Buy website traffic cheap

پانی کی قلت لمحہ فکر

پانی کی قلت لمحہ فکر

پانی کی قلت لمحہ فکر
تحریر: چوہدری دلاور حسین

یہ اللہ کریم کا ہم سب پر خاص کرم ہے کہ ہم اُس کی عطا کردہ نعمتوں سے مستفید ہوتے چلے آرہے ہیں۔نعمتیں تو بے مثال اور ان گنت۔ بعض توایسی جن کے بغیر نہ تو صحت درست اور کمی سے شدید مشکل بلکہ قدم بھی ڈگمگا جائیں۔جسمانی اعضاء کا درست ہونا اور صحیح سمت میں اپنا کردار ادا کرتے رہنا یہ وہ چیزیں ہیں جو کسی فرد کے معمولات زندگی میں بھر پور کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں تو انسان کو زندہ رہنے کیلئے تین چیزوں کی اشد ضرورت رہتی ہے اگر ان میں سے کوئی ایک بھی میسر نہ آئے تو زندگی کا مزہ برقرار نہیں رہتا بلکہ محتاجی گلے پڑ جاتی ہے اور روزمرہ معاملات کی بجاآوری میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس میں کچھ شک نہیں کہ خالق کائنات نے ہمار ے پیارے دیس کو بیشمار نعمتوں سے سرفراز فرما کر ہم سب کیلئے انواع و اقسام میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ رکھی ہے۔یہ درست ہے کہ آبادی میں یکسر بے پناہ اضافہ عروج پا رہا ہے لیکن اس آبادی کیلئے وسائل میں ذیادتی کی بجائے گاہے بگاہے کمی ہوتی چلی جا رہی ہے۔صد افسوس کہ ہم خود کو عیاشیوں کی جملہ رونقوں اور کاہلی سے بچانے میں ناکامی کا شکار ہیں۔گلشن کی خوبصورتی و لطف اُس وقت دوبالا ہوتا ہے جب ہر پتہ، ٹہنی یا پھر بیل بوٹے تمام وسائل کے بل بوتے پر اپنے اپنے مقام پر فرحت سے لبریز ہوں۔دُنیائے عالم کو اسوقت شدید زرعی و معاشی مسائل درپیش ہیں۔جن میں سب سے اہم مسئلہ “پانی کی قلت”کا سامنے ہے۔جوں جوں وقت تیزی سے آگے کی طرف دوڑ رہا ہے وسائل محددو ہوتے جا رہے ہیں۔خوراک، ادویات، تعلیم اور انسانی جانوں کے تحفظ کو خاص طور پر مسائل کا سامنا ہے۔ پانی قدرت کی عطا کردہ نعمتوں میں سب سے اہم ہے۔پانی کی کمی انسان کو شدید قسم کے مسائل سے دوچار کر دیتی ہے۔اگر انسانی جسم میں یکسر پانی کی کمی واقع ہو جائے تو اس کمی کا پورا کرنا نہایت محال ہے۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی پودے /فصل کی کاشت کے بعد اگر اُس کو بروقت پانی مہیا نہ کیا جائے تووہ پانی کی قلت کے سبب وقت سے پہلے سوکھ جائے گا اور یوں ایک اہم پودا /فصل سرسبز و شاداب ہونے سے پہلے ہی ضائع ہو جائے گی۔گذشتہ ادوار کا مطالعہ کیا جائے تو پانی کے حصول کیلئے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے فرد کو پانی کے حصول کیلئے اپنے تئیں بھرپور جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔دستی نلکوں کو خاص اہمیت حاصل تھی۔بجلی کی موٹر یا ٹیوب ویلز کا تصور نا پید تھا اگر کہیں یہ سہولت میسر تھی تو وہ حیران کن لیکن آج کے اس جدید دور نے انسان پر سہولیات کی جو برسات کی وہ مسائل سے بھی دوچار کر رہی ہے۔آج کا دور جدید واٹر پمپ کا دور ہے۔صرف ایک بٹن دبانے سے گھنٹوں کا پانی منٹوں میں حاصل ہو رہا ہے۔بدقسمتی سے اس آسانی کا منفی پہلو بھی ہمارے پاس موجود ہے یعنی راقم یہ رقم کرنے میں کوئی آڑ محسوس نہیں کرتا کہ پانی کا ضیاع ہم خود بہت تیزی سے کر رہے ہیں۔