Buy website traffic cheap


مولانا فضل الرحمن کا دھرنا اورملک کی سیاسی تاریخ

تحریر: انور علی

پاکستان کی سیاسی تاریخ کودیکھا جائے توآج تک جتنی بھی حکومت مخالف تحریکیں چلیں ہیں ان کو درپردہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی ہے اس وجہ سے تمام سیاسی جماعتیں مولانا صاحب کی مکمل حمایت میں ہچکچا رہی ہیں اور ابھی تک گومگو کی کیفیت سے نہیں نکل پا رہی۔دوسری طرف مولانا صاحب بھی خم ٹھونک کے میدان میں آ چکے ہیں اور دھرنے کی تاریخ کا بھی اعلان کردیا ہے اب بہت سے تجزیہ نگار ان اشاروں کی تلاش میں ہیں جن کی وجہ سے اس طرح کی تحریکیں کامیاب ہوتی ہیں۔اس بات پے سب متفق ہیں کہ مولانا صاحب ایک زیرک سیاستدان ہیں وہ کچی گولیاں نہیں کھیلتے اور سازگار ماحول کی تلاش میں رہتے ہیں اگر ہم زیادہ دور نہ جائیں تو جب نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات خراب ہوئے تو ملک میں احتجاج شروع ہوئے پھر ڈان لیکس فیض آباد دھرنا اور آخر میں پاناما کے اوپر انہیں گھر بھیجا گیا . لیکن اگر موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو ہمیں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نہ صرف ایک پیج پر نظر آتی ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ حکومت کو سپورٹ کرتی بھی نظر آتی ہے اس میں ڈیفنس بجٹ میں رضاکارانہ کٹوتی سے لے کر سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کے ساتھ مختلف میٹنگز بھی شامل ہیں ان حالات میں مولانا کا دھرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عوام مہنگائی اور صنعتکار معیشت سے بے حد پریشان ہیں لیکن اتنی جلدی اتنی بڑی تبدیلی شاید ممکن نہ ہو سکے۔دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو مولانا صاحب نے جو میڈیا پر نہ دکھانے کی پابندی تھی وہ ختم کر دی گئی ہے اب مولانا صاحب مین ہیڈلائنز میں ہیں اور ان کی پریس کانفرنسز گھنٹوں لائیو دکھائی جا رہی ہیں اس اچانک تبدیلی میں بھی کچھ لوگوں کو اشارے نظر آرہے ہیں۔اگرمولانا کی مذہبی قوت کو دیکھا جائے تو یقینا وہ بہت بڑی ہے ان کے حال ہی میں کئے گئے ملین مارچ اس کا ثبوت ہیں اس وقت اگر کوئی سب سے بڑی مذہبی جماعت ہے تو وہ جمیعت علمائے پاکستان ہے جو لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کر سکتی ہے۔ جمہوری اور غیر جمہوری ادوار میں ہمیشہ مولانا صاحب کو رام کرنے کے لیے انہیں حکومت میں حصہ دیا گیا بے چاہے وہ مشرف کا دور ہو یا زرداری اور نواز شریف کا کیونکہ کوئی بھی مولانا صاحب کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا تھا۔ آپ جب کہ مولانا صاحب کو پارلیمنٹ سے باہر کر کے اس سارے سیاسی کھیل سے آوٹ کر دیا گیا ہے اب وہ بھی اپنا حساب برابر کرنے کے لیے باہر نکل رہے ہیں سونے پہ سہاگہ یہ کہ مہنگائی اور معیشت کے برے حالات کی وجہ سے کاروباری طبقہ بھی مولانا صاحب سے مل سکتا ہے جنہیں اشارتا سمجھا دیا گیا ہے۔ آنے والے حالات اس بات کا تعین کریں گے کہ اس دھرنے کو کوئی درپردہ حمایت حاصل ہے یا نہیں اس تحریک کی ناکامی سے تحریک انصاف کو سیاسی طور پر وقتی ریلیف تو مل سکتا ہے لیکن کوئی بہت بڑی کامیابی نہیں جس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے۔ لیکن دوسری طرف اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو سیاست کا نقشہ بدل سکتا ہے جو موجودہ حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان قوتوں کے لئے بھی سیٹ بیک ہو گا جو اس نظام کے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں۔

