Buy website traffic cheap

تاریخ کے اوراق

تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو… کالم نویس شعبان جھلن شعبانؔ

تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو!
تحریر: شعبان جھلن شعبانؔ
(تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو)تاریخ گواہ ہے زندگی کا وجود ہمیشہ دریا کنارے سے یہ شروع ہوا ہے۔ سرائیکی وسوں جس کو روہی اور صحرا کے نام سے جانا جاتا ہر سوصحرا ہی صحرا نظر آتا ہے۔بھوک اور پیاس ہر طرف ناچتی نظر آتی ہے۔ صدیوں پہلے جب دریا ئے ہاکڑہ / گھاگھرہ بہا کرتا تھا یہ وسیب اپنی شان و شکوح کے ساتھ شاد اور آباد ہوا کرتا تھا۔دریائے ہاکڑہ یہاں کی آبادی کی زندگی کا ضامن تھا۔اس لئے اس آبادی کو وادی ہاکڑہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔وقت گزرتا گیا اور یہ دریا منوں ریت کے نیچے دب کر گم ہو گیا اور اب وہاں پانی کی بجائے ریت کا دریا بہتا ہے جو سرابی کیفت کا عظیم نمونہ دور سے آج بھی دیکھا رہا ہے۔یہاں کی بستیاں، جھوکایں، شہر اور شان و شکوح پانی کے ساتھ ہی گم ہو گئے۔اس وقت کے یاد گار محلات کھنڈرات اور ٹھیکروں کی شکل میں آج بھی اپنی کہانی سناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان میں سے قلعہ ڈراوراہم ترین ایجاد ہے۔قلعہ ڈراور اپنی پختگی، وسعت، شان وشکوح اور تاریخی اہمیت کے اعتبارسے ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ عظیم یادگاریہ قلعہ اپنے اندر بے شمار داستانیں آباد کئے ہوئے ہے۔اس کی اونچی اور پکی فصیلوں نے ماضی کے کئی واقعات دیکھے۔چھ ہزار سال قبل ملتان اور ہڑپاسے آنے والے مسافر قافلے مکران سے ہوتے ہوئے عراق تک جاتے تھے۔یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ ہڑپا اور موئنجودارو کے ٹھیک درمیان میں آباد اس قلعے کی مضبوط فصیلوں کے سائے میں آرام و سکون توضرور کرتے ہونگے۔افسوس آج یہ عظیم قلعہ قصہ برہنہ بن چکا ہے، کب اس کی بنیاد رکھی گئی کون ا س کے معمار ہن کس حکمران کے جھنڈے سب سے پہلے اس قلعے پر لہرائے تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔ بس ایک معمولی سا اشارہ دیتی ہے کہ رائے ججہ سے اس کے بھانجے نے گھر بنوانے کے لئے جگہ مانگی تو اس نے کہا ایک جانور کی کھال کے برابر جگہ پر گھر بنا لو۔ دیوا سدھ نے ایک جانور کی کھال کی تار بنوئی اور جتنا علاقہ تار میںآیا اس پر تعمیر شروع کروا دی۔رائے ججہ کے مشیر نے جب دیکھا کہ ایک عالی شان اور مضبوط قلعہ تیا ر ہوریا ہے تو ا س نے رائے ججہ سے کہا حضور اتنا مضبوط کوٹ تیا ر ہو رہا ہے اگر کل کو آپ کا بھانجا آپکا باغی ہو گیا تو؟رائے ججہ نے تعمیر رکوا دی جس پر اس کی بہن نے اسے ایک خط لکھا جس کو پڑھ کر تعمیر کی اجازت پھر دے دی۔خط کا متن یہ ہے :۔
رائے ججہ تئیں ونتی بھین پچھاوے
کیا بھٹی کیا بھاٹیا کوٹ اسارن ڈے
