Buy website traffic cheap


فیصلہ کْن آپریشن کی ضرورت

فیصلہ کْن آپریشن کی ضرورت
امجد طفیل بھٹی
دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے پاکستان کے دفاعی اداروں کو ایک بار پھر سے چوکنا کر دیا ہے، پہلے لاہور میں پھر گوادر میں حملوں نے ہمارے دشمنوں کو پھر سے سانس لینے کا موقع فراہم کر دیا ہے جو کہ پچھلے کچھ مہینوں سے اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ ہمارے اداروں کو سب معلوم ہے کہ کون کہاں سے وار کر رہا ہے، دشمن کبھی منظور پشتین کے ذریعے ریاست پر حملہ کرواتا ہے تو کبھی بی ایل اے کو استعمال کرتا ہے۔ دشمن کا ایجنڈا جب واضح ہے کہ پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کیا جائے تو ہماری ریاست کب تک دشمنوں کی چالوں کو اپنے بھٹکے ہوئے لوگوں کی وجہ سے نظر انداز کرتی رہے گی؟ ہمارے دشمنوں کو کسی بھی طرح سے پاکستان کا وجود نہیں بھاتا۔ امریکہ ہو، اسرائیل ہو، بھارت ہو یا پھر کوئی اور مسلمان ہمسایہ ملک ہو کسی کی اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ براہ راست پاکستان پر حملہ کرے، کچھ عرصہ پہلے بھارت یہ کوشش کر کے دیکھ چکا ہے اور نہ صرف اسکی آنکھیں کھل گئی ہیں بلکہ دوسرے دشمنوں کو بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اسی لیے اب ہمارا دشمن ہمارے ہی لوگوں کو پاکستان سے لڑوا کر ختم کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ہمارے خفیہ اداروں کے پاس دشمن کی چالوں کا جواب موجود ہے لیکن ہمارے ریاستی ادارے صرف اور صرف اس لیے جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرتے کیونکہ اس میں نہ صرف نقصان ہمارے اپنے ہی لوگوں کا ہے بلکہ ہمارے دشمنوں کو بھٹکے ہوئے لوگوں کو اور بھڑکانے کا موقع بھی مل جائے گا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اندرونی دشمنوں کے خلاف بھی کھلم کھلا جنگ کا اعلان کیا جائے اور ہر اس کردار کو بے نقاب کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے چاہے وہ مذہب پرست ہو، قوم پرست ہو یا پھر کوئی دائیں یا بائیں بازو کی جماعت کا رکن ہو، اگر وہ ریاست دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے تو سارے ثبوت دنیا کے سامنے رکھے جائیں اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے، حالانکہ یہ خالص پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے کہ کس غدار کے ساتھ کیسے نمٹنا ہے لیکن پھر بھی جو بیرونی طاقتیں انکو مالی معاونت کرتی ہیں ان پر بھی باور کرایا جائے کہ ہم غداروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں، کیونکہ پاکستان میں جب جب کسی ریاست دشمن عناصر کے خلاف کاروئی کرنے لگتا ہے تو بیرونی طاقتیں این جی اوز کے ذریعے معاملے کو اچھالتی ہیں اور یوں بیرونی دباؤ کی وجہ سے حکومت کچھ کرنے سے قاصر رہتی ہے۔اس وقت بھارت، اسرائیل اور امریکہ سب مل کر پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں، ہر زبان،ہر قوم، ہر مذہب اور ہر صوبے سے انہوں نے ریاست مخالف جذبات رکھنے والوں کو اپنی چھتری تلے پناہ دی ہوئی ہے اور اس سارے معاملے میں افغانستان انکے ساتھ شانہ بشانہ کام کر رہا ہے حالانکہ افغانستان کہنے کو تو ہمارا برادر اسلامی ملک ہے مگر اس وقت اس کا کردار انتہائی شرمناک ہے، آئے روز پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں کے تانے بانے افغانستان سے جا ملتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو اگر افغانستان کے اندر تک دہشت گردوں کا پیچھا بھی کرنا پڑے تو پاکستان کے دفاعی اداروں حکومت کی طرف سے اجازت ہونی چاہیے وگرنہ کب تک ہم افغانستان سے آئے دہشت گردوں کو اپنی سرزمین سے تو بھگاتے رہیں گے مگر وہی دہشت گرد پھر سے افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں استعمال کرتے رہیں گے۔ اس وقت پاکستان کو چاہیے کہ نہ صرف افغانستان بلکہ ایران پر بھی یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان کے اندر دہشت گرد کاروائیوں میں اگر اْنکی سرزمین استعمال ہوئی تو پھر انجام کے ذمہ دار وہ خود ہونگے۔
دوسرا کسی بھی صوبے میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث پاکستان کے اپنے بھٹکے ہوئے لوگ اگر ملوث پائے جائیں تو نہ صرف اْنکے خلاف بلکہ اْنکے سہولت کاروں کے خلاف بلاتفریق کاروائی کی جائے، کیونکہ پاکستان میں ساری دہشت گردی بالخصوص بلوچستان میں ہونے والے واقعات صرف اور صرف صوبائیت کے نام پر یا پھر فرقے کے نام پر ہو رہے ہیں۔ کبھی پنجاب سے تعلق رکھنے والے غریب مزدور دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں تو کبھی ہزارہ برادری کے شیعہ ظلم کی چکی میں پستے ہیں۔ اگر تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں جو بھی ریاست دشمن عناصر ملوث نظر آئیں گے اْنکو بھارت کا آشیرباد حاصل ہوگا۔ کیونکہ دشمن ہمیشہ کمزوری کو استعمال کرتا ہے اسی لیے وہ پاکستان کے مقامی نام نہاد قوم پرستوں کو خوب استعمال کررہا ہے۔
کلبھوشن کی گرفتاری اور پھر اسکا اعترافی بیان اس ضمن میں سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پاکستان کی عدالت سے اس قاتل دشمن کو سزائے موت بھی ہو چکی ہے مگر اس کو سزا سے محفوظ رکھنے کا سہرہ بھی ہمارے بھارت نواز سیاستدانوں کے سر ہی ہے جنہوں نے بھارتی تاجر جندال کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں میں بھارتی حکومت کو عالمی عدالت کا نہ صرف رستہ دکھایا بلکہ ریاستِ پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے وکیل کی طرف سے طے شدہ کمزور دلائل کے سبب آج بھی معاملہ عالمی عدالت میں پڑا ہے۔ بے تہاشا ثبوتوں کے ہونے کے باوجود کیس کا لٹکنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہمارے گزشتہ حکمران بھارت کی دوستی میں اپنے ملک پاکستان کی ہی جڑیں کاٹتے رہے ہیں۔ ٹھیک ہے اگر انکی سعودیہ میں فیکٹریوں کے ملازمین بھارتی تھے تو وہ کسی حد تک قابل قبول تھے مگر یہاں پاکستان میں انکی شوگر ملوں سے را کے ایجنٹوں کے کام کرنے کے شواہد اْن مل مالکان کی بھارت دوستی کی کھلم کھلا مثال ہے۔ یہ سیاستدان جو اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں پر فائز رہ کر ملک دشمن عناصر کو مدد فراہم کرتے رہے وہ کیسے پاکستان کے ساتھ مخلص ہو سکتے ہیں۔لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ خیبر سے لے کر کراچی تک ایسے ہی ملک دشمن عناصر کی پہچان کی جائے اور انکی اصلیت کو ساری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے تاکہ انہیں اپنے گناہ کا احساس ہو اور اسکے بعد انہیں قرار واقعی سزا دی جا سکے۔