Buy website traffic cheap

فکری کم ظرفی

فکری کم ظرفی… کالم نویس سلمان احمد قریشی

فکری کم ظرفی
سلمان احمد قریشی
(فکری کم ظرفی)میڈیا ہماری زندگی کا جزو لا ینفک بن چکا ہے ، کیونکہ یہ وہ حقیقت ہے جو معاشرے پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے ۔ میڈیا کی دنیا ایک وسیع سمندر ہے ، اس پر قابو پانا ممکن نہیں۔ ماضی کے بر عکس میڈیا ریاستی کنٹرول میں نہیں مگر میڈیا سے وابستہ کارکن صحافیوں کے مسائل پہلے سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہوئے ہیں۔ پریشر صرف حکومت ہی کے نہیں ہوتے، دباؤ اور بھی بہت سے ہیں جن کا سامنا ایک کارکن صحافی کو کرنا پڑتا ہے ۔ جیسے جیسے صحافی تنظیموں کی تعداد بڑھتی گئی مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے گئے۔ ہمیں ادراک ہونا چاہئے کہ ہماری سمت درست ہے اور خطرات کیا ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے ۔ آزادی صحافت کی بات کرتے ہوئے میڈیا کی وسعت ، گہرائی کا صحیح اندازہ لگائے رکھنا بھی ضروری ہے ۔ صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد کا اتنا بڑا میلہ پہلے نہیں دیکھا جتنا آج نظر آتا ہے ۔ کل وقتی ، فری لانسر ز ، مقامی صحافی اور جزو قتی صحافیوں کے مسائل ایک جیسے نہیں ۔ کل وقتی صحافی ملازمت میں عدم تحفظ اور فیلڈ میں جانی خطرات کی موجودگی میں اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں تو فری لانسرز ان گنت مسائل اور دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں زمینی خداؤں کے سامنے سینہ سپر ہیں ۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں میں اس زندہ بیدار قبیلے کا ادنیٰ سا رکن ہوں ،جو قلم کی حرمت کا امین ہے وہ قابل فخر ہے اور قابل تقلید بھی، مگر دوسری طرف اپنے کاروباری معاملات کو پریس کارڈ کے پیچھے چھپانے میں مصروف نیم خواندہ جزو وقتی صحافی ہیں جو فکری طور پر صحافی بھی نہیں مگر شوق صحافیوں کی نمائندگی کرنے کا رکھتے ہیں۔ ان کو ریڈی میڈ صحافی ہی کہا جا سکتاہے ۔نہ تعلیم کی ضرورت نہ تربیت کی خواہش، مفادات کے اسیرریڈی میڈصحافیوں کا ہی اعجاز ہے کہ وہ سیکیورٹی اور بزنس کے بدلے پریس کارڈ جیب میں ڈالے اپنی کریڈٹ لائن سے بھی بے خبر خود کو معاشرے میں بطور صحافی متعارف کرواتے نظر آتے ہیں۔نہ خبر لکھنے کا سلیقہ ،نہ لائیو کوریج کا ڈھنگ،مگر خود کو صحافی تنظیموں سے نتھی سچائی کے دشمن ہیں۔ قارئین کرام ! اس موضوع پر میرے کالم آکاس بیل، نیاکالم نگار، ریڈی میڈ صحافی، رہتی ہے پرواز کی خوش فہمی انکو، خواہشات اور مبارکباد، خود پرستیاں الغرض مطبوعہ شدہ کالموں پر مشتمل کتاب ریڈی میڈ صحافی میں اس بنیادی نقطہ پر صحافی برادری کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کر چکا ہوں۔ مجھے ایسا کوئی گمان نہیں کہ میں کوئی بڑا لکھاری ہوں ، کسی بڑے ادارے سے بھی منسلک نہیں اس لئے اس بنیادی مسئلہ پر جب بھی قلم اٹھاتا ہوں میرے اختلافی نقطہ کو دشمنی ہی سمجھا جاتا ہے۔مگر میں نہیں بھول سکتا مولانا غلام رسول مہر مرحوم کے ایک مضمون کی سرخی تھی “آزادی صحافت اپنے دامن پر جزوی آلائشوں کا دھبہ بھی برداشت نہیں کر سکتی”۔ آج فیض احمد فیض ،مولانا غلام رسول مہر ،نثار عثمانی، منہاج برنا، جیسی شخصیات بھی موجود نہیں ۔سوال رہبری کے ساتھ فکری شعور کا بھی ہے ۔میڈیا انڈسٹری تو وسعت اختیار کر گئی مگر سوچ کا کینوس وسیع نہ ہو سکا۔غور طلب بات تو یہ بھی ہے جب کبھی کسی این جی او یا پریس کلب کی طرف سے آزادی صحافت پر کوئی مباحثہ یا سیمینار منعقد کیا جاتا ہے تو گنے چنے صحافی جو روز سات بجے سے گیا رہ بجے تک چینلز پر نظر آتے ہیں۔آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں مگر کچھ ابلاغی ارسطو جو عوام کو حالت حاضر ہ سے روشناس کرواتے ہیں ایسے موضوعات کو چھیڑتے ڈرتے ہیں ۔آزادی صحافت کی بات کرتے ہوئے ہمیں اس سوال کا جواب جاننا بھی ضروری ہے کہ مطیع اللہ جان ، طلعت حسین، مرتضیٰ سولنگی اور امتیاز عالم کو نوکریوں سے ہاتھ کیوں دھونا پڑا ۔