Buy website traffic cheap

جھمرمیل

ساڈے میل ملاونڑآلاآگے جھمرمیل دامیلہ

ساڈے میل ملاونڑآلاآگے جھمرمیل دامیلہ
تحریر:علی جان
کوئی بھی قوم ہواپنی ثقافت سے محبت کرتی ہے دنیا میں کئی تہذیبوں نے جنم لیاجن میں ہرعلاقے کے جغرافیائی اعتبارسے زبان رسم ورواج پہناوے مختلف ہوتے ہیں اوران کونمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں اسی وجہ سے سرائیکی قوم بھی ہرسال 6مارچ کو سرائیکی اجرک ڈے اور16اپریل کوسرائیکی ثقافتی ڈینہہ کے حوالے سے یہ دن CELEBRATEکرتے ہیں اورصرف خوشی کا اظہارنہیں کرتے بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے ان لوگوں کی عید ہے پاکستان کے علاوہ اب یہ تہوار پوری دنیا میں جہاں پرسرائیکی بولنے اورسمجھنے والے رہتے ہیں وہاں پریہ دن منائے جاتے ہیں ۔
ہویا ہا تقدیردامیلہ رانجھڑدے نال ہیردامیلہ
ساڈے میل ملاونڑآلاآگے جھمرمیل دامیلہ
مجھے یاد پڑتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماملک الطاف کھوکھرنے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹوملتان آئے توبہاولدین ذکریاملتانی کے دربارپرحاضری کیلئے گئے دربارکو بوسہ دیا اوردیواروں پرہاتھ لگاکرکہا الطاف یہ دیکھویہ نیلی ٹائلیں دیکھو یہ رنگ ابدیت کی علامت ہیں جن سے مجھے محسوس ہوتا ہے ملتان کبھی ختم نہ ہوگااگرمیں کہوں ذولفقارعلی بھٹونے صحیح کہا تھا توغلط نہ ہوگا کیونکہ پوری کائنات کا رنگ بھی تونیلا ہے۔سرائیکی اجرک کا رنگ بھی نیلا ہے جو آسمان اورسمندروں کارنگ ہے اوراوپرسفیددھاریاں اورنقش ہیں جوزمین کارنگ ہے اس لیے توسرائیکی اجرک امن کی علامت اورخوشحالی کا پیغام ہے ۔آپ ﷺ کو فرمان عالی شان ہے کہ ایک دوسرے کو تحفے دیا کروتحفے سے دشمنی(کینہ )ختم ہوتی ہے۔نبی پاک کے اسی فرمان کو مدنظررکھتے ہوئے سرائیکی وسیب کے لوگ سرائیکی اجرکیں تحفے میں دیتے ہیں سرائیکی اجرک کارنگ امن،سلامتی، بھائی چارے،تحمل،بردباری اورایک دوسرے کو برداشت کرنے کا درس دیتا ہے۔کچھ لوگ لکھتے ہیں پاکستان میں 7کروڑ لوگ سرائیکی بولنے والے ہیں توکچھ 8کروڑ لکھتے ہیں مگرمیں یہ بتاناچاہوں گاپاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں سرائیکی رہتے ہیں جیسے بھارت کے راجستھان میں سرائیکی بولنے اورسرائیکی لباس والے لوگ موجود ہیں مگرپاکستان میں سرائیکی اجرک پہنے لوگوں کی اپنی خاص ہی پہچان ہے ۔ایس ڈی پی کے چیئرمین رانا فرازنون نے بتایا کہ سرائیکی اجرک کا نام کیسے بنا:جب محمدبن قاسم نے عربی فوجیوں کے ساتھ ملتان سلطنت کو فتح کیا تو عربی فوجیوں نے مزاروں پرلگی اینٹوں کو دیکھ کے عربی میں کہنے لگے ’’ازرق ازرق ‘‘اس سے مراد نیلا ہے کیونکہ ملتانی اینٹوں پر نیلے رنگ سے کاشی گری کی جاتی تھی توازرق کو مقامی لب ولہجے سے اجرک میں تبدیل کردیا گیا۔سرائیکی تحریک صدیوں سے موجودتھی مگرسیاسی انداز میں میاں ریاض کے دور سے اب تک اپنی سات دہائیاں گزار چکی ہے اور باقاعدہ سرائیکی تحریک جس کے بانیوں میں بریسٹرتاج لنگاہ،سیٹھ عبدالرحمان،قاری نورالحق قریشی،سیدزمان جعفری،اسلم رسولپوری،ملک منظوربوہڑ،صوفی تاج گوپانگ،عاشق بزدار،عاشق ظفربھٹی،ملک عبداللہ عرفان اور ان جیسے متعدد رہنماؤں نے اس تحریک کو جلا بخشی جبکہ اس کے بعد حمیداصغرشاہین،مجاہدجتوئی،استاد فداحسین گاڈی،جیسے لوگ شامل تھے۔مگر اب جو نئی قیادت آئی ہے ان میں رانا فرازنون،ظہوردھریجہ،اللہ نواز وینس،کرنل جبارعباسی،خواجہ غلام فرید،شاہنوازمشوری ودیگرلوگ سرگرم ہیں ایس ڈی پی تحصیل جتوئی کے زیراہتمام سرائیکی اجرک ڈے کے دن مہمانوں کو سرائیکی اجرک پہنائی گئی اس تحفہ میں خاص محبت شامل تھی جس کی وجہ سے اپنی ثقافت سے محبت کرنے والے لوگوں نے سرائیکی اجرک اوڑھی توماحول میں جیسے رنگوں کی بہارآگئی سب کے چہرے کھل کھلااٹھے اس وقت اپنے پرائی کاپتہ ہی نہیں چل رہا تھا سب نیلے رنگ میں رنگے تھیمحبت بھی کیسے نہ کرتے سب ایک ہی ماں سے پیداہوئے ہیں جیسے سرائیکی دھرتی ماں کہا جاتا ہے ۔