چائینز مرودں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادیوں کی اصل حقیقت
چائینز مرودں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادیوں کی اصل حقیقت
اظہراقبال مغل
آج کل پاکستانی لڑکیوں کی چائینز مردوں کی شادیوں کی خبریں میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی دکھائی دے رہی ہیں اور مختلف انکشافات ہو رہے ہیں جن کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک احمقانہ بات ہو گی کیونکہ یہ چائینز لوگ شادیوں کے حصول کے لیئے پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں۔جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہی نہیں ساری کی ساری دال ہی کالی ہے۔ ایک پاکستانی لڑکی سے شادی کرنے کے لیئے پاکستانی پچاس لاکھ خرچہ آرہا ہے جو کہ جو چائینہ کے منعظم گروہ جو اس مقصد کیلئے کام کر رہے ہیں یہ پیسہ ان کو دیا جاتا ہے وہ گروہ پچیس لاکھ خود رکھتا ہے باقی وہ شادی کیاخراجات پر خرچ کرتا ہیں۔اس گروہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ ان چائینز لوگوں نے پاکستان میں مختلف کمپنیاں بنا رکھی ہیں جن میں گارمنٹس،چائنہ کا مال منگوانے والی کمپنیاں ٹوریسٹ کمپنیاں اس کی ٓڑ میں یہ لوگ شادیوں کا بھی کام کر رہے ہیں ان لوگوں نے پوش ایریا میں بہت بڑے بڑے گھر لے رکھے ہیں جہاں یہ لوگ چائینہ سے آنے والے لڑکوں اور پاکستانی لڑکیوں رکھتے ہیں۔اس چائنیز گروہ کا طریقہ کار کیا ہے کیسے یہ لوگ پاکستانی لڑکیوں تک پہنچتے ہیں اور کیسے یہ لوگ پاکستانی لڑکیوں سے شادی کر کے چائینہ لے جاتے ہیں۔سب سے پہلے یہ لوگ پاکستانی باشندوں کو جاب کی آفر کرتے ہیں ایسے لوگ جن کو چائنہ کی زبان آتی ہے ان کو بطور ٹرانسلیٹر کے طور پر رکھتے ہیں اور اچھا سیلری پیکچ دیتے ہیں،اور ان پاکستانیوں کا اس مہارت سے برین واش کرتے ہیں کہ کوئی بھی پاکستانی یہ کام ثواب کا کام سمجھ کر کرتا ہے سب سے پہلے یہ گروہ ان ٹرانسلیٹرز کو اپنی کمپنی کے تمام ڈاکومنٹ دکھاتے ہیں کہ ان کی کمپنی رجسٹرڈ ہے یہ لوگ کسی قسم کا دھوکا فریب نہیں کر رہے چونکہ کہ چائینہ میں لڑکیوں کی شدید کمی واقع ہو رہی اور چایئنہ میں شادی کرنے پر کافی اخراجات آجاتے ہیں اس لیئے یہ چائینز لڑکے ان کے جاننے والے ہیں اور پاکستان میں شادی کے خواہشمند ہیں اگر کوئی پاکستانی لڑکی شادی کے لیئے راضی ہوتی ہے تو یہ لوگ فیملی کو بھی سپورٹ کریں گے سارا خرچہ لڑکے والوں کا ہوگا اور یہ لوگ کسی قسم کا جہیز بھی نہیں لیں گے اور سب سے بڑی بات اگر لڑکی کرسچن ہے تو یہ لوگ عیسائیت کا مذہب قبول کریں گے اور اگر لڑکی مسلمان ہیں تو یہ لوگ اسلام قبول کریں گے شادی باقاعدہ عدالت میں ہوگی جس میں باقاعدہ طور پر حلفیہ بیان دئیے جائیں گے لڑکی کے نام حق مہر اور جیب خرچ لکھا جائے گا،اور لڑکی کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا جائے گا اگر لڑکی کے ساتھ کچھ بھی ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار ہماری کمپنی ہوگی،اور چائنیز قانون کے مطابق اگر لڑکا لڑکی کو طلاق دیتا ہے تو آٹومیٹکلی آدھی جائیداد کی وارث لڑکی ہو گی۔اب اس طرح سے کسی کو بھی ہر بات کا یقین دلایا جائے تو کوئی بھی انسان لازمی طور پر شادی کروانے کیلئے رضامند ہو جائے گا اسظرح یہ ٹرانسلیٹر حضرات پیسے کمانے کے چکر میں پھر ایسے لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں جو کہ یہ کام باآسانی کروا سکے ان میں میرج بیورو والے لڑکیاں تلاش کر کے دینے میں ان کے مددگار ثابت ہوتے ہیں اور پاسپورٹ ایجنٹ باقی کاغذات مکمل کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔یہ لوگ دو لاکھ رشتہ کروانے والے کو اور پانچ لاکھ لڑکی والوں کو باقی اخراجات کے علاوہ دیتے ہیں میرج بیورو والے جن کو اتنی بڑی رقم مل رہی ہو آسانی سے رشتہ تلاش کر کے دینے کیلئے رضا مند ہوجاتے ہیں،اسی طرح جس بلڈنگ میں یہ لوگ رہائش پذیر ہوتے ہیں وہاں کے چھوٹے طبقہ کو یہ لوگ لالچ دیتے ہیں غربت کی چکی میں پسنے والوں کو جب اتنی زیادہ رقم نظرآتی ہے، تو بہت سارے تو اپنی بچیاں شادی کیلئے پیش کر دیتے ہیں اور بہت سارے لوگ جن کا تعلق مختلف دیہاتی علاقوں سے ہوتا ہے علاقوں میں تلاش شروع کر دیتے ہیں۔