Buy website traffic cheap

Column, Badshah Khan, Peaceful Afghanistan, South Asia, Pakistan US

”پرامن جنوبی ایشیاء“ کا خواب اور افغانستان

”پرامن جنوبی ایشیاء“ کا خواب اور افغانستان
بادشاہ خان

امریکہ پر افغانستان اور عراق سے انخلا کا دباو بڑھ گیا ہے،کیا امریکہ اس کے لئے تیار ہے؟ یا ایک بار پھر مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرے گا؟اس وقت بظاہرامریکہ اور افغان طالبان کے دوران مذاکرات ایک بار پھر حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں، جس کی تصدیق قطر میں طالبان ترجمان سہیل شاہین کے علاوہ افغانستان کے پاکستان میں سابق ملا عبدالسلام ضعیف نے بھی کردیا ہے، انہوں نے گذشتہ روز ایک افغان ٹی وی کو انٹرویو میں کیا، انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں سب باتیں طے ہوچکی تھی، صرف معاہدے سے قبل چند روز کی امریکہ جنگ بندی پر زور دے رہا تھا، اس پر بات ہورہی ہے،باقی کب کہاں معاہدہ دستخط ہوگا سب سامنے آنے کو ہے، اور دوسری پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان نے افغانستان سے امریکی انخلاء پرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کی ذمہ دارانہ واپسی کی جائے اور 80ء کے عشرہ کی غلطی نہ دھرائی جائے، مسئلہ کشمیر کے حل تک امریکا اور پاکستان کا ”پرامن جنوبی ایشیاء“ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔پاکستان خلوص نیت کے ساتھ ”افغان امن عمل“ کی اس مشترکہ ذمہ داری کو نبھا رہا ہے، پاکستان خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے اور خطے میں پائی جانے والی کشیدگی کے خاتمہ کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے پرعزم ہے۔اسی تناظر میں چند روزقبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نیا سٹیٹ آفس واشنگٹن میں امریکی ہم منصب مائیک پومپیو سے ملاقات کے دوران پاک امریکا تعلقات، اہم علاقائی و باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ میں پائی جانے والی کشیدگی اور خطہ میں امن و امان کی صورتحال کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر امریکا کا دورہ کیا۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے حالیہ دورہ ایران و سعودی عرب کے دوران ہونے والی ملاقاتوں کی تفصیلات سے امریکی وزیر خارجہ کو آگاہ کیا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے اور خطے میں پائی جانے والی کشیدگی کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے پرعزم ہے، وزیر خارجہ نے امریکی ہم منصب کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے گزشتہ 5ماہ سے 80لاکھ کشمیریوں کو کرفیو کے ذریعے محصور کر رکھا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں ذرائع مواصلات پر تاحال پابندی عائد ہے تاکہ اصل حقائق کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا جائے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کا ”پرامن جنوبی ایشیاء“ کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور 80 لاکھ کشمیریوں کے استصواب رائے سے حل نہیں کیا جاتا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان اور امریکا کی مشترکہ کاوشوں سے طویل محاذ آرائی کے بعد سیاسی حل کے ذریعے ”امن کی نوید سنائی دے رہی ہے، اللہ کرے ایسا ہو۔
