Buy website traffic cheap

اندھی عقیدت

اندھی عقیدت … کالم نویس اسماء طارق

اندھی عقیدت
تحریر: اسماء طارق
(اندھی عقیدت)عدالت میں ایک سے فیصلہ آتا ہے مگر پوری قوم کچھ جانے بغیر ایک شخص کی پیروی میں سڑکوں پر نکل آتی ہے آگ لگاتی ہے ٹائر جلاتی ہے اور پورے ملک میں دہشت پھیل جاتی ہے۔ فلاں فرقے کا مولوی اعلان کرتا ہے کہ فلاں کافر ہے تو سارے مکین علاقہ ایک پل سوچے سمجھے بغیر اس بات پر تصدیق کرتے ہیں اور فلاں شخص کو جہنم واصل کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ تحریک انصاف کے عمران خان یو ٹرن کے حق میں دلیل دیتے ہیں تو پوری تحریک انصاف جناب صدر تک یہ جانے بغیر کہ یو ٹرن کیا ہے اپنے لیڈر کو سچا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور تبدیلی کے دیوانے لبیک کی صدا لگائے پھرتے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو ایک خواب دیکھتے ہیں ،خواب کی حقیقت جانے بغیر ساری پیپلزپارٹی اور جیالے سبحان اللہ سبحان اللہ پکار لگائے پھرتے ہیں۔
سسر بہو پر شک کا اظہار کرتا ہے کہ بیٹا ایک سینڈ میں کوئی بات سنے بغیر بیوی کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ جنڈ میں ایک شخص کہتا ہے کہ فلاں کا کردار اچھا نہیں،ایک پل سوچے بغیر کہ وہ سچ کہ رہا کہ نہیں سب اسے بدکردار کو جڑ سے مٹانے چلے جاتے ہیں۔ نجی ٹی وی کا ایک اینکر عوام سے ایک انٹرویو لیتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ حکومت ٹک ٹاک کو بند کرنے جارہی ہے (جو کہ موبائل اپلیکیشن ہے جس میں نوجوان وڈیوز بناتے ہیں) تو ایک بھی شخص اس سے نہیں پوچھتا کہ یہ کیا ہے چند افراد کہتے کہ اچھی بات ہے اور باقی سب کہتے سڑکوں پر نکل آئیں گے،آگ لگا دیں گے کیونکہ غریب بھوکا مر جائے گا۔۔باقی عوام ٹی وی دیکھ رہی اور ہنس رہی ہے کہ کتنے بیوقوف ہیں حالانکہ اگر ان سے کہا جاتا تو انہوں نے بھی سڑکوں پر ہی نکلنا تھا۔
لڑکا سکول سے واپس آتا ہے ماں کو بستہ تھماتا ہے اور اپنا بلا لے کر بھاگتا ہے۔ماں پوچھتی ہے کہاں جارہے ہو تو کہتا ہے کسی کی پٹائی ہو رہی اسے مارنے۔ ماں کہتی ہے کیوں تو لڑکا کہتا پتا نہیں پر مجھے دیر ہو رہی ہے کہیں وہ بھاگ نہ جائے میرے سب دوست وہاں اسے مار رہے ہیں ۔۔
آپ سب سوچ رہے ہونگے یہ سب کیا ہے اتنی لمبی تمہید کس لیے، تو جناب والا یہ سب ہمارے رویے ہیں جو حقیقی صورتحال سے زیادہ خطرناک اور بدصورت ہیں۔ ہم نہ سوچتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں بس جس ڈگر کچھ چل رہا ہوتا ہے ہم بھی چل پڑتے ہیں ۔ کوئی جو کچھ بھی کہہ رہا ہے تو ہمیں کیا ہم تو بس لبیک کہتے ہیں اور خاص طور پر جب ہم اس سے عقیدت رکھتے ہو تو پھر تو یقین اور بڑھ جاتے ہے، ہم آندھی عقیدت رکھتے والے لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں ہر ایک کی اندھی تقلید کی جاتی ہے کوئی سیاستدانوں کا پیروکار ہیتو وہ آنکھ بند کر کے اپنے لیڈر کی پیروی کرے گا۔