Buy website traffic cheap


کراچی ائیرپورٹ پر ایف آئی اے کی زیادتیاں

کراچی ائیرپورٹ پر ایف آئی اے کی زیادتیاں
بادشاہ خان
دنیا گلوبل ویلیج بن چکی، روایتی اور مینول طریقہ کار سے بات الیکٹرونک طریقوں میں بدل رہی ہے، اب ملک سے باہر جانے کے لئے سفارت خانوں سے رابط کم ہوتا جارہا ہے، ای ویزہ سہولیات نے سفر کو آسان کردیا ہے، مگر اس دور میں بھی پاکستانی ادارے ایف آئی اے کا کراچی ائیرپورٹ پر امیگریشن ہونے کے بعد ری چیکینگ کاونٹر آلات سے محروم ہے، بلکہ شائد جان بوجھ کر مسافروں کے لئے پریشانیاں کھڑی کررہا ہے،کئی بار سنا تھا، کہ ملک سے باہر جانے والے غریب اور ان پڑھ مسافروں کو ائیرپورٹ پر مختلف ادارے تنگ کرتے ہیں، بیرون ملک جاکر وطن زرمبادلہ کمانے کے لئے جانے سے پہلے ائیرپورٹ پر موجود کئی اداروں میں موجود چندراشی افسران کو خوش کرنا پڑھتا ہے، ان چند اہلکاروں نے ملک اور اداروں کو بدنام کیا ہوا ہے،وہ سادہ لوح افراد کو امیگریشن ہونے کے باوجود روک کر ڈراتے ہیں ،،اورپھر ان سے رشوت لیکر پھر سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر موجود انہیں اداروں میں ایک کاونٹر امیگریشن ہونے کے بعد ایف آئی اے کاونٹر ری چیکنگ کے نام سے موجود ہے، جس میں موجود چند کالی بھیڑوں نے پورے محکمے کو بدنام کیا ہوا ہے،ان چند کالی بھیڑوں نے گذشتہ کئی دہائیوں سے اندھیری مچائی ہوئی ہے، اس کا تجربہ گذشتہ ردنوں ہمیں اس وقت ہوا جب خود کراچی سے براہ راستہ دبئی کرغزستان جانے کے لئے امیگریشن کے عمل سے گذر گئے، پاکستان سے ایگزٹ کی مہر ہمارے پاسپورٹ پر لگ گئی، سامان ہمارا لیگج میں جمع ہوگیا، اس کے بعد ایف آئی اے کے ایک اہلکار جس کا نام سید فیصل علی نامی شخص نے ایک بار پھر ایف آئی اے کے کاونٹر پر خاتون سمیت موجود تھا اس نے ای ویزہ کی کاپی طلب کی،اس قبل اوکے ٹو بورڈ کی اوریجنل کاپی امیگریشن پر جمع کرواچکے تھے اسے ہم نے دوسری کاپی دی،میرے ساتھ دوسرے دوست سنیئر کالم نگار اور معروف بزنس مین محمد شفیق سرور تھے، خاتون اور کاونٹر پر موجودسب انسپکٹرسید فیصل علی نے کہا کہ اور کاغذات کہاں ہیں، ہم نے کہا کہ یہ ای ویزہ ہے اور اس پرتفصیلات درج ہیں، جس پر موصوف بگڑ گئے،اور کہاکہ آپ نہیں جاسکتے آپ ہمارے آفیس میں افسر سے ملیں،پوچھنے پر وجہ بتانے کو تیار نہیں تھے، ہم نے انھیں بتایا کہ بھائی ایگزٹ کی مہر لگ چکی ہے،ویزہ اوکے ٹو بورڈہے، واپسی کی ٹکٹس ہماری کنفرم ہیں، تو موصوف نے کہا کہ جس نے آپ کو ویزہ بھیجا ہے، اس کا کوئی لیٹر دکھائیں،اس کے بعد سید فیصل علی نے ہمیں اپنے سنیئرانسپکٹر اے ایچ قریشی (عبدالحمیدقریشی)نامی افسر کے سامنے مجرموں کی طرح پیش کیا،یاد رہے کہ اس سے پہلے ہم نے دونوں ایف آئی اے اہلکاروں کو اپنا صحافتی کارڈ اور کراچی پریس کلب کا کارڈ دکھا چکے تھے، مگر اے ایچ قریشی نے اپنے جونئیر سیدفیصل علی کی ضد کو تقویت دیتے ہوئے ہماری ایک نہیں سنی اورکہا کہ جس نے آپ کو ویزہ بھیجا ہے، اس ادارے کا کوئی ثبوت دکھائیں، اس پر ہم نے بشکیک کرغزستان میں موجود ہمارے دوست اور تاجر سردار علی سے واٹس ایپ پر رابطہ کیا اور وہاں سے اس ادارے کا لیٹر اور سرٹیفکیٹ جو کہ کرغز حکومت نے جاری کیا تھا، ایف آئی اے اہلکاروں کی خدمت میں پیش کیا، اس پر ایف آئی اے