفتہ پہلے 750کی تھی اب وہی 1200روپے کی ہوگئی ہے میں نے ٹکٹ والے بھائی سے ہفتہ پہلے کی ٹکٹ دکھائی اورمودبانہ لہجے میں سوال کیا کہ بھائی صاحب ہفتہ پہلے 750دے کے آئے ہیں توانہوں نے بڑے غصے سے جواب دیا کہ عیدتک روز کرایابڑھے گاہفتے بعددیکھنا یہی کرایہ3000ہوگاباقی آپکی مرضی ٹکٹ لویانہیں تومیں نے وجہ پوچھی توانہوں نے کہا پیٹرول اورڈیزل کی قیمتوں کودیکھا ہے آسمان کوچھورہی ہیں تومیں نے عرض کی کہ بھائی صاحب جب پیٹرول کم ہوتا ہے تب بھی آپ لوگ کرایہ کم کرتے ہیں توانہوں نے ہنستے ہوئے کہا پاکستان میں کسی سے کوئی نہیں پوچھنے والا آج تک کسی نے آکریہ نہیں کہا کہ پیٹرول کا ریٹ کم ہوگیا ہے کرایہ بھی کم کردو اسی لیے کمپنی بھی آئے روز کرایہ بڑھادیتی ہے عید میں چندروز رہ گئے ہیں اسی لیے سوچااپنے آرٹیکل کوبھی اس مافیہ کے خلاف کچھ معلومات اکھٹی کرلوں میں دوسرے ٹکٹ گھرپرگیاتوکیادیکھتاہوں کہ پورا لاہور ٹکٹ کرانے آیا ہوا ہے تو میں نے ٹکٹ چیکرسے کراچی کی ٹکٹ پوچھی اس نے ایسے جواب دیا جیسے میں اس سے ٹکٹ مفت لینے آیا ہوں کہتا ہے 3000میں نے کہا کیا لاہور سے کراچی تین ہزار کہتا ہے جب اتنے پیسے جیب میں نہیں تو آکیوں جاتے ہو تو میں نے کہا میں نے ویسے مظفرگڑھ جانا ہے تو کہتا ہے 1000روپے لگیں گے اگرملتان جاؤ گے تو 800اگرکشمورجاؤ گے تو2000اور نہیں جانا تو جاؤ اور بھی لوگ ٹکٹ کیلئے کھڑے ہیں میں لائن سے ہٹ گیا مگرسوچتارہا کہ ان دنوں آدمی ائیرپلین کی ٹکٹ لے تو وہ بہتررہتی ہے مگرجب یاد آتا ہے کہ میں کوئی سیاستدان توہوں نہیں کہ کرپشن کرکے پیسے اتنے بنالوں کہ مجھے ائیرپلین کی ٹکٹ مل جائے ہمارے حکمرانوں کے بس میں آئے تو ہمیں جہاز دیکھنے کا بھی ٹیکس لگا دیں۔ہرحکومت بجٹ پیش کرنے سے پہلے ہرچیز کے ریٹ کم کردیتے ہیں بعدمیں 100گناوصول کرنے کے بعد بھی من نہیں بھرتاپیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہویاکمی اس مافیہ نے کرائے میں کمی نہیں کرنی چاہیے کسی کے پاس گھرواپسی کے پیسے ہوں یا ہوں کئی لوگ کرائے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے پیاروں کے ساتھ عیدبھی نہیں مناسکتے اور اگرغلطی سے آدمی ٹکٹ لے کربیٹھ جائے تو ایسے سواریاں بٹھاتے ہیں جیسے انسان نہیں جانوربٹھارہے ہوں سیٹ ملنا تو دور کی بات پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی ان سے اگرکوئی پوچھنے والا ہو تو پوچھے بھئی ایک تو کرایہ اتنا زیادہ لیا اوپرسے اضافی سواریاں کس لیے اگرکوئی غلطی سے پوچھ بھی لے تو کہتے ہیں راستے میں ہی اترجاؤ آپکو کرایہ دے دیتے ہیں ورنہ چپ کرکے بیٹھے رہو اب رات کے 12بجے کے بعد کسے پاگل کتا کاٹے گا کہ وہ کرایہ واپس لے کے گاڑی سے اترجائے راستے میں اسکے علاوہ بس کے اوپر بھی کئی سواریاں بیٹھادیتے ہیں جو سنگین حادثہ کا سبب بنتے ہیں اورراستے میں جتنے بھی چیک پوسٹ آتے ہیں وہاں پریہ ڈرائیورحضرات رشوت دے کرآگے نکل جاتے ہیں اگریہ کہا جائے کہ ان کے ساتھ ہر چکرکی قیمت مختص ہوتی ہے تو غلط نہ ہوگا جب تک ان کے خلاف عوام نہیں بولے گی یہ باز نہیں آئی گے مگرعوام کو اپنی پریشانیوں سے فرصت ملے تو وہ بھی اس جانب نظرثانی کریں جب کوئی کنڈیکٹریاڈرائیورکسی ایک سواری کے ساتھ بدتمیزی کرے توپوری بس کھڑی ہوجائے اوربس رکواکرسب اترآئی تواس مافیہ کی عقل ٹھکانے آجائے مگرنہیں ہم کہتے ہیں اگرکنڈیکٹربے عزتی کررہا ہے تواس کی کررہا ہے ہمیں کیا ہم نے توچپ کرکے اپنا سفرکرنا ہے ۱۔ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ ڈیزل اور پیٹرول کی گاڑیوں کے کرایوں کیتعین کی واضع پالیس بناکے ان پرعملدآمدکرے ۲۔حکومت کو عوام کے ساتھ مساوی سلوک برتنے کیلے اس بات کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ اگرپیٹرول ڈیزل کی قیمت کم ہوتی ہے تو عوام کو کرائے میں بھی ریلیف دینا حق ہے۳۔مجازاتھارٹی مجوزہ اضافے سے پہلے عوامی تجاویزواعتراضات کیلئے اسے مشتہرکرے اور عوامی نمائندوں کے ساتھ مشاورت کرکے اسے نافذکرے کیونکہ آج کل ٹرانسپورٹ اتھارٹی اور ٹرانسپورٹ مالکان کی ملی بھگت سے وہ اپنے بنک بیلنس تو بھرلیتے ہیں مگرعوام کا خون نچوڑ نچوڑ کر۔4پبلک ٹرانسپورٹ کے روٹ مکمل کیے جائیں تاکہ سواریوں کو دقت نہ ہو5.مشہورسٹاپ پر شکایت سیل قائم کیے جائیں اور ان پرفوری حل کو یقینی بنایا جائے 6. ٹریفک پولیس اور پنجاب پولیس کی وردی کے ساتھ ان کے رویے میں بھی تبدیلی ضروری ہے تاکہ عوام کے دل میں ان کے لیے ڈر نہیں عزت ہونی چاہیے۔امیدکرتے ہیں نئے پاکستان کے دعویدار اور عوام کش حکمران اس طرف توجہ ضرور فرمائیں گے شہروں میں میٹرو بسیں خالی گھومتی ہیں جن کے روٹس پرنظرثانی کرنی ہوگی تاکہ عوام کوبہترسفری سہولیات مل سکیں اورپبلک ٹرانسپورٹ جس میں عام عوام سفرکرتی ہے اورلمبے سفرکرتے ہیں اور زیادہ کرایہ اداکرتے ہیں وہ بھیڑبکریوں کی طرح سفرکرتے ہیں اس پربھی پتہ نہیں کب حکومت اپنی نگاہ کرے گی اورجولوگ چھتوں پرسواریاں بٹھاتے ہیں ان کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی ضرورت ہے اورجن چیک پوسٹ پریہ لوگ رشوت دے کے کراسنگ کرتے ہیں ان کے خلاف بھی کاروائی کرنے کی اشدضرورت ہے ورنہ ہمیشہ حادثات ہوتے رہیں گے