مجھے لگتا ہے اس تحفے سے سرائیکیوں میں تحریک کا جذبہ مزید بڑھا اسی طرح جھمرڈے کے حوالے سے عبدلغفارچاچڑنے اپنی فیسبک پر جھمرڈے منانے کی پوسٹ لگائی توچاہنے والوں نے تحفے میں اجرک کی فرمائش کی جس پرحاجی عبدالغفارنے مہمانوں کو اجرکیں پہنا کر تقریب میں رنگ بھرنے کا کہا اسی وجہ سے سرائیکی تحریک تحصیل جتوئی میں سیاسی لوگوں کیلئے ایک طاقت نظرآرہی ہے تحریک کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھی کوئی کنونشن ہو تو جوک درجوک لوگ شرکت کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ سرائیکی تحریک لوگوں کے دلوں میں پیوست ہورہی ۔ ویسے توسرائیکی زبان پورے پاکستان میں بولی اورسمجھی جاتی ہے اس کے علاوہ سرائیکی زبان بولنے والے کئی لاکھ لوگ پاکستان سے باہرموجود ہیں مگرجن علاقوں میں سرائیکی زیادہ بولی اورسمجھی جاتی ہے ان میں بلوچستان صوبہ کے اضلاع:موسیٰ خیل،نصیرآباد،جعفرآباد،صحبت پور، جھل مگسی،ضلع لہڑی،ضلع بولان۔صوبہسندھ کے اضلاع:کشمور،جیکب آباد،شکارپورلاڑکانہ،قمبرشہدادکوٹ،گھوٹکی ،سکھر،خیرپور،نوشہرو،بے نظیرآباد،دادو۔پنجاب کے اضلاع:ڈیرہ غازی خان،بہاولپور،ملتان،بہاولنگر،راجن پور،رحیم یارخان ،مظفرگڑھ، میانوالی، خوشاب، سرگودھا،وہاڑی ،پاکپتن،ساہیوال،خانیوال،ٹوبہ ٹیک سنگ،لودھراں،لودھراں چنیوٹ یہاں تک کہ لاہورمیں بھی سرائیکی سمجھنے کے ساتھ ساتھ بولنے والے بھی لاکھوں کی تعدادمیں موجود ہیں ۔ قرآن پاک کا سرائیکی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے جسے:ڈاکٹرمہرعبدالحق سومرو،پروفیسردلشادکلانچوی،پروفیسرصدیق شاکر،ڈاکٹرطاہرخاکوانی،ریاض شاہد،عبدالتواب ملتانی،حفیظ الرحمان شامل ہیں ۔ سرائیکی میں ڈیڑھ ہزارسال پہلے کی شاعری موجود ہے جن میں سچل سرمست،خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن سرکار،بیدل سندھی،لطف علی،حمل لغاری،غلام رسول ڈڈا،ممتازحیدرڈہر۔نوجوان نسل کے شاعروں میں جن کا شمارہوتا ہے وہ احمدخان طارق،شاکرشجاع آبادی،شاکرمہروی ،سیف اللہ خان سیفل،دلنورنورپوری،اصغرگرمانی،رفعت عباس،امان اللہ ارشد،سفیرلاشاری،جمشیداقبال ناشاد،مخمورقلندری،بشیرغمخار،بیدارفریدی، سچدل علی پوری،اسماعیل عاطر،سائرخان جنپوری،عاشق صدقانی وغیرہ ہیں۔جوتہذیبیں زمین سے جڑی ہیں وہی زندہ رہتی ہیں وہی تہذیبیں اورثقافتیں امن سلامتی اورخوشحالی کی پیمبرہیں سرائیکی کلچرڈے منانے کا مقصدصرف یہی ہے کہ زمین پرخوشحالی چاہتے ہیں ہم اپنی آنے والی نسلوں کوآبادوشاددیکھناچاہتے ہیں ہمارایہی پیغام ہے اوریہی سرائیکی کلچرڈے کا میثاق بھی ہے۔مجھے یاد آتا ہے عطااللہ عیسیٰ خیلوی کا ایک گانے کے بول ہیں’’دنیا کی جانے ساکوں کئیں کئیں لٹیااے‘‘اس گانے کو اگرسیاسی انداز میں لے جائیں تو غلط نہ ہوگا کہ ہمیں پہلے پیپلزپارٹی اورن لیگ سرائیکی صوبہ کا لولی پاپ دیتی رہی ہے اس بار پاکستان تحریک انصاف نے یہ لولی پاپ دیا جن میں کوئی فرق نہیں ان لوگوں کو صرف اپنی کرسی سے پیارہے مگراب سرائیکی قوم بیدارہوچکی ہے سوشل میڈیا پر لوگ اپنے قائدین سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ 100دن کے بعد حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کریں گے مگراب تودوسری سینچری بھی لگنے والی ہے مگرسرائیکی حکمران شاید پی ٹی آئی کو مزیدوقت دینا چاہتے ہیں ۔