Buy website traffic cheap

گندی مچھلیاں

گندی مچھلیاں…. کالم نویس عمارہ کنول

گندی مچھلیاں ۔۔
تحریر عمارہ کنول
(گندی مچھلیاں)کہتے ہیں ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کرتی ہے۔ اگر وقت رہتے اس گندی مچھلی کو نکال دیا جائے یا اس کی گندگی کو صاف کر دیا جائے تو امید واثق ہے کہ تالاب پہلے کی طرح صاف شفاف ہو جائے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ایک گندی مچھلی کی نشاندہی کیسے کی جائے؟ کیونکہ اگر آپ سے سوال پوچھا جائے کہ کیا آپ اپنے کام کے ساتھ مخلص اور ایماندار ہیں تو یقیناً آپ کا جواب مثبت ہو گا ۔ اب یہ تو آپ کے ساتھ کام کرنے والا ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ اپنا کام ایمانداری سے مکمل کرتے ہیں یا سکول سے آدھی چھٹی لیکر آوارہ گردی کرنے والے سٹوڈنٹس کی طرح ، پوری چھٹی کے وقت گھر پہنچ کر ماں باپ کو تاثر دیتے ہیں کہ پورا دن سکول میں پڑھائی کر کہ بچہ تھک گیا ۔۔
کچھ معاملات میں انسان کی اپنے کام سے متعلقہ لاپرواہی برداشت ہو جاتی ہے یا پھر اتنی اہم نہیں ہوتی ۔ دیکھا جائے تو ایک جنرل فزیشن اور ایک سرجن دونوں کی اہم ذمہ داری ہے لیکن اگر جنرل فزیشن ذمہ داری دیکھاتے ہوئے اچھی طرح سے مریض کا علاج کر دے تو نوے فیصد لوگوں کو سرھن تک جانے کی ضرورت ہی پیش نا آئے ۔
ہمارے معاشرے میں ہر شخص کو یہ وہم ہے کہ وہ اہم ہے اور باقی لوگ اس پر منحصر ہیں،میں ہونا یا اناپرست ہونا دونوں آپ کی ذات تک تو ٹھیک ہیں مگر جب آپ کوئی ملازمت شروع کر دیتے ہیں تو سب سے اہم “تم ” ہو جاتا ہے یعنی دوسرا بندہ جو آپ تک اپنے کام کے سلسلے میں آیا ہے ۔
ہمیں دوسروں کے کام آنے کی جو تربیت ہمارے دین نے دی ہم نے بھلا دی ۔ مسجد سے لیکر قبر تک ہر جگہ ہم صرف اپنی ذات کو آگے رکھتے ہیں ۔ مسجد کی پہلی صف میں جگہ چاہئیے مگر جاتے دیر سے ہیں ۔ ہمیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ بس ہم ہی سب کچھ ہیں اور دوسرے محض کیڑے مکوڑے۔ کیا ہوا جو ہم کچھ لوگوں سے بہتر ہیں ؟ کیا ہوا جو ہمارا شین قاف کچھ لوگوں سے اچھا ہے ۔۔ کیا ہوا جو ہمارے پاس وسائل کچھ لوگوں سے زیادہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اچھے ہیں ہاں ہم تب خاص ہو نگے جب دوسرے ہمیں خاص سمجھیں ۔ جب ہم کسی کے کام آکر اس کی نظر میں خاص بنیں ۔
کچھ پیشے ایسے ہیں جن سے جڑے لوگ ہمیں خاص لگتے ہیں جیسے ڈاکٹر، استاد ، فوجی ، سپاہی ،صحافی اور مصنف۔
ڈاکٹر جسے مسیحا کہا جاتا ہے دن رات محنت کرنے والے، بیماری کا علاج کرنے والے۔ اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر بیماروں کی تیمارداری و تندرستی کے ضامن۔ لیکن ان میں سے کچھ انتہائی بد دماغ ہو تے ہیں ۔ پتا نہیں کیوں، ان کا دماغ اس قدر الجھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ اپنا غصہ بیمار اور زیادہ تر تیمار دار پر اتارتے ہیں ، ان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تیمار دار اپنے مریض کے لیے پریشان ہے ، وہ آپ کے جتنا علم و شعور نہیں رکھتا، آپ جانتے ہیں کہ مرض ناقابلِ علاج ہو چکا ہے مگر تیمار دار آپ سے امید لگا کہ بیٹھا ہے کہ آپ سے شفا عطا کر سکتے ہیں ۔