Buy website traffic cheap

آئی ایم ایف

آئی ایم ایف کا سودی جال

آئی ایم ایف کا سودی جال
بادشاہ خان
ستر برس گذر گئے ،لیکن حکومت پاکستان معاشی بحرانوں سے نہیں نکل سکی ، بیوروکریٹس کی موج ظفر موج ،سیاستدانوں کی نہ ختم ہونے والی فہرست اس کا حل ڈھونڈنے میں کیوں ناکام ہے ؟کیا اتنا عرصہ ایک قوم کی ترقی کے لئے کافی نہیں ہیں؟کیا تجارت کی نئی راہیں نہیں کھول سکتی ؟کیا ڈالر کے علاوہ علاقائی کرنسی میں کاروبار کا فروغ ممکن نہیں؟قرض ایک ایسا مرض ،ایسی کمزوری جس سے ملک ،افراد معاشرے اور ادارے تباہ ہوجاتے ہیں اور وہ بھی سودی قرضے ،اللہ سے کھلی جنگ اور معاشی تباہی الگ، ریاست مدینہ میں سب سے پہلے سودی قرضوں کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا،اور پی ٹی آئی کی حکومت نے مزید سودی قرضے لینے کے لئے آئی ایم ایف سے بات چیت کرلی ہے جو کہ آخری مراحلے میں ہے؟ کیا ریاست مدینہ کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کا یہ ایک اور یو ٹرن نہیں؟مشہور فلسفی خلیل جبران نے بہت پہلے کہا تھا کہ ۔۔ دنیا وہی ہلچل مچا سکتے ہیں جو اپنے اندر وزن رکھتے ہیں ، ،تبدیلی کے آغاز کے لئے کیا اتنے مہینے کافی نہیں تھے ؟
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق حکومت نے دسمبر 2018 میں مقامی ذرائع سے 212ارب روپے کا قرضہ لیا۔اسٹیٹ بینک نے حکومتی قرضوں کے حجم کی رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق حکومت نے دسمبر 2018 میں مقامی ذرائع سے 212 ارب روپے کا قرضہ لیا ہے جبکہ دسمبر 2018 میں 28 ارب کے بیرونی قرضوں کی واپسی کی گئی،حکومت کے قرضوں کا حجم 26 ہزار 636 ارب روپے ہوگیا ہے جس میں مقامی قرضوں کا حجم 17 ہزار 5 سو 35 ارب روپے جب کہ بیرونی قرضوں کا حجم 9 ہزار ایک سو ایک ارب روپے ہوگیا ہے ہندوستان میں ہندو مہاجن سود دینے کے لئے مشہور تھے توانیسویں صدی میں دنیا بھر میں یہودیوں نے اپنے ہزاروں سالوں سے جاری سودی نظام کوایک بار پھر فروغ دیا ،برطانیہ نے 1948ء میں اسرائیل کے نام سے یہودی ریاست قائم کی اور امریکہ نے اس کی حفاظت و تعمیر کا ذمہ لیا۔ یہودیوں نے اپنی صدیوں پرانی خصلت کے تحت سودی نظام کا جال پھیلایا اور امریکی نظام زر و دولت پر قابض ہو گئے ۔ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک، پیرس کلب وغیرہ جیسے دیوہیکل ادارے قائم کئے ۔ دنیا کو قرضوں کے جال میں پھنسایا۔سرکاری حکام میں کرپشن کو فروغ دیا،وزرا کو تحائف دئے ، بڑی بڑی ریاستوں کو کھوکھلا کرکے زیر دام لایا، انہوں نے یہ سب کچھ کیسے کیا، اس کے اثرات کیا ہیں۔ دنیا ان کے قبضے میں کیسے آئی؟ وغیرہ جیسے سوالات کا جواب آسان نہیں ہے ۔ ، لیکن ایک بات واضح ہے کہ دنیا ،سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت میں ہے ۔ دنیا کے تمام وسائل گنتی کی دیوہیکل بین البراعظمی کارپوریشنوں کے قبضے میں ہیں اور ان کے مالک یہودی ہیں جو نہ صرف ذرائع پیداوار اور نظام تقسیم پر مکمل دسترس و قدرت رکھتے ہیں، بلکہ ان کی سمت متعین کرنے میں بھی حتمی کردار ادا کرتے ہیں،آج دنیا کے بڑے بڑے ممالک ان اداروں کے محتاج ہیں ، خود وزیراعظم عمران خان نے کئی بار حکومت میں آنے سے قبل ان اداروں بالخصوص آئی ایم ایف کے خلاف تقریریں کی ، کہ اس سے ملک ترقی نہیں کر سکتے ، اور پھر اچانک کیا ہوا کہ ڈالر کو پر لگ گئے ،ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ مخصوص طبقے نے جو آج بھی پاکستانی بیورو کرسی اور اسٹبلشمنٹ میں یہودی ساہوکاروں سے تحائف لیتے ہیں ، ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے سرگرم رہتے ہیں ، انھوں نے آئی ایم ایف سے بیل آوٹ لینے کا پروپیگنڈہ کیا ،کہ دس سے بارہ ارب ڈالر کے بغیر ملک نہیں چل سکتا ، فی الفور ضرورت ہے،اور میڈیا نے بھی ایسی تصویر پیش کی کہ بس پاکستان نے اگر آئی ایم ایف کے دربار میں حاضری نہ دی تو کیا ہوجائے گا؟ اور پھر تبدیلی نے یو ٹرن لیا،گذشتہ برس کے آخری دور میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے مالی مدد کی باضابطہ درخواست کردی تھی،پاکستان کی آئی ایم ایف سے قرضے کی یہ 13 ویں درخواست ہے ۔
انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں وفاقی وزیر خزانہ اسدعمر اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر طارق باجوہ سے ملاقات کے دوران ایم ڈی کرسٹین لاگارڈ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے امداد کے لیے باضابطہ درخواست موصول ہوگئی ہے ، وزیرِ خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نے پاکستانی ماہرینِ معاشیات سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی ابتدا کرنی چاہیے جس سے ہم اس معاشی بحران پر قابو پا سکیں۔انتخابات سے قبل تحریکِ انصاف آئی ایم ایف سے مالی مدد لینے کی شدید مخالفت کرتی رہی تھی اور وزیراعظم عمران خان نے بارہا اپنی تقاریر میں یہ بات کہی تھی کہ اگر وہ برسراقتدار آئے تو کبھی عالمی مالیاتی ادارے سے قرض کے لیے رجوع نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب امریکی ڈالر کی اچانک نامعلوم وجہ سے بڑھنے سے ، تاجر اور کاروباری طبقہ کم ہوتے ہوئے کاروبار سے پریشان ہے ۔اس سے مہنگائی کی شرح دس فی صد تک بڑھنے کا امکان ہوگیا ۔ خودوزارت خزانہ کے مطابق ڈالر کی قیمت ایک روپے بڑھنے سے بیرونی قرضے 95 ارب روپے بڑھتے ہیں۔ڈالر مہنگا ہونے سے عوام پریشان ہوگئے ،ڈالر پر انحصار اور بہت زائد امپورٹس کے سبب ڈالر مسلسل بڑھ رہا ہے اور جب بھی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے ، مہنگائی کے سبب کاروباراور دیگر معاشی سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں،اس صورت حال کرپشن ،بے روزگاری مہنگائی نے عوام میں بے چینی کا آغاز کردیا ہے ، حکومتی پالیسیوں پر کھلے عام بحث اب شروع ہونے کو ہے ۔ اب عام لوگ بھی سوال یہ ہے کہ ریاست مدینہ میں تو سودی نظام کی گنجائش نہیں تھی ، تحریک انصاف کا ایک اور یوٹرن کا کس طرح دفاع کرینگے؟ آئی ایم ایف کے سودی قرضے پاکستان کو مزید خسارے کی طرف دھکیل دی گی ۔پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف کے سودی جال میں داخل ہونے جارہا ہے ،آئی ایم ایف قرض کے نام پر دنیا بھر کے ممالک کو دائمی مرض فروخت کر رہا ہے۔۔۔ترقی کا واحد راستہ خطے میں تجارت کا فروغ اور برآمدت کا فروغ ہے ، اور اس پر پالیسی بادی النظر میں نظر نہیں آرہی