،افغان قوم اور طالبان کا پہلا مطالبہ امریکی انخلا تھا اورہے،اور طالبان اس سے کم پر راضی نہیں،جبکہ امریکہ اسی وجہ سے ٹال مٹول کررہا ہے کہ کسی طرح وہ افغانستان میں اپنے فوجی اڈے برقرار رکھ سکے، ایشیاء کے دل افغانستان کوعالمی طاقتیں اور علاقائی ممالک خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لے سازشوں کا مرکز بنانے کی سازش میں فعال ہوچکے ہیں،ایک بار پھر افغانستان کو اپنی پراکسی وار کے لئے میدان جنگ بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہے، ایک بار پھر افغانستان ہدف ہے اور اس بار ورلڈ اکنامک فورم پر بھی اس کی گونج نمایاں رہی،جس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آنے والے چند مہینے خطے کے اہم ممالک بالخصوص افغانستان کے مستقبل کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں،افغانستان جس کے ایک جانب وسطی ایشیاء کی مسلم ریاستیں ہیں جو معدنیات سے مالامال ہیں دوسری جانب چین اور پاکستان اور تیسری جانب ایران ہے۔افغان چونکہ خود مختار اور اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں مگر دباؤ پاکستان پر ہے جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے، پاکستان،روس اور چین اگر افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے اگر اکھٹے ہوں، تو امریکہ سمیت کئی ممالک کو تکلیف ہوتی ہے،مگر امریکہ سے پوچھنے کو کوئی تیار نہیں؟ کہ وہ افغانستان سے کیوں نہیں جارہا؟ اگر افغانستان میں امن قائم نہ ہو ا تواس کے اثرات سے ایشیا سمیت دنیا متاثر ہوسکتی ہے
پاکستان خلوص نیت کے ساتھ ”افغان امن عمل“ کی اس مشترکہ ذمہ داری کو نبھا رہا ہے، تاریخی اعتبار سے جنوبی ایشیائی خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان اور امریکا کی مشترکہ کاوشیں ہمیشہ سود مند ثابت ہوئی ہیں، پاکستان ان کی نظر میں طالبان کا حامی ہے،جبکہ ایسا نہیں رہا،طالبان کا اعتماد پاکستان پر دن بدن کم ہوتا جارہا ہے، اور دوسری اہم بات کہ اس ڈرٹی پالیٹکیس میں پاکستان کو اپنا کردار واضح کرنا ہوگا ورنہ مستقبل میں اس کے طویل مدتی نقصانات ہوسکتے ہیں،ایسا لگتا ہے پاکستان افغانستان کی حکومتوں کے بعد اب طالبان سے تعلقات میں خلیج پڑ چکی ہے،امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے عزائم میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں،غلط فہمیاں شکوک اور بھروسے کو ختم کرتی ہیں،یا پھر ہم بہت زیادہ ہوشیار ہیں،ہماری خارجہ پالیسی کے چئمپین مدہوش ہیں،تھری پیس سوٹ میں دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے بونے آقا کے سامنے جی حضوری میں پیش پیش ہیں اور دوسری طرف سرحدوں کی پامالی جاری ہے،ہاں البتہ بیانات جاری کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں،،مگر سوال پاکستان کی خود مختاری،مفادات اور سالمیت کا ہے۔بدقسمتی سے ایک ایسا طبقہ اور چندافراد دانش ور جو کہ کراچی و اسلام آباد سے کبھی باہر نہیں نکلے حالیہ برسوں میں؟شائد اس لئے ان کو افغانستان کی اصل صورت کا ادارک نہیں ہیں؟اان کی غلط فیڈنگ کی وجہ سے افغان طالبان پاکستان سے فاصلہ اختیار کرچکے ہیں،فغان قوم اور طالبان جب بیرونی مداخلت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب صرف پاکستان نہیں ہوتا وہ ہر بیرونی مداخلت کے خلاف ہیں، جس سے افغانستان میں جنگی صورت حال کا ماحول ہے، چاہے اس میں ایران ملوث ہو یا انڈیا یا روس، افغان سب کی مداخلت سے آزاد ہونا چاہتے ہیں،اس لئے افغانستان میں امن امان کی بہتری سے پورے ایشیا کا امن وابستہ ہے ۔مگر سوال یہ ہے کہ طالبان جو کہ افغانستان کے مستقبل کے حکمران نظر آرہے ہیں،ان کا جھکاو پاکستان کی طرف باقی ہے؟ یا پھر وہ فیصلہ کرچکے؟بظاہر ایسا لگتا ہے کہ خطے میں پاکستان دوستوں سے محروم ہوتا جارہا ہے،شائد اسی بات کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ امریکہ سے درخواست کررہا ہے کہ عالیجاہ اس بار ہمیں بے یارو مددگار مت چھوڑنا، رہی بات کشمیر کی تو وہ پاکستان کا مسئلہ ہے امریکہ کا نہیں، امریکہ اپنے مفادات اور اتحادیوں کے مفادات کے لئے منصوبے بناتا ہے، اور جنوبی ایشیاء میں اس کا اسٹریٹجیک اتحادی ہندوستان ہے،پاکستان نہیں، پاکستانے کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے خود فیصلے کرنے ہیں۔کیونکہ پاکستان خطے میں ان مسائل سے جڑا ہوا ہے،ایک بات اور بیانات سے زیادہ اقدامات اور اخلاص کی ضرورت ہے تاکہ اپنے مطمئن ہوسکیں، اس وقت اپنے بھی ناراض اور اغیار بھی خنجر گھونپنے کو تیار ہیں۔۔۔