Buy website traffic cheap


جس تن لگدی اوہو جانے ہور نہ جانے کوئی

جس تن لگدی اوہو جانے ہور نہ جانے کوئی
تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر
پنجاب کے وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس جنہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ موسم گرما کی تعطیلات یکم جون سے پہلے نہیں ہوں گی گرمی پہلے بھی اتنی ہی ہوتی تھی جتنی اب ہے اور رمضان بھی پہلی بار گرمیوں میں نہیں آیا لہٰذا استاد اتنے سہل پسند نہ بنیں اور دھیان سے اپنی فرائض ادا کرتے رہیں جناب مراد راس صاحب ضروری نہیں کہ آپکی ہر مراد ساری قوم کو م کوراس بھی آئے آیئے اب ذرا چند حقائق آپ کے گوش گزار کر دوں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اساتذہ کی بات ہی نہیں کر رہے کہ گرمی شدید پڑ رہی ہے اور اساتذہ ہلکان ہو رہے ہیں گرمی سے بات قطعی طور پر یہ نہیں دوسری بات یہ کہ ہمارامؤقف یہ ہے کہ جناب وزیر باتدبیر سرکار آپ نے کبھی سرکاری سکولوں کی حالت زار بچشم خود دیکھی ہے کیا؟جن کے ایک کمرے میں دو سے تین چھت والے پنکھے لٹک رہے ہوتے ہیں اور اس ایک کمرے میں طلبہ کی کم سے کم تعداد ۰۸ اور زیادہ سے زیادہ ۵۲۱ تک ہوتی ہے ۴۴ ڈگری سے ۸۴ ڈگری تک کی شدت کی گرمی میں ان طلبہ کی زبانیں خشک اور منہ کھلے ہوئے ہوتے ہیں میری وزیر تعلیم سے گزارش ہے کہ اس غضب کی گرمی میں ذرا اپنے ٹھنڈے کمرے سے باہر نکل کر ٹھنڈی گاڑی سے عام ویگن میں آئیں اور صرف ایک دن کے لئے ان طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں آپ کو پتہ چلے کہ کس بھاؤ بکتی ہے۔اسی پر اکتفا نہیں آپ روزے سے بھی ہوں اور درمیان میں دو گھنٹے کے لئے بجلی بھی بند ہو پھر میں دیکھوں کہ آپ کی کیا حالت ہوتی ہے۔وزیر تعلیم صاحب طبقاتی فرق ہے میرے اس ملک میں آپ لوگ جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اس کلاس کے لوگ روزہ رکھیں گے تو سارا دن ائر کنڈیشنڈ کمرے میں سوئے رہتے ہیں اور اگر اپنے دفتر بھی جائیں تو اس دفتر کا ماحول سائبیریا جیسا بنا کر بیٹھتے ہیں گاڑیاں بھی آپ لوگوں کی جب تک فریج جیسی ٹھنڈک مہیا نہ کریں آپ لوگوں پر جیسے قیامت گزر جاتی ہے پھر آپ کیا جانیں کہ گرمی کی شدت کیا ہوتی ہے اور دھوپ کی تمازت کسے کہتے ہیں دس سے پندرہ منٹوں کے لئے کبھی آپ لوگوں کو دھوپ میں نکلنا بھی پڑے تو سر پر امپورٹڈڈ چھتری کا سائبان اور آنکھوں پربرانڈڈ چشمہ لگا کر نکلیں گے۔ آپ لوگوں کے بچے جن سکولوں میں پڑھتے ہیں وہاں کہ کمروں کا درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ سولہ ڈگری ہوتا ہے اور انہیں لانے لے جانے کی ذمہ داری برفیلی کار کی ہوتی ہے اور ادھر سرکاری سکولوں میں جو بچے آنکھوں میں سنہرے مستقبل کا خواب سجائے تین سے چار کلومیٹر کا پیدل سفر کر کے سکول آتے جاتے ہیں گرمی کی شدت کا اندازہ بھی انہیں کو ہوتا ہے آپ کیا جانیں پاکستان میں رہتے ہوئے یورپ جیسا ماحول بنا کر زندگی گزارنے والے!وزیر تعلیم موصوف سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا یہ چلچلاتی دھوپ میں آگ برساتے ہوئے سورج کا سامنا کرنے والے طلبہ اس قوم کا حصہ نہیں یا اسے پاکستان کا مستقبل کہنا ٹھیک ہے یا نہیں؟
جس تن لگدی اوہو جانے ہور نہ جانے کوئی
