Buy website traffic cheap


کس کس کو یاد کروں اور کس کو بھول جاؤں

کس کس کو یاد کروں اور کس کو بھول جاؤں
عمارہ کنول
عیدکے دن کا آغاز ماں سے ہوا۔ قبرستان گئی تو اپنے کئی بچھڑے عزیز اور ان کی باتیں یاد آئیں۔۔ ماواں بعد۔۔ کی عیداں کی شبراتاں۔۔ اپنی ماں کی یاد آئی جو صبح فجر کی نماز کے بعد اپنی ماں یعنی نانی جی قبر پر جایا کرتی اور کہتیں،جس کو لگتی ہے اسی کو پتا ہوتا جاؤ دیکھو تو سہی کتنی رونق ہوتی ہے عید پر قبرستان میں۔ دیکھا تو ادراک ہوا ہاں، میلہ تو دل میں بھی لگا ہوا ہے یادوں کا۔ اپنے ماموں مامی کی قبر، وہ ماموں جس نے پاکستان کے سب سے پہلے سٹیج پلے رانجھا 86 میں رانجھے کا کردار کیا تھا۔وہ مامی جو میری بہن یعنی ان کی بہو کے بیوٹیشن ہونے کے باوجود مجھ سے آئی برو بنوایا کرتی تھیں۔ اپنے جواں سال اٹھارہ سال کا ماموں زاد بلال جس کا ایکسیڈنٹ ہونے پر پلاسٹر کی وجہ سے بستر پر اس کا منہ دھلوایا تو بولا، دیکھ لو دیکھ لو آخری بار منہ دیکھ رہی ہو اور ہم فیصل آباد تھے جب پتا چلا پلاسٹر کھلوانے کے دو دن بعد ا س کا انتقال ہو گیا ہم جنازے پر نا پہنچ سکے منہ بھی نہیں دیکھ سکے اور اسکی وہی بات مجھے رلاتی رہی دیکھ لو دیکھ لو آخری بار منہ دیکھ رہی ہو، میری خالہ جو مجھے منے کہا کرتی تھیں،حسن کی وہ دیوی جس کا لباس ساڑھی ہوتا تھا حالات کی چکی میں پس کر کریم بلاک میں فوڈ پوائنٹ بھی چلاتی رہیں۔میرا عزیز دوست جہانگیر جس نے بعد آج تک کوئی ویسا دوست نہیں بنا جسے ٹھوکر نیاز بیگ کے قاتل روڈ نے نگل لیا چار دن کومہ میں رہ کر وہ اللہ کے پاس چلا گیا۔ میرے بڑے پاپا، تایا جی،جن سے بے جھجھک ہر فرمائش کر دیا کرتی تھی وہ تایا جی جن کے جانے کے بعد اج تک سگے باپ سے بھی کوئی فرمائش نہیں کی۔مجھے ٹیکا کہنے والی میری دادو، جنھوں نے میری زندگی کے کئی نشیب و فراز کو دیکھا اور اپنی بوڑھی آنکھوں سے بے بسی کے آنسو بہائے،، میرے دادا جی۔۔ میرے آئیڈیل جن کی گود میں بیٹھ کر سر اور تال کو سمجھا، دو سال کی عمر میں آیۃ الکرسی یاد کی، میرے نانا نانی۔۔ نانا کی اتنی یاد نہیں سوائے اس کے کہ وہ پھلجھڑیاں دلایا کرتے تھے، اور وہ نانی جسے میری ساتھ پیش آنے والے حادثے کا غم مار گیا، میری بڑی پھپھو، میرا میاں مٹھو، جس نے میرا بچپن سے لیکر اس کے جانے تک مجھے چوچو پکارا اور میری گود میں دم دیا، میرے بڑے تایا مہتاب، جن پر حسن نثار نے تابی خان کا کردار لکھا۔میری دوست زینی، جو اپنے انتقال سے ایک ہفتہ قبل آئی ہم شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد گھومے تو کہتی دیکھ لینا میں مر گئی تو انہی دیواروں میں مجھے ڈھونڈنا میں بھی یہیں ملوں گی، اور پھر شارٹ سرکٹ سے اس کا انتقال ہو گیا،میرے چاچو قاسم جن سے میری شام کو مسینجر پر بات ہوئی اور اسی رات تین بجے ان کا انتقال ہو گیا۔کس کس کو یاد کروں اور کس کو بھول جاؤں۔۔ یہ بول تقدیر کے نام۔۔ ہر ظلم تیرا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں۔
ضبط اور صبر کی انتہا آنسووں پر ہوتی ہے،دل چاہتا ہے اس وقت کہ اس ڈھیر مٹی کو ہٹا کر ان کو باہر نکال لوں۔ پھر فلم سی چلتی ہے کہ کل میں یہاں ہونگی اور میرے بچے باہر میری طرح یہی سوچ رہے ہونگے۔ صدیوں کی ریت ہے اور واقعی جگرے کا کام ہے کیونکہ گورکن،نشئیوں اور قبرستان انتظامیہ کا رویہ ایک الگ داستان ہے جو قبر کی حرمت کا خیال نہیں کرتے۔ کبھی قبر کے اوپر پاؤں رکھتے کبھی پھلانگتے اور سگریٹوں کا وہ ڈھیر۔ ساری زندگی ناک پر مکھی نا بیٹھنے دینے والے اور زرہ سی مٹی نا برداشت کرنے والے ڈھیر مٹی کے نیچے آرام سے محو خواب ہوتے ہیں بلکہ وہ تو جنت مکیں ہوتے ہیں اور مٹی کے نیچے مٹی ہوا ان کا فقط جسد خاکی ہوا کرتا ہے۔