ڈاکٹر نصراللہ خاں ناصر کے مطابق یہ خط۲۶۶ھ بمطابق ۸۳۴ء کو لکھا گیا۔ ۶ جنوری ۲۰۱۷ء کو یونیورسٹی کے مطالعیاتی دورے پر اس قلعہ کو دیکھنے کے لئے جانا ہوا ۔تنقید کا طالب علم ہونے کی وجہ سے میں نے اس قلعے کا تنقیدی جائزہ لیا اور وہ ساری باتیں جو کتابوں میں پڑھیں اپنی آنکھوں سے دیکھی۔قلعہ ڈراور کی ساخت اور بناوٹ پر اگر بات کی جائے تو خوبصورت لفظوں کی شاندار کتاب لکھی جا سکتی ہے۔اونچی اور مضبوط دیواروں، چار طرف میلوں میل صحرا اور تاریخی ثقافت کی وجہ سے اس قلعہ نے کئی سرکش دھڑیلوں کے اونٹ گھوڑے باندھے ہونگے۔اور کئی غدریں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہونگی۔قدیم وادی ہاکڑہ ملتان،ہڑپہ،موئنجوداڑو،مکران اور مصر کی تہذیب جیسی تھی اور چھ ہزار سال قبل ان تہذیبوں کے آپس میں گہرے تعلقات تھے۔قلعہ ڈراوڑاپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ چھانوی رہا ہے۔نہ ختم ہونے والا صحرا اور پانی کی قلعت حملہ آوروں کی شکست کی وجہ رہے ہیں۔قلعے کے باہر پانی کا بہت بڑا تلاب اس قلعے کی پیاس بجھاتا تھا۔جب فوج کشی ہوتی قلعے میں لگا ہوا لوہے کا دروازہ سارا پانی قلعے کے اندر کے تلاب میں منتقل کر دیتا تھا۔پانی کی قلعت فوجیوں کو محاصرہ توڑنے پر مجبور کرتی۔ قلعے کی مضبوط اور اونچی فصیلیں دم دمے کا ساتھ تعمیر کی گئی ہیں ہر دم دما دوسرے سے مختلف ہے اور اپنے ہنر مند کا شاہکار نظر آتا ہے۔قلعے میں تعمیر شدہ عمارت اور اونچائی بتاتی ہے کہ زیرِ زمین بھی ایک جہان آباد ہوگا۔ایک چھوٹے کمرے سے نیچے جاتا ہوا راستہ پٹڑی اور ٹھیلہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ گرمیوں میں یک سلے گھوڑے شاہی رہائش ہونگے۔اس کے ہوا دان اور روشنی دان اپنے ہنر مندوں کی کاری گری کی بڑی مثال نظر آتے ہیں۔ قلعے کے گرونڈ میں کھڑی دو بڑی توپیں اس بات کا ثبوت دیتی ہیں کہ اپنے وقت میں یہ قلعہ اپنی عسکری طاقت کے سارے ہتھیار استعمال کرتا ہوگا۔ایک طرف قلعے میں تعمیر شدہ بیرکیں، جیلیں ،اکوبت خانے اور کال کوٹھڑیاں شاہ کے زور جلال اور بڑے پن کی کئی کہانیاں سنا رہے ہیں تو دوسری طرف شاہی خاندان کے بنگلے اعلیٰ رہائشیں بادشاہوں کے اعلیٰ ذوقِ تعمیر کی گواہی دے رہے ہیں۔ طرزِ تعمیر ہو یا لکڑی پر آرٹ کا کام ہمیں ہنر مندوں کو داد ضرور دینی پڑے گی۔ویسے تو قلعے کی ہر منزل پر الگ مسجد ہے مگر قلعے کے سامنے بڑی سفید مسجد اپنی مثال آپ ہے۔ہزاروں نمازیوں اور سینکڑوں طالب علموں کے ملحقہ حجرے یہ بتارہے ہیں کہ ایک وقت یہاں لاکھوں لوگ بستے اور رہتے تھے۔ونکوونکی تعمیر کے ان چالیس برج اور عمارتوں کی چھتوں اور دروزوں میں استعمال ہونے والی لکڑی اگر آج اتنا حسن بکھیر رہی ہے تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اپنے وقت میں اس کا حسن کیا ہوگا۔۔ قلعہ ڈراوڑ کی ایک طرف چار صحابی کرامؓ کے مزارات ہیں اور دوسری طرف شاہی قبرستان جہاں سابق حکمرانوں اور ان کے اہل و عیال کے مقبرے ہیں۔عباسی خاندان کے بزرگوں اور ممتاز خواتین کے الگ الگ مقبرے ہیں جن پر پکی اینٹوں سے آرائشی طرز تعمیر پر تعمیر کی گئی ہے۔ بس آج یہ قلعہ ہمیں دور سے بلا کر اپنے دکھ دکھڑے اور ماضی کے قصے سنا کر اپنا کیتھارسس کر رہا ہے۔