پریس کلب اور دیگر فورم پر آزادی صحافت کی بات کرنے والے اپنے چینلز اور پروگرام میں اس موضوع پر بات کیوں نہیں کرتے ۔اس معصومانہ سوال کا جواب ضروری ہے دوسری طرف مقامی سطح پر فری لانسر ز صحافیوں کی تنظیمیں ،کاغذی یا رسمی کاروائی کی حد تک ہیںیا حکومت اور دیگر پریشرز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں یا معاملہ صدارت اور رکنیت سازی تک ہی گھومتا رہتا ہے۔پریس کلب کی سیاست ہمیشہ سے ایک مشکل کام ہے ، ملک بھر میں نئے سال کے آغاز کے ساتھ پریس کلبز کے انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔ پنجاب کے سب سے بڑے پریس کلب لاہور پریس کلب میں 2019کیلئے ارشد انصاری،شہباز میاں کو شکست دے کر صدر منتخب ہوئے۔ ارشد انصاری اس سے قبل 2016ء میں بھی صدر لاہو ر پریس کلب تھے۔
2017ء میں پروگریسو جرنلسٹ پینل کے شہباز میاں ، 2018ء میں پروگریسو پینل ہی کے اعظم چوہدری صدر رہ چکے ہیں۔ یہ الیکشن کسی عام کارکن صحافی کیلئے لڑنا بھی ممکن نہیں کیونکہ فکری ہم آہنگی اور شعور کے ساتھ دولت کا کردار اہم ہے۔جس طرح سیاست میں نظریات کی حیثیت ثانوی اور دولت کا استعمال زیادہ نظر آتا ہے نظریات کے مینار کم روشن اور جہاز کی پرواز زیادہ اثر پذیر ہے۔ اسی طرح ہر چھوٹے بڑے پریس کلب میں اجارہ داری ، گروپنگ ، ممبر شپ کے معاملات پر اختلافات موجود ہیں۔کیونکہ اہل قلم کا یہ فورم وکلاء برادری کی طرح ون ممبر ون ووٹ کے ذریعے قیادت کے انتخاب کی قابل تعریف روایت نہیں رکھتا۔اوکاڑہ پریس کلب بھی اختلافات اور نقص امن کے خدشات پر بندش کے 9ماہ بعد ڈی سیل ہو چکا ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے اوکاڑہ پریس کلب میں خفیہ بیلٹ کے ذریعے ظفر چوہدری 2015-16میں پہلی بار صدر منتخب ہوئے یعنی پہلے منتخب صدر کا اعزاز انکے حصے میں آیا، اس سے قبل وہ 6 مرتبہ باہمی مشاورت سے صدر نامزد ہوتے رہے۔2015-16 میں خفیہ رائے شماری کے اصول کے بعد 2017ء میں جب عتیق الرحمن چوہدری بلا مقابلہ صدر کامیاب ہوئے تو معاملات اختلافات کی بھینٹ چڑھ گئے۔ہم اس جمہوری روایت کوجاری نہ رکھ سکے اب الحمداللہ 2019ء کے لئے دوبارہ باہمی اتفاق رائے سے معاملات چلانے پر متفق ہونے کے نتیجہ میں نئے عہدیداروں کا چناؤ عمل میں لایا گیا جس میں راقم الحروف بطور سینئر نائب صدراوکاڑہ پریس کلب منتخب ہوئے۔ ہم اس عزم کے ساتھ معاملات چلانے کے خواہشمند ہیں کہ جمہوری روایات قائم ہوں اور ضمیر کی آواز پر فیصلہ کا موقع سب کو میسر آئے اورآئندہ بھی خفیہ را ئے شماری کی روایت ہی کو زندہ رکھا جائے ۔2019ء میں جہاں شہباز شاہین کو صدر منتخب کیا گیا پہلی دفعہ تا حیات چئیر مین کی جگہ ظفر چوہدی کو چئیر مین پریس کلب منتخب کیا گیا تا کہ آئندہ چئیر مین کے عہدہ پر بھی انتخاب رائے کا طریقہ اپنایا جائے اورہم با وقار ، وضع دار ،با وفا، اہل ظرف کہلوانے کی کوشش کریں نہ کہ معاملات کو ریڈی میڈ صحافیوں کے ہاتھوں میں دے دیں،زلت اور خواری کے ساتھ اختلافات کا شکار ہو جائیں اس سے بچنا ضروری ہے۔2019ء کے حوالہ سے پشاور پریس کلب میں خاتون رپورٹر انیلہ شاہین کا بطور نائب صدر چناؤ خوش آئند تبدیلی ہے۔ صحافی برادری میں تقسیم دولت یا جنس کی بنیاد پر نہ ہو ایسا ماحول قائم کرنا ضروری ہے کیونکہ قلم ہی ایسی تسلیم شدہ حقیقت ہے جو قوم کی روح کو صحیح اور پاکیزہ غذا فراہم کرتا ہے۔ معاشرہ کبھی راہ راست سے نہیں بھٹک سکتا اگر آزادی صحافت کے خالی نعرے ہی نہیں بلکہ حقیقی مسائل پر توجہ دی جائے ۔ پریس کلب میں نمبر گیم کے ساتھ شعوری پختگی پر بھی زور دیا جائے ، صحافیوں کی تعلیم و تربیت کو بھی مد نظر رکھا جائے ممبر شپ کیلئے صحافتی تجربہ کے ساتھ کردار اور اقدار کو بھی دیکھنا ضروری ہے کیونکہ جبر ،ظلم اور دیگر پریشرز کے ساتھ فکری کم ظرفی ہی سچائی کی سب سے بڑی دشمن ہے اور ہمیں اس دشمن سے بھی لڑنا ہے۔