Buy website traffic cheap

قابل برداشت

قابل برداشت جب رہتا نہیں دردحیات… کالم نویس کنول زریں

قابل برداشت جب رہتا نہیں دردحیات
تحریر: کنول زریں
(قابل برداشت جب رہتا نہیں دردحیات)انسان اپنی نفسی خواہشات کا غلام بن چکا ہے۔ بچہ، نوجوان اور بوڑھا ہر بندہ کسی نہ کسی طرح اپنی خواہشات کے حصار میں قید ہے۔ انسان جسے اشرف المخلو قات کا درجہ عطا کیا گیا ہے۔ تمام دوسری مخلوقات سے اسکو اسکی طرز زندگی، سوچ و افکار کے وسیع و مختلف انداز کی بدولت فو قیت حاصل ہے۔ اسکا دماغ اور ذہن بہت وسیع ہے اسکی یہی خاصیت اسکو باقی تمام مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے۔ انسان اپنے اچھے، برے صحیح اور غلط میں تمیز کر سکتا ہے۔ لیکن اسکے باوجود اسکی عقل و شعور کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں اور وہ خدا کی دی ہوئی نعمتِ زندگی سے چھٹکارا پانے کے لئے خودکشی جیسے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ موجودہ دور جسکو سائنس و ٹیکنالوجی کا دور بھی کہا جا تا ہے۔ اس میں انسان خودکشی کی طرف مائل ہو رہا ہے اور اس کے رحجان میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خودکشی عالمی سطح پر انسانی سماج کے لئے ایک بہت سنگین مسئلہ اختیار کر چکا ہے۔ دنیا میں ہر چالیس سکینڈ میں ایک شخص خود کشی کا ارتکاب کرتا ہے اس حساب سے مجموعی طو رپر تعداد لاکھوں میں شمار کی جا سکتی ہے۔ اگر اعدادو شمار کیا جائے تو دنیا میں سالانہ دس لاکھ لوگ خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ خود کشی کی کوشش کرنے والوں میں ہر بیس میں سے ایک شخص اپنی زندگی کا دیا بجھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ باقی انیس افراد ناکام رہتے ہیں۔ خود کشی کے ذریعے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا رحجان پندرہ سے پچیس سال کی عمر یعنی ٹین ایجر اور نوجوانوں میں زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔
خود کشی کی بہت سی وجو ہات میں دورِ حاضر کی اہم وجہ سمارٹ فون کا کثرت سے استعمال بھی ہے۔ امریکہ کی ایک یونیورسٹی کے محققین نے اپنی تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ نو عمروں کا موبائل اسکرین پر گزارا جانے والا وقت ان میں ڈپریشن اور خود کشی کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔ ایک اور جگہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ نوجوان جو موبائل اور کمپیوٹر اسکرین سے ہٹ کر کھیل کود، دوستوں سے روبرو ملاقاتوں، گھریلو کاموں میں زیادہ دلچسپی لینا اور اپنی فیملی کو زیادہ وقت دیتے ہیں وہ نسبتاً زیادہ خوش رہتے ہیں۔ اور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 48 فیصد نو عمر بچے جو پانچ یا اس سے زیادہ گھنٹے الیکٹرانک آلات کا ستعمال کرتے ہیں ان میں خودکشی کی ذہنیت کو واضح طور پر محسوس کیا گیا ہے۔ پر تشدد مناظر یاس و قنوطیت اور بالآخر خودکشی پر ابھارنے والے گیمز بچوں کو نفساتی طور پر بالکل تباہ کر رہے ہیں۔ بلیو وھیل اور اب مومو گیم چیلنج، جیسی گیمز نو عمروں کو اپنی طرف راغب کر رہی ہیں۔ بلیو وھیل گیم جس نے کئی لوگوں کی جان لی ہے اور اب ایک نئی گیم مومو گیم چیلنج نے بھی اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے ہیں جسکا نشانہ کولمبیا میں 48 گھنٹوں کے دوران ایک16سالہ لڑکے اور ایک 12 سالہ لڑکی کی خودکشی کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔
دورحاضر میں ہونے والے بہت سی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ نوجوان نسل میں خود کشی کے رحجانات گزشتہ کئی دہائیوں کی نسبت بہت بڑھ چکے ہیں۔ بلکہ نوجوان طبقے میں کوخود کشی کرنے والوں میں زیادہ تعدا لڑکیوں کی ہے۔ امیرکہ میں اسکا تیسرا نمبر ہے۔ ایران کے مغربی صوبے عیلام کے شہر ایوان کو خود کشی کے وسیع رحجان کے سبب شہرت حاصل ہے۔ اسکا یہ شہر جسکی ایک تہائی آبادی خودکشی کر چکی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان میں کوئی آفیشل نیشنل ڈیٹا ریکارڈ موجود نہیں کہ جس سے اندازہ ہو سکے کہ پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر ہونے والی خود کشیوں کی شرح کیا ہے۔ 1995 میں ریکارڈ کئے گئے ایک معلومات کے مطابق عورتوں کی شرح 25۔65 فیصد اور مردوں کی شرح 10سے25 فیصد ہے۔ جبکہ پنجاب اور سندھ میں یہ شرح دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ صوبہ پنجاب میں ہر برس 6 ہزار افراد سے زائد اقدامِ خود کشی کرتے ہیں۔ پچھلے سال کے صرف اگر پہلے7 ماہ کو دیکھا جائے تو اس دوران 2458 سے زائد مردوں و خواتین نے موت کو گلے لگایا۔ صوبائی دارالحکومت میں گزشتہ 7 ماہ کے دوران خودکشی کے 412 جبکہ ا قدام خودکشی کے1800 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ ذرائع کے مطابق خود کشی اور اقدامِ خودکشی کے متعدد واقعات رپورٹ نہیں ہوئے یا شہریوں نے بدنامی کے ڈر سے اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر یہ واقعات منظر عام پر نہیں آنے دئیے۔ پاکستان میں خود کشیوں کے رحجان کے حوالے سے کراچی پہلے اور لاہور دوسرے نمبر پر ہے۔
خودکشی روبروز ایک ناسور کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اسلام نے خودکشی جیسے گھناؤنے فعل کو حرام قرار دیا ہے اور فرمایا کہ جو کوئی بھی یہ عمل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے خدا نے انسان کی تخلیق کی اور اسکو زمین پرا پنا نائب مقرر کیا۔ ہماری زندگیاں خدا کی دی ہوئی امانت ہیں ۔ بنی نوع انسان کو اس کو ختم کرنے کا کوئی حق نہیں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:۔’’ اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ بے شک اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے اور جوکوئی تعدی اور ظلم سے ایسا کر ے گا تو ہم عنقریب اسے دوزخ کی آگ میں ڈال دیں گے اور یہ اللہ پر بالکل آسان ہے۔‘‘ہمارا مذہب اسلام خودکشی کو درکنار مایوسی اور جو خود کشی کی طرف بڑھنے والا پہلا قدم ہے اس کو بھی حرام قرار دیتا ہے۔ اسلا م خود کشی کی کسی تو جیہ کو قبول نہیں کرتا حتی کہ شدید بیماری اور معذوری کی حالت میں بھی نہیں۔ حضرت ایوب علیہ اسلام نے کئی برس بیماری کی شدت میں گزارے لیکن صبر کا دامن اس یقین کے ساتھ نہیں جانے دیا کہ جس خدا نے اس آزمائش میں ڈالا ہے وہ ضرور اس میں سرخرو بھی کرے گا۔ اور ان کے اس یقین کی بدولت خدا نے ان کو شفا ئے کامل عطا فرمائی۔
خود کشی کے رحجانات کو کم کرنے کے لئے سب سے پہلے والدین کو اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ ان کو مذہب سے مکمل آگاہی دی جانی چاہئے، غلط اور صحیح میں تمیز کرنی سیکھائی جائے گھریلو ناچاقیوں کو بچوں پر ہر گز ظاہر نہ ہونے دیا جائے۔ بچوں کو زندگی کے نشیب و فراز، سرد و گرم، تلخ و ترش حالات کا مکمل طو ر پر علم فراہم کریں۔ بچوں کو مسائل کاڈٹ کر مقابلہ کرنے اور انہیں حل کرنے کا ہنر سکھائیں، بچوں پر کسی بھی قسم کا دباؤ ڈالنے کے بجائے ان میں امید، حوصلہ اور ہمت کو جاگزیں کریں۔ والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ پر بھی یہ ذمہ داری مکمل طو رپر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کے مسائل اور ان کی ذہنی حالت کا صحیح ادراک کریں ان کے ذہنوں میں محنت اور جستجو کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ بتا ئیں کہ مسلسل محنت و جستجو سے مشکل اور ناممکن سے ناممکن کام کو آسان اور ممکن بنا یا جا سکتا ہے۔ موت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔یہ ایک بزدلانہ اور حرام فعل ہے ان کو بتائیں کہ زندگی میں جتنی بھی مشکلیں آئیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں ان سے فرار اختیار کرنے کے لئے اپنی جان گنوانا کوئی بہادری نہیں ہے بلکہ اپنی زندگی سے مسائل و مشکلات کو فرار ہونے پر مجبور کر دینا ہی اصل بہادری ہے۔
اساتذہ اور والدین طلبہ اور نوجوانوں کی ذہن سازی کو اولیت دیں اور بتائیں کہ ہر مشکل سے باہر نکلنے کاراستہ موجود ہے لیکن نوجوانوں کو وہ راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین، اساتذہ اور سماجی ذمہ داران ان نئی نسل کو نا امیدی، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کو کم کرنے اور اس سے نجات پانے کے طریقوں کی تعلیم و تربیت فراہم کریں۔ اذیت ناک و واقعات، تکالیف سے باہر نکلنے کا حوصلہ اور طریقے، معاشی، معاشرتی اور سماجی دباؤ کو کنٹرول کرنے کے گر سکھائیں۔ خود کشی کے واقعات پر مکمل قابو پانا یقیناً ناممکن ہے۔ لیکن اس میں کمی ضرور لائی جا سکتی ہے۔ شعور و آگہی، کونسلنگ و رہنمائی جیسے اقدام خود کشی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