Buy website traffic cheap

علی رضا رانا

عالمی جنگ کا خدشہ، پاکستان کا دوٹوک جواب

عالمی جنگ کا خدشہ، پاکستان کا دوٹوک جواب
علی رضا رانا

اس وقت پوری دنیا کی توجہ عراق پر مرکوز ہے اور سب یہ جاننے کیلئے بے چین یہں کہ جس ملک کی سرزمین پر یہ حملہ ہوا ہے انکا ردعمل کیا ہوگا اور ایران کیا سوچ رہا ہے۔ ادھر ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی میت ایران کے شہر اہواز پہنچادی گئی ہے اور تدفین میں ہزاروں لوگوں کی شرکت ہوئی ہے۔قاسم سلیمانی کا تعلق ایرانی صوبے کرمان کے ایک پہاڑی گاؤں سے تھا۔ جہاں وہ 1953 میں پیدا ہوئے، 13 برس کی عمر میں انہیں خاندان کے معاشی حالت خراب ہونے کے باعث اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ کرمان کے مرکزی شہر میں مزدوری کرنے لگے۔ جبکہ 1978 میں انقلاب ایران کی شروعات کے وقت وہ علاقائی فراہمی آب کے محکمے میں ٹیکنیشن بن چکے تھے۔سلیمانی نے اپریل 1979 میں پاسداران انقلاب بننے کے بعد اس میں شمولیت اختیار کی۔سلیمانی کی ساکھ ایک ایسے افسر جیسی تھی جو اپنے سپاہیوں کا خیال رکھتا تھا۔ سلیمانی اپنے سپاہیوں میں ”دی گوٹ تھیف“ یعنی بکری چور مشہور تھے۔ انکا یہ نام اس لئے پڑا کیونکہ وہ جنگ کے دوران اپنے سپاہیوں کیلئے بکریاں لے آتے اور انہیں کھلاتے تھے۔غریب گھرانے سے قدس فورس کی کمان تک 62 سالہ قاسم سلیمانی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک غرب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے واجبی سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی لیکن پاسداران انقلاب میں شمولیت کے بعد وہ تیزی سے اہمیت اختیار کرتے گئے۔1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ میں قاسم سلیمانی نے اپنا نام بنایا اور جلد ہی وہ ترقی کرتے کرتے سینئرکمانڈر بن گئے۔ 1998 میں قدس فورس کے کمانڈر بننے کے بعد سلیمانی نے بیرونِ ملک خفیہ کارروائیوں کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے اثر میں اضافہ کرنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے اتحادی گروہوں کو ہرممکن مدد فراہم کی اور ایران سے وفادار ملیشیاؤں کا ایک نیٹ ورک تیار کرلیا۔ کہاجاتا ہے کہ اپنے کیریئر کے دوران قاسم سلیمانی نے عراق میں شیعہ اور کرد گروہوں کی سابق آمر صدام حسین کے خلاف مزاحمت میں مدد کی جبکہ وہ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطینی علاقوں میں حماس کے بھی مددگار رہے۔ جنر ل سلیمانی نے 2000کی دہائی میں عراق پر امریکی حملے کے بعد شیعہ جنگجوؤں کے گروہ بنائے جنہوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ میں بھرپور حصہ لیا۔ 2006 میں انہوں نے حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف جنگ میں تزویراتی معاونت کی۔ 2008 میں انہوں نے سینئر امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو ایک پیغام بھیجا جس میں انہیں بتایا کہ وہ ایران کی عراق، شام، لبنان، غزہ اور افغانستان کی پالیسیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔داعش کے خلاف جنگ میں 2010 کی دہائی میں سلیمانی کا بہت بڑا کردار تھا۔ انہوں نے عراق میں موجود مقدس مقامات کی حفاظت کیلئے متعدد جنگجو گروہ تشکیل دیئے جن میں سے ایک زینبیون بریگیڈ بھی ہے جس میں پاکستانی شیعہ نوجوان بھی شامل تھے۔امریکی فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن کے سابق اسپیشل ایجنٹ علی سوفان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ موجودہ ایران کو پوری طرح اس وقت تک نہیں سمجھا جاسکتا جب تک جنرل سلیمانی کو نہ سمجھ لیا جائے۔جنرل سلیمانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کی شام، لبنان، عراق اور یمن میں موجودہ جنگی پالیسیوں اور حکمت عملی کے موجد تھے۔ سلیمانی کی موجودگی میں ایران نے سرکاری اور غیرسرکاری مسلح گروہوں کا استعمال کرتے ہوئے ناصرف اپنے اتحادیوں کو مزیدطاقتور بنایا بلکہ ایران کو بھی مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی طاقت میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علی صوفان لکھتے ہیں کہ بشارالاسد کی شام میں حکومت بچانے کا سہرا بھی جنرل سلیمانی کے سر جاتا ہے۔ موجودہ دور میں ایران کا شام سے اتحاد اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ اگر جنرل سلیمانی چاہیں تو تہران سے لبنان اور اسرائیل کی سرحد تک بلا روک ٹوک آزای سے سفر کرسکتے ہیں۔ امریکی میگزین دی نیویارکر کے مطابق شام میں بشارالاسد کے دشمنوں کے خلاف جنرل سلیمانی خود دمشق میں رہ کر جنگ کی نگرانی کرتے تھے۔ ایران کی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی جمعہ کے روز امریکی فوج کے عراق میں کئے گئے ایک میزائل حملے میں مارے گئے۔ ان کے ساتھ عراقی فوج کے گروپ ہشید ال شاہی کے ڈپٹی ہیڈ ابومہدی المہندس بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ دوسری طرف امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نے امریکی صدر سے ایرانی جنرل پر حملے کی تفصیلات فوری طور پر طلب کرلی ہیں۔ نینسی پلوسی نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ آئندہ کی پالیسی سے متعلق بھی ایوان نمائندگان کو فوری آگاہ کرے۔ایران نے فوری طور پراس حملے کی مذمت کی اور بعدازاں اس اقدام کا ”کڑا بدلہ“لینے کا عزم کیا۔ ملک بھر میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور امریکی اور اسرائیلی پرچم نذر آتش کئے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ ڈرون حملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر کیا تاکہ ایک ایسے شخص سے بیرون ملک موجود امریکیوں کا تحفظ کیا جاسکے جسے وہ ایک طویل عرصے سے خطرہ قرار دیتے ہیں۔یہ اچانک اقدام امریکہ اور ایران کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد اٹھایا گیا۔ گذشتہ ماہ ایران کی حمایت یفاتہ ملیشیا نے امریکی کنٹریکٹر کو عراق مں قتل کردیا جس کے بعد مغربی عراق اور مشرقی شام میں۔۔۔۔ حزب اللہ ملیشیا کے خلاف امریکی فضائی حملے کئے گئے۔ سا ک بعد بغداد میں امریکی سفارتخانے کے باہر پرتشد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ امریکہ نے اس کا الزام ایران پر عائد کیا۔قاسم سلیانی ایران کی قدس فوج کے قائد تھے۔ وہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامن ای کیکافی قریب تھے۔ انہیں ایران میں دوسرا طاقتور ترین فرد تصور کیا جاتا تھا۔دوسری جانب عراقی شیعہ رہنما اور مہدی ملیشیا کے سربراہ مقتدیٰ الصدر نے کہا ہے کہ قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانا جہاد کو نشانہ بنانے کے مترادف ہے لیکن یہ ہمار یعزم کو کمزور نہیں کرے گا۔انہوں نے اپنے پیروکاروں کو عراق کی حفاظت کرنے کیلئے تیار رہنے کی ہدایت بھی کی۔تاہم مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک جیسے کہ قطر، سعودی عرب اور مصر کی جانب سے بھی ابھی تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔لبنانی گروہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دلانا دنیا بھر میں پھیلے تمام جنگجوؤں کا فرض ہے۔تاہم شام کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل میں اس حملے کو بزدلانہ کارروائی قرار دیا گیا ہے۔اس واقعے کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر عالمی رہنماؤں نے دیگر ممالک سے پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے۔ ابتدائی طور پر عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مبصرین مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافے اور ایران اور امریکہ کے درمیان ممکنہ جنگ کے بارے میں تبصرے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر اس وقت یہی موضوع زیربحث ہے اور اسی خبر سے جڑے ہیں۔ سا حملے کے اب تک کئی نتائج سامنے آئے ہیں۔ جنرل سلیمانی کی ہلاکت کی خبر آنے کے چند گھنٹوں بعد ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں چار فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ عموماً مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ برطانوی ماہر معاشیات جیس ٹووے کے مطابق ہر چیز کا انحسار ایران کے ردعمل پر ہوگا۔ ہمیں خدشات ہیں کہ اس پیش رفت سے خطے میں تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔امریکی کے 35 مقامات نشانے پرہیں، ایران کی دھمکی۔ ایرانی کمانڈر کے اس بیان کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے بادل مزید گہرے ہوگئے ہیں۔ ایرانی کمانڈر کی دھمکی پر ردعمل دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر بڑے، تیز ترین اور تباہ کن حملوں کی دھمکی دیدی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے امریکی اہلکاروں یا اثاثوں پر حملہ کیا تو اس کی 52 تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق ایران کے شہر قم میں مسجد کے گنبد پر سرخ جھنڈا لہرادیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ایران جنگ کیلئے تیار ہے۔ عوام بھی تیار رہیں۔ ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ تاریخی مسجد جمکران کے گبد پر سرخ علم ہرایا جانا ایران کی جانب سے انتباہ ہے، ملکی تاریخ میں ایساپہلی بار کیا گیا ہے جو آنے والے دنوں میں کسی انتہائی شدید جنگ کی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔اس اقدام کا مقصد جنرل قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرنا بھی ہے۔امریکا ایران صورتحال پر پاکستانی فوج اور حکومت کا واضح موقف ہے کہ ہم کسی کی جنگ میں نہیں پڑیں گے، ہم اپنی سرزمین کسی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور نہ کسی کی لڑائی میں حصہ بنیں گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر ایران امریکہ جنگ ہوئی تو دیگر مسلم ممالک سمیت عالمی جنگ میں تبدیل نہ ہوجائے کیونکہ اس وقت جو صورتحال ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