جو اس کا لیڈر کہ رہا ہے بس وہی ٹھیک ہے چاہے وہ کچھ بھی کہ رہا ہو ۔ نہ ہم اسے جاننے کی اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں بس وہ جو کہ رہا ہے وہی اٹل ہے ۔ کیونکہ ہمیں ڈر ہوتا ہے اگر ہم نے ذرا سا اپنا دماغ استعمال کیا اور اس کی مخالفت میں کچھ سوچ لیا یا کہ دیا تو ہماری عقیدت میں کمی آ جائے گی۔ اور یہی حال ہمارے دینی اور دیگر پیروکاروں کا ہے کیونکہ ہم جس کی تقلید کریں گے سو فیصد کریں گے آنکھیں بند کر کہ بنا سوچے سمجھے کہ وہ جو کہ رہا ہے وہ کیا ہے اور ٹھیک بھی ہے کہ نہیں ۔
کسی سے عقیدت رکھنے یا کسی کا پیروکار ہونے کا ہر گز مطلب یہ تو نہیں ہوتا ہے کہ آپ اس کی اندھی تقلید شروع کر دیں۔ وہ بولے دن تو آپ بھی دن بولیں وہ بولے شام تو اپکی شام ہوگئی۔۔یہ عقیدت نہیں ہے، بیوقوفی ہے کہ آپ نے اپنے دماغ سے کام لینا ہی بند کر دیا ہے اور سوچنا سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔ جب کہ آپ بھی ایک انسان ہیں جس کی اپنی سوچ ہے اپنا دماغ جو کام بھی کرتا ہے اور سوچتا سمجھتا بھی ہے۔۔اپنا نظریہ ہونا ہر شخص کا حق اور بیان کرنا بھی،اسی طرح قبول کرنے سے پہلے دوسروں کے نظریوں کو جانچنا اور پرکھنا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے ۔۔اس سے نہ تو کسی کی عقیدت میں کمی ہوتی اور نہ کسی کی تذلیل ہوتی اور ہمارا مہذب تو خود ہمیں سوچنے سمجھنے اور کھوجنے کی ترغیب دیتا ہے مگر اسی کھوج اور سمجھ سے دوری کے نتیجے میں ہم یہ نقصان اٹھا رہے ہیں اور بیوقوف بن رہے ہیں اور اس کی ہماری بے خبری اور اندھی عقیدت ہے۔ اب جیسا کہ اپنی رائے ہونا تو بہت ہی اچھی بات ہے مگر دوسروں کی رائے کا احترام بھی لازم ہے۔
ہمیں کسی بھی بات پر ردعمل دینے سے پہلے کم از کم ایک بار سوچ لینا چاہیے کہ یہ کیا ہے اس کا مطلب کیا،کہنے والے نے ایسے ہی تو نہیں کہا۔ بات میں سچائی ہے کہ نہیں، فیصلہ قانون کے مطابق ہے کہ نہیں، فلاں شخص کافر،چور ڈاکو ہے بھی کہ نہیں بعد میں پچھتانے سے بہتر ہے پہلے جانچ پڑتال کر لیں اور اگر ہم اس سوچ کو زندگی کے ہر میدان میں شامل کرلیں تو چیزیں کافی حد تک درست ہو جائیں گی۔ فلاں چیز کیا ہے اور اس کے ہونے سے اثرات کیا پڑیں گے ہمیں کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے ہمارا ایک غلط قدم پوری قوم کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہم ایک جذباتی اور فوری ردعمل دینے والی قوم ہیں،ہم سوچتے سمجھتے نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور انہی جذبات میں ہم نے بہت سے نقصانات اٹھاتے آئے ہیں۔ مگر اب اس عوام کو پہلے سوچنا ہوگا پھر ماننا ہو گا تب ہی کوئی درد عمل دینا ہے کیونکہ جب تک رویے بہتر نہیں ہونگے تبدیلی نہیں آ سکتی ہے
اور ترقی دراصل رویوں ہی کی ترقی ہے ۔