اس طرح سے یہ لوگ پاکستانی لڑکیوں تک یا ان کی فیملیز تک رسائی حاصل کر کے شادی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں،ان چائینزلڑکوں کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہوتی کہ لڑکی خوبصورت ہو اونچی لمبی ہو پڑھی لکھی ہو مہذب فیملی سے فیملی چھوٹی ہو گھر اچھا بنا ہو جہیز بہت اچھا لیکر آئے اچھی ذات سے ہو کم عمر ہو نیک سیرت ہو ایسی بہت ساری مطلوبہ شرئط جو کہ پاکستانی شادیوں میں شدید رکاوٹ کا باعث بن رہی ہیں آج بہت ساری لڑکیا ں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر بیٹھی ہیں بہت ساری بیوائیں شادی کا انتظار کر رہی ہیں جب ہمارا معاشرہ اس طرح کی امراض میں مبتٰلا ہوگا تو پھر اسی طرح کے لوگ ہی فائدہ حاصل کریں گے۔شادی ہوجانے کے بعد یہ لوگ لڑکی کاکاعذات مکمل کرتے ہیں۔اگر لڑکی مسلمان ہیں تو یہ چائینز لڑکے باقاعدہ طور پر اسلام قبول کریں گے اگر کرسچن ہے تو یہ عیسائی مذہب اختیار کرتے ہیں مطلب لڑکی والوں کو ہر طرح سے مطمیٗن کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی کانٹوں کے بستر سے اٹھ کر پھولوں کی سیج پر جارہی ہے،کچھ غربت کی بدترین زندگی گزارنے والے ماں باپ کو جب نظر آتا ہے کہ ان کی بیٹی خوش رہے گی یا کچھ حوس پرست ماں باپ جن کو پیسے لا لچ ہوتا ہے ہے کہ ان کو ماہانہ پیسے ملتے رہیں گے وہ بہت آسانی سے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنے کیلئے رضامند ہوجاتے ہیں۔لیکن وہ ماں باپ یہ نہیں جانتے کہ جن لوگوں کے حوالے وہ اپنی بیٹی کو کر رہے ہیں وہ انسانیت سے عاری لوگ انکی بیٹوں کے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہیں اگر کوئی بھی ماں باپ یہ جان لے تو کوئی بھی اتنی آسانی سے اپنی بیٹی ان جلادوں کے حوالے نہ کرے جوکہ انسانیت کے نام پر ایک بدنما دھبا ہیں۔کاغذات مکمل ہونے کے بعد یہ چائینز گروہ لڑکے لڑکی کو چائینہ لے جاتا ہے۔چائینہ جانے کے بعد جو بہت خوبصورت اور پر کشش لڑکیاں ہوتی ہیں ان کو یورپ کے مختلف کلب یا فحاشی کے اڈوں پر بھیج دیا جاتا ہے اور ان کو ہمیشہ کیلئے ذلت کی دلدل میں پھنک دیا جاتا ہے جہاں ان سے جسم فروشی کا دھندہ کروایا جاتا ہے،اور جولڑکیاں اتنی پرکشش نہیں ہوتی ان کے جسم کے عضانکال کر بیچے جاتے ہیں۔جتنا پیسہ چائینز نے لگایا ہوتا ہے اس سے دوگنا پیسہ کما لیتے ہیں۔لیکن دُکھ اپنے پاکستانیوں پر ہوتا ہے جو کہ پیسوں کے لالچ میں ماں باپ کو اولاد سے دور کردیتے ہیں بلکہ ان بیچاری لڑکیوں کو ایسے اندھے کنویں میں جھونک دیتے ہیں جہاں ان کی دُنیا وآخرت ہی خراب ہو جاتی ہیں،آنکھوں میں بہت سارے سہانے خواب سجائے جب لڑکی پر اصلیت ظاہر ہوتی ہو گی تو اس وقت یہ لڑکی کس قرب سے گزرتی ہو گی،اس پرکیا بیتتی؟ کیا کبھی یہ سوچا ہے؟ ان پاکستانیوں نے جو اس کام میں چائینز کا ساتھ دے رہے ہیں اللہ نہ کرے ان کی بیٹی کے ساتھ ایسا ہو تو کیا گزرے گی ان پر ۔ان کو ذرابھی احساس نہیں کہ ان کا تعلق کس مذہب کس قوم سے ہے،میری پاکستان کے تمام ماں بہن بیٹوں سے درخواست ہے کہ پیسوں کے لالچ م یں اپنی بیٹی کی شادی چائنیزسے کرنے کے بجائے پاکستان میں ایک شادی شدہ مرد سے اپنی بیٹی کی شادی کر دیں۔ تاکہ کسی بھی پاکستانی بہن بیٹی کیاس بری طرح سے بے حرمتی نہ ہو جس طرح یہ چائینز ایک عورت کی بے حرمتی کر رہے ہیں،پاکستان کے حساس ادارے اس کام کی روک تھام کے لیئے کافی سرگرم نظر آرہے ہیں اور ہمارے پاکستانی میڈیا کا اس میں بہت ہی اہم ورل ہے جس چائینز کے ناپاک عزائم کو پاکستانی عوام تک پہنچایا،اور اس طرح کے واقعات میں کافی کمی واقع ہوئی ہے اللہ نے چاہا تو اس جرم کو ضرور جلد ہی زوال پذیر ہونا پڑے گا۔حکومت پاکستان کو بھی اس گھناؤنے جرم کی روک تھام کیلئے سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیئے اور جس علاقہ میں بھی چائینز رہائش پزیر ہیں ان پر کڑی نظر رکھنی چاہیئے تاکہ اس جرم کے خاتمہ کو یقنی بنایا جا سکے