میری وزیر اعظم پاکستان سے ایک التماس ہے کہ تمام ممبران اسمبلی خواہ وہ صوبائی ہوں یا وفاقی انکے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ سرکاری سکولوں میں لازمی قرار دے دیں تب ہو سکتا ہے کہ طبقاتی تفاوت کا خاتمہ بالخیر ہو سکے عمران خان صاحب آپ کا کہنا تھا کہ یکساں نظام تعلیم رائج کریں گے جو تاحال تو ندارد ہے اور یکساں نصاب تعلیم کا دعویٰ بھی بس دعوے کی حد تک ہی رہا اگر کوئی استاد کسی طالب علم کو ہلکی سی سزا دے لے تو وہ لائق تعزیر ہوتا ہے اور اگر کوئی وزیر باتدبیر جھلسا دینے والی گرمی میں بھی بچوں کی حالت پر رحم نہ کرے اسے ایوارڈ سے نوازنا چاہئے کیا؟میں نے اب تک کی زندگی میں جو محسوس کیا ہے اس میں یہ دیکھا ہے کہ روزہ غریب کا بچہ لازمی رکھتا ہے کیونکہ اسے رمضان سے ہٹ کر بھی تو فاقوں کی عادت ہوتی ہے بھوک سہنے کا تجربہ اسے رمضان میں بڑا حوصلہ دیتا ہے۔مشقت اس کے رگ و پے میں بسی ہوئی ہوتی ہے اور اگر حکومتی کرسیوں پہ بیٹھے ہوئے وزیر صاحب یہ کہہ دیں کہ کوئی انوکھی گرمی نہیں پڑ رہی چھٹیاں اپنے وقت پر ہی ہوں گی تو کیا غلط فرما دیا جناب مراد راس صاحب نے ٹھیک ہی تو کہتے ہیں وہ کیونکہ یہ غرباء کے بچے اگر گرمی سے مر جائیں یا بیمار ہو بھی جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا انہیں کونسا کل کو عنان حکومت چلانا ہے وہ تو امراء،رؤسا،وزراء،اور صنعتکاروں اور وڈیروں کی اولادوں نے ہی چلانا ہے سرکاری سکول سے پڑھنے والے کونسا ملک کا نظم و نسق چلانے والے ہوتے ہیں یہ بیچارے تو بار برداری،کلرکی،منشی یا چپراسی بنیں گے بیوروکریٹ،ٹیکنو کریٹ،اور پارلیمنٹیرین تو بنیں گے نہیں ان کو گرمیوں کی چھٹیاں وقت پر دے دی گئیں تو انکے ذہنوں میں افسری کا خناس داخل ہو جائے گا لہٰذا انکو مشقتی ہی رہنا چاہئے موسمی تھپیڑے سہنے کا عادی ہونا چاہئے قارئین ٹھیک عرض کیا نہ میں نے؟جناب مراد راس صاحب اپنے بچوں کا برانڈڈ سکولوں سے سرٹفیکیٹ لے کر پہلی فرصت میں انہیں کسی سرکاری سکول میں داخلہ دلوا دیں اور اپنے ہم منصب تمام وزراء کو بھی حکم جاری کر دیں کہ سب کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھیں گے سارے پاکستان میں یا کم از کم پنجاب میں ایک سروے کروائیں کہ کتنے لوگوں کی اولادیں ائرکنڈیشنڈ سے فیضیاب ہوتی ہیں آپ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے لوگ کیونکہ جمہور کے نمائندے ہو پھر جس طرح کی زندگی جمہور گزار رہی ہے اسی زندگی کو اپنائیں آگ برساتے ہوئے سورج کی لو سے خود بھی فیضیاب ہوں اور دیگر اپنے جیسوں کو بھی اسی طرح کی طرز زندگی اپنانے کا مشورہ دیں پھر تو میں مانوں کہ آپ عوام کے نمائندے ہو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو سب جھوٹ کا پلندہ ہے۔اللہ جانے پاکستان کو وہ قیادت کب حاصل ہو گی جس میں اگر غریب بوریا نشین ہوتو حکمران بھی خود کو اسی قالب میں ڈھالے ہوئے ہو۔ جھلسا دینے والی گرمی میں سو سے زائد بچے ایک ہی کمرے میں مرغیوں کی طرح ٹھونسے ہوئے ہیں تو کون سے وزیر صاحب کے ہیں ارے یہ تو غرباء کے ہیں اور انکو آسائشوں سے نا آشنا رکھنا ہی تو حکمرانی ہے اگر ان کو چھٹیاں دے دی گئیں تو یہ بیمار نہیں ہوں گے اور اگر یہ لوگ بیمار نہ ہوئے تو مریں گے نہیں اور اگر مرے نہ تو آبادی کس طرح کم ہوگی ٹھیک کہا نہ میں نے ڈاکٹر مراد راس صاحب۔