ضرورت اگر ایک بالٹی پانی کی ہے تو ہم موٹر سے دو یا تین بالٹیاں حاصل کر لیتے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہوتی اور یوں قدرت کی نعمت بے دریغ ضائع ہوتی رہتی ہے۔رب رحیم نے ہمیں سال بھر میں چار موسم عطا فرما کر ہر قسم کی سبزیاں، پھل و میوہ جات سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیاجن کی افزائش میں پانی کو خاص فوقیت حاصل ہے۔انسانی خوراک میں چاول سب سے زیادہ پسندیدہ ڈش ہے۔جسے خوشی یا غمی میں فراموش نہیں کیا جا سکتا اس کے بغیر تقریب کی رونق دوبالا نہیں ہوتی۔لیکن اس فصل کی افزائش میں پانی کو حد درجہ خاص مقام حاصل ہے یعنی اگر اس فصل کو بروقت اور ضرورت کے مطابق پانی میسر نہ آئے تو یہ فصل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔باران رحمت قدرت کی طرف سے اپنی مخلوق کیلئے بہت بڑا تحفہ ہے۔لیکن آج تک ہم اپنے ملک میں جدید ڈیمز کی کمی کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔پڑوسی ممالک کی اگر مثال سامنے رکھیں تو وہ تیزی کے ساتھ جدید ڈیمز کی تعمیر میں اپنے ملک میں تمام وسائل کو بروئے کار لا رہے ہیں اور بارش کے پانی کو ڈیمز میں سٹور کر کے بوقت ضرورت سکون و اطمینان کے ساتھ فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ صد افسوس کہ ہم ضرورت سے زائد اشیاء کو سنبھالنے میں ناکام ہیں۔ موسم گرما میں پانی کا استعمال بے دریغ ہو جاتا ہے اگر ایسے میں بجلی کی عدم دستیابی یا پانی کی قلت ہو جائے تو ایام حیات گھمبیر ہو جاتے ہیں۔غسل، کپڑے دھونے اور دیگر معمولات زندگی میں پانی سب سے اہم چیز ہے اس لئے ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اس کی قدر و قیمت کی اہمیت پر اپنی مکمل توجہ مرکوز کریں۔موجودہ حالات میں پانی کی سطح زیر زمین کافی نیچے کی جانب جا چکی ہے جو پمپ ماضی میں ایک سو فٹ بور پر پانی سپلائی کرتا تھا اب وہ شہروں میں کم از کم تین سو فٹ بور پر پانی مہیا کر رہا ہے۔جوکہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔گذشتہ سال سابق چیف جسٹس آف پاکستان و موجودہ ایوان اقتدار کے ذمہ داران نے پانی کی قلت کو محسوس کرتے ہوئے فی الفور ڈیمز کی تعمیر بارے عوام سے تعاون کی اپیل کی لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آج تک کسی بھی ڈیم کا افتتاح نہ کیا گیا ہے۔موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر ایں بارے مثبت اقدامات نہ کئے تو پھر تھل وچولستان جیسے علاقوں کی ابتر صورتحال بارے ہر شہری کو کان دھرنے ہونگے۔ویسے تو ہم ہر سال دُنیا میں کسی نہ کسی حوالے سے کوئی نہ کوئی دن مناتے رہتے ہیں اور دن کی اہمیت سے عوام میں آگاہی مہم چلا کر اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں جیسے “پانی کا عالمی دن”لیکن یہ سب اُس دن تک محدود رہتا ہے اور پھر رات گئی بات کے مترادف۔یعنی پھر کون یاد کرتا ہے کس کو سحر ہونے تک۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ بارش و سیلاب کے دنوں میں محکمہ انہار کی کارکردگی و بجٹ آٹے میں نمک کے برابر نظر آتا ہے لیکن سال بھر یہ بجٹ کہاں خرچ کیا جاتا ہے اور اس سے نہروں و دریاؤں کے نزدیک رہنے والے دیہاتی مکین کہاں تک مستفید ہوتے ہیں۔یہ ایک سوال ہے جو حکومت اور عوام دونوں کیلئے اہم ہے۔