تیمار دار دھکوں کا نہیں آپ کی ہمدردی کا طلبگار ہوتا ہے ۔اپ جیسے قابل ڈاکٹرز جن کے رویےعوام اتنی خندہ پیشانی سے برداشت کرتی ہے آپ اور آپ کے ساتھ نرسز و دیگر سٹاف آئے دن سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں اس وقت ہزاروں مریضوں پر کیا بیت رہی ہے آپ کو کیا علم۔۔ آپ کو کیا علم کہ چار نرسوں کا کام کرنے والی وہ اکیلی نرس جو آپ کی جگہ کام سنبھال رہی ہے کیسے کام کر رہی ہے ۔ سر پھاڑ رویے سے کیسے دل آزاری کا سبب بن رہی ہے آپ کو کیا علم۔۔ آپ بس روڈ بلاک کیجئے۔ آپ بس نعرے لگائیے اور ڈیوٹی کا وقت ختم ہوتے ہی احتجاج ختم کر کے تھکے ماندے گھر جا کر ریسٹ لیجئے۔ آپ بھول جائیے لوگوں کی خدمت کے اس حلف کو جو آپ نے چار پانچ سال دن رات کا سکون و نیند گنوانے کے بعد اٹھایا تھا کہ مریض کا علاج کرنا ہے یا لوگوں کی خدمت نصب العین ہے آپ بھی بھلا دیجئے جس طرح دیگر ادارے بھلا چکے ۔۔ جس طرح دوسرے لوگ “عوام کی خدمت” کو” عوام کی مرمت” سے منسوب کر چکے ہیں ۔
استاد قوم کا سرمایہ ہے بچپن سے آج تک یہی پڑھتے آئے ہیں اور یہ موضوع ایسا ہے جس کا احاطہ اس کالم میں نہیں کیا جاسکتا اگلے کالم میں تفصیل لکھوں گی بس فقط اتنا کہ استاد نا ہوں تو انسان کچھ بھی نہیں بن سکتا۔ نا ڈاکٹر نا صحافی نا فوجی نا سپاہی نا ہی مصنف نا ہی ‘منصف’۔
ایک صحافی پر بھی اسی طرح ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاملات کی طے تک پہنچے اور اپنے ماحصل سے لوگوں کو آگاہ کرے نا کہ پیسے کی خاطر اپنے قلم کا سودا کر دے۔ عقلمند را اشارہ کافی است
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نا ہوا کہ مصداق ایمانداری سے متعلقہ کسی پیشے یا رشتے کو کھنگال لیں مجمل اور کامل ایمانداری کہیں نہیں ملے گی ہم سب ایک بے ایمان دکاندار کی طرح سودا تولتے ہوئے، بات کرتے ہوئے ، کام کرتے ہوئے کہیں نا کہیں ڈنڈی مارتے ہیں اور جب بات دوسروں میں نقص نکالنے کی آتی ہے تو ہم خود مبرا ہو جاتے ہیں اور دوسرے کو ملزم ثابت کر دیتے ہیں ۔ ایمانداری کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے فرائض بخوبی انجام دیں اور مکمل توجہ سے دوسرے کی بات سنیں اس کے مطابق اس کو جواب دیں جہاں تک ممکن ہو کوشش کریں کہ اچھی بات کریں غلط مشورہ نا دیں بلکہ جب کسی کو مشورہ دیں تو مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے آگاہ کریں تاکہ دوسرا بھی اس پر سوچ بچار کر کہ عمل کرے ۔ اگر آپ کسی کا بھلا نہیں کر سکتے تو برا بھی نا کریں ۔کچھ مچھلیاں انسان کے جسم کے فنگس یا گندے مادے کھا کر انسان کی تندرستی کا سبب بنتی ہیں کوشش کریں کہ تالاب کی گندی مچھلی کے فنگس کی نشاندہی کریں اور اتنے اچھے طریقے سے کہ وہ محسوس بھی نا کرے اور اپنی عادت کو سدھارے تب ہی معاشرہ گندی مچھلیوں سے پاک ہو سکے گا ۔