وکلا ڈاکٹر تنازع سے وزیر کے تھپڑوں تک
وکلا ڈاکٹر تنازع سے وزیر کے تھپڑوں تک
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
توجیحات نہیں۔۔ اہم ضابطہ ہوتا ہے، اہم قانون ہوتا ہے، اہم کتاب ہوتی ہے، اہم اصول ہوتا ہے۔
وہ ملک جہاں نہتے شہریوں کو بچوں سمیت گاڑی میں سفر کے دوران بھون دیا جاتا ہو؛ جہاں ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات میں خواتین اور بزرگوں پر گولیاں برسائی جاتی ہوں؛ جہاں گائے کے تنازع پر غریب خاندان کوپولیس کے ذریعے اٹھوایا جاتا ہو؛ جہاں جھوٹے مقدمات اور جعلی پرچوں کی خبروں میں خبریت ہی نہ رہ گئی ہو؛ جہاں زینب جیسے واقعات کے بعد بھی ایسے واقعات نہ رکتے ہوں؛جہاں ڈرائیونگ لائسنس اور ڈومیسائل بنوانے سے لے کر ہسپتال میں آپریشن کی تاریخ لینے تک، بجلی کا میٹر لگوانے سے لے کر زمین کی فرد نکلوانے تک اور اپنی فریاد تھانے میں درج کروانے سے لے کر عدالتی انصاف کے حصول تک کسی سہارے کی ضرورت پڑتی ہو۔۔وہاں شہریوں کو اپنی حفاظت کی فکر لاحق ہونے لگتی ہے۔
وہ سرزمین جہاں کے وزیر اعظم کو نااہل قرار دیتے ہوئے کرپشن کے سنگین الزامات کے تحت قانون کی گرفت میں لایا گیا ہو اور اس حوالے سے ریاست کے اعلیٰ ترین اداروں کی جانب سے تحقیقات کے بعد انصاف کے اعلیٰ ترین فورم سے فیصلے بھی آ چکے ہوں۔مگر دوسری جانب اسی ملک کا وزیر داخلہ قومی سطح پر دیکھے جانے والے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر یہ بات کہے کہ اگر تین چار بندے نہ ہوتے تو یہ شخص چوتھی دفعہ بھی وزیر اعظم ہوتا۔۔ ایسے ملک میں لوگوں کانظام سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
اس ماحول میں لوگ قانون، کتاب، اصول، ضابطے سے پرے ہٹ کے سیلف پروٹیکشن کی خاطر انفرادی طاقت کے حصول کے لئے تگ ود و میں لگ جاتے ہیں۔اسی لئے لوگ انتظامی عہدوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، وکیل بنتے ہیں، صحافی بنتی ہے، بیورکریٹ بنتے ہیں، طاقتور تنظیموں اور گروپوں کا حصہ بنتے ہیں، سیاستدانوں سے تعلقات بناتے ہیں اور طاقت سے بھرپور سرکاری نوکریاں تلاش کرتے ہیں۔
ایسے معاشرے میں پھر ڈاکٹر ہڑتال بھی کرتے ہیں، مریضوں پر تشدد بھی ہوتا ہے، ہسپتالوں پر حملے بھی ہوتے ہیں، صحافی بلیک میلنگ کے ساتھ ساتھ جھوٹی کہانیاں بھی سناتے ہیں اور وزیر تھپڑاتے بھی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ پھر ان سب کے لئے ان سب کے پاس توجیحات بھی ہوتی ہیں۔
طاقت اب ضرورت بن گئی ہے اور اسی کے لئے خواہش دولت، شہرت اور علم کی ہے۔پھر طاقت میں اضافے اور اس کے استحکام کے لئے دولت اکٹھی کرنے کی دوڑ ہے۔ یہ وہ انفرادی طاقت ہے جس کے اظہار کے لئے کسی شخص کو گھر کے باہروکیل، صحافی یا کسی اعلیٰ عہدیدار کے نام کی تختی آویزاں کرنا پڑتی ہے۔ یہ قانون اور انصاف سے مایوسی ہے کہ سیلف پروٹیکشن کے لئے گاڑیوں پر رنگ برنگی نمبر پلیٹیں لگانا پڑتی ہیں اور ان پر ایڈووکیٹ، پریس، پولیس،MNA وغیرہ جیسے الفاظ لکھوانا پڑتے ہیں۔
تنظیمیں جن کا مقصد کسی خاص پروفیشن کی معیار کی بلندی ہونا چاہئے، وہ اس کے برعکس پروفیشنلز کی جائز ناجائز خواہشات اور غیر قانونی حرکات کی محافظ بنتی نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر وں کی تنظیم، صحافیوں کی تنظیم، کلرکوں کی تنظیم، تاجروں کی تنظیم، وکلاء کی تنظیم، ٹرانسپورٹروں کی تنظیم؛ یہ وہ چھوٹے چھوٹے گروہ ہیں جو ایک دن میں نہیں بن گئے اور نہ ہی خود بخود بن گئے۔ لاقانونیت پر مبنی اس نظام نے اس ضرورت کو جنم دیا کہ لوگ ذاتی طور پر مستحکم ہوں اور پرسنل پاور حاصل کر کے لاقانونیت کا مقابلہ کریں یا پھر چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر ریاستی اور غیر ریاستی ظلم و ستم سے خود کو بچائیں۔
ہسپتال پر حملہ یا تھپڑوں کے تبادلے محض واقعات نہیں بلکہ معاشرے کا اصل چہرہ ہے جو اب کھل کر سامنے آنے لگا ہے۔ اس میں نہ تو وکلا کا قصور ہے اور نہ ہی ڈاکٹروں کا؛ نہ ہی تھپڑ مارنے والے وزیر کا اور نہ ہی تھپڑ کھانے والے صحافیوں کا۔ یہ انفرادی طاقت کے حصول کے بعد سامنے آنے والے مختلف طاقتور طبقات ہیں جو لاقانونیت سے لڑتے لڑتے اس نظام کے حصہ دار بن چکے ہیں اور اب صرف ریاست کی رِٹ کو ہی چیلنج نہیں کرتے بلکہ طاقت کا اظہار ایک دوسرے پر بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر اپنی دھاک باندھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک طرف سے طاقت کے اظہار پر مخالف سمت سے حسبِ طاقت جواب ملتا ہے اور پھر جیت اُسی کی ہوتی ہے جو طاقت اور تعداد میں زیادہ ہوتا ہے۔ لاہور ہسپتال میں بھی طاقت کی لڑائی تھی اور تھپڑوں والے معاملے میں بھی یہی جھگڑا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے روکا جائے۔ اس کے لئے اہمیت قانون کو دینا ہو گی، سزا جزا کے نظام کی بنیاد انصاف کو رکھنا ہو گا، عزت کا محور طاقت اور دولت کے برعکس انسانیت اور تہذیب کو بنانا ہوگا۔ اگر یہ نہ ہوا تو پھر اس سے بھی خطر ناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ توجیحات ایک ڈاکو کے پاس بھی ہوتی ہیں اور قاتل کے پاس بھی؛ قانون شکن کے پاس بھی اور غیر آئینی اقدام اٹھانے والے کے پاس بھی؛ تشدد کرنے والے کے پاس بھی اور ظالم کے پاس بھی؛ لٹیرے کے پاس بھی اور راشی کے پاس بھی۔
لیکن یاد رہنا چاہئے کہ توجیحات نہیں۔۔ اہم ضابطہ ہوتا ہے، اہم قانون ہوتا ہے، اہم کتاب ہوتی ہے، اہم اصول ہوتا ہے۔