Buy website traffic cheap

Column, Anwar Ali, Imran Khan, Mafias, Opposition

مولانا کا استعفیٰ

مولانا کا استعفیٰ
تحریر: انورعلی
جس طرح قوم 2014 میں 126 دن دھرنے سے محظوظ ہوئی تھی ویسے اب نہیں ہورہی اس کی بنیادی وجہ دھرنے میں شامل اور پس پردہ کردار ہیں اگر تھوڑا سا عمران خان کے دھرنے کو یاد کریں تو معلوم ہوگا کہ تمام ٹی وی چینلز پر 24 گھنٹے ایک ہی ٹاپک ہوتا تھا اور وہ تھا عمران خان کا دھرنا-  کوئی بھی اینکر کنٹینر کا صرف چکر لگا آتا تو اس کی باتیں بھی بریکنگ نیوز کے طور پر نشر ہوتی تھی چاروں طرف میڈیا نے سنسنی پھیلائی ہوئی تھی پہلے قادری و عمران کے جلسوں کو علیحدہ علیحدہ دکھایا گیا پھر ایک بڑے ایونٹ کے طور پہ دونوں کو ایک دھرنے میں اکٹھا کیا گیا۔ہیڈ لائنز میں پراسرار سی جھنکار کے ساتھ قادری عمران کی جپھیاں دکھائی جاتیں طاہر القادری صاحب جن کی تقریروں کا ایک زمانہ معترف ہے انہوں نے بھی اپنی شعلہ بیانی سے عوام کو گرمائے رکھا قادری صاحب 24گھنٹے انقلاب آنے کی خوشخبری سنا رہے ہوتے تھے اور سینے پہ ہاتھ مار مار کر استعفیٰ دینے کی نئی ڈیڈ لائنز دے رہے ہوتے تھے اور میڈیا ٹائمر لگا کے ان ڈیڈ لائنز کے پورا ہونے کی بریکنگ نیوز دیتا تھا قادری صاحب نے تو شاہراہ دستور پر قبریں کھدوا کے ایک کفن بردار فورس بھی تیار کی آخری الٹی میٹم میں تو قادری صاحب نے شہادت کی غرض سے غسل بھی فرمایا اور یہ سب مناظر ٹی وی پر لائیو ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے رپورٹرز درختوں پہ چڑھ کے رپورٹنگ کر رہے ہوتے تھے کبھی کسی کو کھانا بناتے ہوئے دکھاتے تو  کبھی کسی کو کپڑے دھو کر سپریم کورٹ کی دیواروں پہ سکھاتے ہوئے دکھاتے کبھی چائے بیچنے والوں اور ریڑھی بانوں   پہ بنی رپورٹس چلتیں کہ کس طرح دھرنے سے ان کی کمائی میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے گھر کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ قوم یہ اعصاب شکن مناظر ماضی قریب میں دیکھ چکی ہے جس میں آزادی مارچ سے لے کے دھرنے تک اور سول نافرمانی کی تحریک سے لیکر لاک ڈاؤن کے احتجاج تک سب شامل ہیں جن میں بڑے بڑے مقررین کی تقاریر سے یہ قوم لطف اندوز ہو چکی ہے اس وجہ سے اب مولانا فضل الرحمن کی تقریریں عوام کو بہت زیادہ متاثر نہیں کر رہی ہیں
۔ اکتوبر کو شروع ہونے والا آزادی مارچ تین دن سے اسلام آباد بیٹھا ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تعداد کے لحاظ سے یہ بہت بڑا اجتماع ہے جس کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود اس مارچ کو ماضی قریب والی میڈیا کوریج کی سہولت میسر نہیں عوام میں بھی ماضی کی طرح اس مارچ سے کوئی خوف و ہراس نہیں ہے اور مولانا بھی ابھی تک حواس باختہ نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے ابھی تک مشتعل ہو کے کوئی غلط قدم اٹھایا ہے۔میرا خیال ہے کہ اپوزیشن نے مولانا سے مل کے اس آزادی مارچ اور دھرنے سے جو حاصل کرنا تھا وہ کر لیا ہے اپوزیشن یہ باور کرانے میں کامیاب ہو چکی ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اور عوام میں ان کے بیانیے کی پذیرائی ہے اب اپوزیشن اس دھرنے کو اگلے مرحلے میں لے کے جائے گی جس میں ملک کے مختلف شہروں میں جلسے جلوس شامل ہیں ان جلسوں میں ووٹ کو عزت دو اور سویلین بالادستی کے نعرے لگائے جائیں گے اور عوامی مسائل کو میڈیا کے ذریعے اجاگر کیا جائے گا موجودہ دھرنے اور آنے والے جلسوں سے آہستہ آہستہ حکومت بیک فٹ پر جائے گی آنے والے دنوں میں چور چور کے شور اور احتساب کے نعروں میں کمی آئے گی اور پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لئے فعال کیا جائے گا۔یہ میرا تجزیہ ہے جبکہ اب تو دھرنے کو بھی تین دن گزر چکے ہیں ابھی تک تو حالات پرامن ہیں لیکن کسی ایک فریق کی غلطی اور اشتعال سے معاملات خرابی کی طرف بھی جاسکتے ہیں چونکہ اس دھرنے میں اپوزیشن کی تمام پارٹیز شامل ہیں اس لئے توقع یہی کی جارہی ہے کے خوش اسلوبی سے معاملات کو حل کرلیا جائے گا۔ایک طرف دھرنا جاری ہے جبکہ دوسری طرف وزیراعظم ہم  عمران خان  مختلف تقاریب میں مسلسل اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں پہلے یہ چیلنج دیا جارہا تھا کہ ہمت ہے تو دھرنا دے کے دیکھاؤ کھانا اور کنٹینر بھی آپ کو حکومت دے گی جبکہ اب جب اپوزیشن دھرنا دے چکی ہے ان کو اب مختلف القابات سے نوازا جا رہا ہے – حکومت کا کام جلتی پر پانی ڈالنا ہوتا ہے جبکہ حکومت اس کے برعکس تیل ڈالنے کا کام کر رہی ہے ابھی بھی چور ڈاکو نہیں چھوڑوں گا کی گردان جاری ہے مولانا فضل الرحمان کے خلاف بغاوت کے پرچے کاٹے جارہے ہیں اس ماحول میں اپوزیشن بھی اپنے مطالبات میں سختی پیدا کرے گی جو مذاکرات کو معطل کرنے اور ملک میں انتشار کا سبب بنے گا- حکومت کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ حکومت اپوزیشن کے احتجاج کی وجہ سے کمزور یا ختم نہیں ہوتی بلکہ عوام کو ریلیف نہ دینے سے کمزور ہوتی ہے جمہوریت میں اپوزیشن کو احتجاج کا حق حاصل ہے جبکہ حکومت وقت کا کام اپوزیشن کو ڈرانا یا دبانا نہیں ہوتا بلکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دے کے اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکالنا ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں ہمیشہ سے ہی الٹ ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