اہلکاروں کا نیا موقف سامنے آیا کہ یہ تو روسی زبان میں ہے، اسے ترجمہ کرکے دو، نہیں تو آپ نہیں جاسکتے، بالاآخر ایف آئی اے اہلکار ضد پر ڈٹے رہے اور ہمیں آف لوڈ کردیا،یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہوا وہاں موجود ایک نوجوان جس کا نام مرتضی تھا،اسے دوسری بار کاغذات پورے ہونے کے باوجود آف لوڈ کیا گیا، اس کے ثبوت بھی میرے پاس موجود ہیں،وہاں ایک دوسرے ادارے کے اہلکار نے کہا کہ آپ بہت سادہ ہیں، بس یہ دوچار ہزار روپے کاچکر ہے دے کر جان چھڑائیں اور جائیں، سوال یہ ہے کہ ایک ملک پاکستانی شہری کو ای ویزہ جاری کرتا ہے، اور کاغذات ٹھیک ہونے کے باوجود کسی کرمنل کیس میں ملوث نہ ہونے کے باوجود اسے ملک سے باہر نہ جانے دینا صرف چند ٹکوں کی لالچ میں،کیا پیغام دے رہے ہیں ہم دنیا کو،کیا دنیاہمارے لوگوں ویزے جاری کرے گی؟ یہ تجربہ خود ہمارے ساتھ ہوا، کہ موصوف نے کہا ہمارے پاس سسٹم نہیں ہے، آپ اسے ترجمہ کرکے دیں،،اب سوال کئی ہیں کہ ایک شخص ملک سے باہر جارہا ہے، اور ای سی ایل سمیت کوئی معاملہ بھی نہیں، اسے روک کر آف لوڈ کرنا کیا معنی رکھتا ہے،؟،ان اداروں کا تو کام ہونا چاہی ہے کہ وہ بیرون ملک جانے والے افراد کو آسانیاں فراہم کریں، یہ الٹا انھیں تنگ کررہے ہیں، اور کسی کا سفارشی فون اگر آجائے تو پھر اسے جانے دیا جاتا ہے، اور ہمارے سامنے ایک مسافر نے اسلام آباد سے فون کروایا تو اسے بغیر کسی اضافی کاغذ کے اوکے قرار دے گے،اور وہ سیدھا جہاز میں جاکر سوار ہوگیا، اور ہم سیلانی کی طرح دیکھتے رہے،ڈبل اسٹنڈرڈ بے نقاب ہوگیا، آخر ایسا کیا ہوا کہ جن کاغذات میں کمی تھی اس فون سے ختم ہوگئی، مسئلہ کاغذات کا نہیں تھا،مگر چونکہ ہم غلطی سے بلکہ مجبورا صحافتی کارڈ دکھا چکے تھے، اس لئے ہمیں آف لوڈ کردیا، اس کا واضح مطلب یہ تھا،اور ہے کہ اس ملک میں قانون نام کی چڑیا مفقود ہے، تبدیلی سرکار کی نااہلی اور اسے بدنام کرنے کے لئے ہر ایک اپنا حصہ ڈال رہا ہے،امیگریشن ہونے کے بعد ایف آئی اے کا ری چیکنگ کاونٹر جس کا کام اینٹی ہومین اسمگلنگ کی روک تھام ہے، اس کا مسافروں آف لوڈ کرناکہاں کا انصاف ہے، کئی افراد نے وجہ پوچھی اور کہا کہ ریٹر ن میں لکھ کر دو مگر لکھ کر دینے کو تیار نہیں تھے ، ہمارے سی آراے کے صدر شاہد انجم نے فون پر کہا کہ ریٹرن لکھوالو،ہم نے آخری بار اپنا جرم پوچھا،مگر جواب وہی تھا،یہ لیٹرروسی زبان میں ہے،اسے ترجمہ کرو، جبکہ ہمارا ای ویزہ کرغزستان کی سرکاری ویب سائٹ اور ہمارے ہاتھ میں انگریزی زبان میں موجود تھا، یہ اگر خلاف قانون نہیں تو کیا ہے؟، وہ مسافر جن کو دوسری بار آف لوڈ کیا گیا ان کے ٹکٹ بھی ضائع اور پیسوں کا نقصان الگ، جب دوسرا ملک ویزہ دے چکا ہے تو پاکستانی اہلکاروں کو تکلیف کیوں؟اگر وہ ڈی پورٹ کریں تو وجہ بنتی ہے، مگر ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کا یہ رویہ پاکستان میں زرمبادلہ تو لانا مشکل ہے، نقصان کا باعث بن سکتا ہے، وزیر داخلہ صاحب اس کا بھی نوٹس لیں، آخری بات آف لوڈ ہونے کے بعد دو روز بعد ہم بشکیک کرغزستان جب اسی ویزے پر پہنچے تو کرغزستان امیگریشن نے ایک منٹ سے کم وقت میں ہمیں کرغزستان میں خوش آمدید کہا، ذرا سوچیں،یہ کراچی ائیر پورٹ پر ایف آئی اے کے چند اہلکار کیا کررہے ہیں؟