Buy website traffic cheap

سیرت النبی

سیرت النبی کی روشنی میں غربت کےخاتمہ کیلئے تجاویز… کالم نویس راشد علی

سیرت النبی کی روشنی میں غربت کےخاتمہ کیلئے تجاویز
راشد علی
(سیرت النبی کی روشنی میں غربت کےخاتمہ کیلئے تجاویز)(گزشتہ سے پیوستہ)۴۔محنت وروزگار کافروغ:ہمارے معاشرے میں غربت کا ایک سبب سستی ،نااہلی اورنکماپن بھی یقینا ہوسکتاہے اس امر سے اختلاف نہیں ہے کہ لاپرواہی سستی اورہٹ دھرمی معاشرے کوسدھارنے کی بجائے بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ایسے لوگ ہاتھ کی کمائی کوعار سمجھتے ہیں ۔جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے سوتم اس کے راستوں پر چلوپھر واور اس کے عطاکردہ رزق میں سے کھاﺅ۔محنت کرنے والے کو رسالت مآب نے اللہ تعالیٰ کا دوست قرار دیا ہے۔ہاتھ سے کمائی کی عظمت اوراچھائی کو بیان کیا گیا ہے۔محدثین کتب احادیث میں باقاعدہ باب کسب حلال قائم کیا ہے جس کا مطالعہ از بس ضروری ہے۔رسالت مآب نے فرمایا ہاتھ سے کماکر کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہوسکتا اوراللہ کے نبی حضرت داﺅد علیہ السلام ہاتھ سے کما کرکھاتے تھے۔دوسرے مقا م پر ارشاد فرمایا” تم میں سے کسی ایک کا اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کاگٹھا اٹھانا یعنی لکٹریاں بیج کرکمانا اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے ۔پھر اسے کوئی دے یا نہ دے ۔مولانا حالی حالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
غریبوں کو محنت کی رغبت دلائی
کہ بازوسے اپنے کروتم کمائی
خبرتاکہ لواس سے اپنی پرائی
نہ کرنا پڑے تم کو دردرگدائی
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا وہ کچھ مانگ رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے ؟ کہنے لگا کیوں نہیں ، ایک کملی سی ہے ، اس کا ایک حصہ اوڑھ لیتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس سے پانی پیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ دونوں میرے پاس لے آ¶ ۔ چنانچہ وہ لے آیا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا کون یہ چیزیں خریدتا ہے ؟ ایک شخص نے کہا : میں انہیں ایک درہم میں لیتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے ؟ آپ نے دو یا تین بار فرمایا ۔ ایک اور شخص نے کہا :میں ان کے دو درہم دیتا ہوں ۔ چنانچہ آپ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم لے لیے اور وہ دونوں اس انصاری کو دے دیے اور اس سے فرمایا ایک درہم کاغلہ خریدو اور اپنے گھر والوں کو دے آ¶ اور دوسرے سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آ¶ ۔ چنانچہ وہ لے آیا تو آپ نے اس میں اپنے دست مبارک سے دستہ ٹھونک دیا اور فرمایا جا¶ ! لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں ۔ چنانچہ وہ شخص چلا گیا ، لکڑیاں کاٹتا اور فروخت کرتا رہا ۔ پھر آیا اور اسے دس درہم ملے تھے ۔ کچھ کا اس نے کپڑا خریدا اور کچھ سے کھانے پینے کی چیزیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اس سے بہتر ہے کہ مانگنے سے تیرے چہرے پر قیامت کے دن داغ ہوں ۔ بلاشبہ مانگنا روا نہیں ہے سوائے تین آدمیوں کے ازحد فقیر محتاج خاک نشین کے ، یا بے چینی میں مبتلا قرض دار کے ، یا دیت میں پڑے خون والے کے”جس پر دیت لازم ہو“۔(ابوداﺅد ۱۴۶۱)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت کی عظمت کو بیا ن کیا ہاتھ سے کمانے والے کے ہاتھ کا بوسہ لیا ۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیک مانگنے کی تعلیمات نہیں دیں بلکہ ہاتھ سے کمانے کی رغبت دلائی ۔
رسالت مآب نے فقر وفاقہ ، غربت اور بے روزگاری کے خاتمے پر خاص توجہ دی ہے، غربت اور بے روزگاری ایسے مسائل ہیں جو معاشرے کو نہ صرف اخلاقی اعتبار سے نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ عقائد پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، غربت اور بے روزگاری کے شکار یہ افراد یا تو شراب کے عادی ہوجاتے ہیں یا بسا اوقات بے روزگاری کے باعث قتل وغارت گری جیسے جرائم میں بھی ملوث ہوجاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے دعاءکرتے تھے کہ اللہ تعالی فقروفاقہ سے محفوظ رکھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقر ومحتاجی اور کفر سے حفاظت کے لیے ایک ساتھ یہ دعاءکرتے تھے” اللھم انی اعوذبک من الکفر وافقر“ اے اللہ میں کفر اورمحتاجی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔
سودی معیشت : سودی معیشت غربت میں اضافہ باعث بنتی ہے ۔کوئی شک نہیں کہ عالم اسلام میں آج غربت کی شرح ترقی کے وسائل کے بارے میں سرد مہری، سودی قرضوں کے بوجھ، اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کمزوری کی وجہ سے ہے۔پاکستان بقول وزیراعظم روزانہ کی بنیادوں پر چھ سوکروڑ سود ادا کرتا ہے ۔اسی رقم سے غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاسکتی ہے ۔اگر سارا پاکستان پڑھا لکھا ہوگا تو یقینا خوشحالی اورترقی کا دور دورہ ہوگا۔بدقسمتی سے خوشحالی کا دروازہ منصوبہ بندی سے جوڑا گیا ہے ۔اس فکر پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے ۔ضرورت اس امر کی تھی کہ کاروبار کے ذرائع تلاش کیے جاتے ۔وسائل کی تقسیم کو یقینی بنایا جاتا چوری کرپشن کا خاتمہ کیا جاتا ۔مگر افسوس بنیادی کام کرنے کی بجائے غیر اہم کاموں پر قوم اورریاست کا وقت برباد کیا جارہا ہے۔
رہی بات غریبوں کی چنگیری کے اردگرد کتوں کی مشابہت اس ذہنی پستی پر صرف یہی کہوں گا۔ابو ذر الغفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں موجود تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم مجھے دیکھ کر بتاو کہ مسجد میں تمہارے سامنے کون سا شخص سب سے بلند تر حیثیت کا مالک ہے ، میں نے اس بات کا جائزہ لیا تو وہاں ایک شخص حلہ پہن کر ، لوگوں کے ساتھ بیٹھا بات چیت کر رہا تھا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیا کہ یہ والا شخص (بلند تر حیثیت کا مالک ہے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس بات کا جائزہ لو ، تمہارے سامنے کون سا شخص سب سے کم تر حیثیت کا مالک ہے ، میں نے جائزہ لیا تو وہاں ایک غریب سا شخص پرانے سے کپڑوں میں بیٹھا تھا میں نے عرض کیا کہ یہ والا شخص (سب سے کم تر حیثیت کا مالک ہے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ (غریب ، کم تر حیثیت کا مالک) قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس (امیر ، بلند تر حیثیت کے مالک) جیسے زمین بھر کے لوگوں سے بہتر ہوگا۔۔۔۔جاری ہے۔