عام لوگوں کی طرح میں بھی تجسس میں ہوں کے آخر کار اس دھرنے سے کیا برآمد ہوگا کیوں کہ جس طرح مہنگائی اور کاروباری حالات کی وجہ سے حکومت کی ساکھ متاثر ہورہی ہے اور بہت سے حلقوں میں موجودہ حکومت کی نااہلی کا تاثر ابھر رہا ہے تو کیوں آخر مولانا صاحب کو اس ریت کی دیوار کو دھکا دینے کی ضرورت پڑ رہی ہے جو چند ماہ بعد خود ہی اپنے بوجھ تلے دبنے والی ہے لیکن اس ملک میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ جب عمران خان نے دھرنا دیا تھا تو اس وقت جنرل رحیل شریف ریٹائرڈ ہو رہے تھے اور ان کی توسیع کی افواہیں گردش کر رہی تھیں اور آپ بہت سے تجزیہ نگار اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ عمران خان کے دھرنے کے پیچھے جو مختلف عوامل کار فرما تھے ان میں راحیل شریف کی توسیع والے معاملے کا بھی عمل دخل تھا۔اب چوں کہ ایک بار پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ قریب آرہی ہے جسے عمران خان پہلے ہی توسیع دے چکے ہیں تو اب بہت سے حلقوں میں پھر سے چہ مگوئیاں شروع ہوچکی ہیں کیوں کہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ زلفی بخاری کی حکومتی معاملات میں حد سے زیادہ مداخلت کو کچھ لوگ اچھا نہیں سمجھ رہے اور وہ عمران خان کو مسلسل اس بارے میں رپورٹس بجھوا رہے ہیں۔ ساتھ ہی عثمان بزدار کی بھی بے جا سپورٹ کی وجہ سے ادارے عمران خان سے اختلاف کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ممکن ہے عمران خان اپنے توسیع والے معاملے پر یوٹرن لے لیں۔ اگر یہ خدشات درست ہوئے تو پھر حالات خرابی کی طرف جا سکتے ہیں اور اس طرح دھرنے اور احتجاج سے حکومت کو گھر بھیجنے کی روایت اچھی نہیں ہوگی اس داخلی انتشار کا یقینا کشمیر کاز کو بھی نقصان ہوگا جو پہلے ہی بہت ہو چکا ہے۔ دوسری طرف مولانا صاحب کو کاؤنٹر کرنے کے لئے بھی کسی حد تک انتظام کر لیا گیا ہے جس کا ثبوت مولانا طارق جمیل کا عمران خان کو درویش قرار دینا اور ان کے ریاست مدینہ کے نعرے کو سراہنا ہے جب کہ مولانا طاہر اشرفی نے بھی عمران خان کو اسلام کا مبلغ قرار دیتے ہوئے انہیں اپنا جبہ عطا کیا ہے عمران خان کی مدارس میں تعلیمی اسناد کی تقسیم اور وفاق المدارس کا حکومتی اقدامات کو سراہنا بھی مولانا کے لیے پیغام سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ تو یہی رہی ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو اس کے معاملات کچھ عرصے بعد اداروں سے خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں کیوں کہ وہ خود کو واقعی ہی فیصلہ کن قوت سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن سے معاملات طے کرنا شروع کر دیتی ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں اپوزیشن نہ صرف حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ اسے سلیکٹڈ کہہ کے درپردہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اب اس صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا مل کے چلنا ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی لیکن یہ مجبوری کس حد تک اپوزیشن کو روکنے میں کامیاب ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ آنے والا وقت یہ بھی طے کرے گا کہ آیا یہ احتجاج ماضی کے  دھرنوں جیسا ہی ہے جس میں حکومتوں کو کمزور کیا گیا یا اس سے کچھ اور برآمد ہوگا