Buy website traffic cheap

Latest Column, Farzeen Farooqui, Kashmir Khan

کشمیر خان

کشمیر خان
فرزین فاروقی

رات کے پچھلے پہر وہ شراب کے نشے میں دھت بیٹھا تھا کہ اچانک ایک گستاخ اس کے کمرے کا دروازہ ََََ تقریباًتوڑتے ہوئے اندر داخل ہوا اور اسے خبر دی”جنگ شروع ہوگئی ہے“ اس کے منہ سے مردہ سا واؤ نکلا۔نشے میں واؤ تو وہ کہ بیٹھا لیکن در پردہ یہ اس کے لیے جنگ کا اعلان کم اور ٹھاہ کا سامان زیادہ ثابت ہو رہا تھا تو جناب ا ن راحیق کی نظر میں معاملہ کچھ یوں ہوا کہ بم میرے قریب آ ئے اور پوچھا کہ میں پھٹ لوں تو اس نے کہا کہ بھئی جب آ ہی گئے ہو تو پھٹ لو۔یعنی یہ کہ جناب یہ قوم بر صغیر میں اور اس سے قبل انگریز قوم کے ساتھ رہ کر اپنا آپ بھول چکی ہے برٹش مزاج کی طرح ذاتی مفاد پرست اور ہندو دھرم کی تقلید میں عورت کو شعورا نہیں تو لا شعورا ًہی حقیر جاننے والی اور بہت سی معیوب لتوں کی دلدل میں پھنس چکی ہے مستزاد یہ کہ ان کے اعتراف اور شرمندگی سے عاری۔اور رہی سہی کسر اس برائلر اور نت نئی ڈرنکس نے پوری کر دی ہے اس سب کا ذ کر ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ جناب دعا بھی تب قبول ہوتی ہے جب حرام نہ کھایا ہو اور حرام بھی کیا حرام،مشتبہ چیز بھی حرام ہی ہے تب تک جب تک کہ اس کے متعلق آپ کو تشفی نہیں ہو جاتی کہ وہ واقعی حلال ہی ہے دعا کی قبولیت میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آ سکتی مانگنے والوں کے یاں معجزے بھی ہو جاتے ہیں لیکن حرام کا ذکر بطور خاص کیا گیا ہے تو المختصر یہ کہ اس سب کو بیان کرنے کی جو وجہ کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ بھئی کشمیر میں ہم لڑ نہیں سکتے تو دعائیں بھی تب قبول ہوں گی جب ہماری ریڑھی والے کے دس روپے چھپانے والے سے لے کر ہمارے ایوانوں میں بیٹھنے والے وحشیوں کی ذہنیت درست ڈگر پر چلے گی۔خوں میں وہ جوش ہی نہیں،ہماری قوم میں تو سر اٹھا کے سوال پوچھنے کی بھی جراٗت نہیں رہی برائلر مرغیوں کی طرح سر جھکائے ہوئے ہیں کچھ پوچھنا نہیں، کوئی سوال دراز نہیں کہ کیا ہو رہا ہے کیا کررہے ہیں اور ہم کو کہاں لے جایا جا رہا ہے؟آپ کو اپنی خوراک کے خون پر اثرات وا لا معمہ قابل قبول نظر نہیں آ رہاتو ہم مثال دیے دیتے ہیں ابن خلدون اپنی ایک کتاب ”المقدمہ“ میں لکھتے ہیں کہ ’عربوں کو اونٹ کا گوصت کھانے کی عادت ہے اس لیے ان کی طبیعت میں نحوت،غیرت اور سختی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ترکوں کو گھوڑے کا گوشت کھانے کی عادت ہے لہذا ان میں طاقت،جرأت اور اکڑ پن ہے۔انگریزوں کو خنزیر کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لیے ان میں فحاشی وغیرہ کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔حبشی افریقی بندر کھاتے ہیں اس لیے ان میں ناچ گانے کا میلان زیادہ پایا جاتا ہے ابن القیم فرماتے ہیں جس کو جس جانور کے ساتھ انس ہوتا ہے اس کی طبیعت میں اس حیوان کی عادات غیر شعوری طور پرشامل ہو جاتی ہیں اور جب وہ اس حیوان کا گوشت کھانے لگ جائے تو اس حیوان کے ساتھ مشابہت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اس پر ایک عرب صحافی نے تبصرہ کیا کہ ہمارے زمانے میں فارمی مرغی کا رواج زیادہ ہو چکا ہے۔چناچہ ہم محض چوں چوں ”جوگے“ ہی ہیں لیکن ہمیں ایک ایک کر کے ہمیں ذبح کیا جارہا ہیان جناب اس برایلر کی عادات کا مشاہدہ کیجئے کہ یہ کاہل رو ہوتی ہے ایک جگہ ٹک کر بیٹھ رہتی ہے جہاں آپ اس کو بٹھا دیں گے سر جھکائے بیٹھی رہے گیاور ان کا موازنہ اپپن ذات اور اپنی قوم سے کیجئے کیا اس سے ذرا سی بھی مختلف حالت ہے؟ہم چوں چوں کیے جا رہے ہیں لیکن ”مرغیوں“ کی چوں چاں کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھا جا رہااور یہ موقع ہم ہی نے انہیں دیا ہے وگرنہ ہم ۳۱۳ سے کہیں زیادہ ہو چکے ہیں مگر فضائے بدر نہیں ہے۔ارے تعداد نہیں درکار بھئی،فضائے بدر درکار ہے اور وہ فضا تو ہم یہ کہہ کے پیچھے ہی کہیں چھوڑ آئے کہ ”یہ تو پرانے ریت رواجوں پر مبنی ہیاور ہم نئے دور میں ’ایڈجسٹ‘ نہیں ہو پائیں گے“لیجئے ہو گئے ”ایڈجسٹ“بلکہ یوں یوں ایڈجسٹ کیا جا چکا ہے کہ اب یہ کوا بلکہ شاہین کس ’بزرگ شاہین‘ سے اپنی ”چال“ واپس مانگے؟
یہ ٹھوکر ہے،پم تو پھر مرغ ہیں کہ ہم کو محسوس نہیں ہوتی،ارے کون سی ٹھوکر؟دیکھا آپ کا تعجب انگیز سوال ہی آپ کا جواب ہے بلکہ ٹھوکر ہی ہے، آپ کی اپنی ٹھوکر اپنی ہی قبر پہ،اس کی وجہئ گرامی یہ ہے کہ ہم نے معیار بدل لیا ہے اسلام کی بجائے دولت اور شہرت کو معیار بنا رکھا ہے اور اس کا ذمہ دار بھی ہم آپ کی ’ڈائیٹ‘ کو ہی ٹھہرائیں گے اور ضرور ٹھہرائیں گے جو کہ کسی بھی قوم بلکہ کسی بھی غلام قوم کی پستی اور بربادی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ باقاعدہ ”نامہء بربادی“ ہے اور جن قوموں کے عیار تلوار اور ہتھیار کی بجائے میڈیا اور پیسہ بن جاتے ہیں تو اس پہ حیرت نہیں ہونی چاہئے اگر وہی تلواریں رقص اور محافل میں بطور نمائش پیش کی جائیں ایسی قوم ’غیرت کا لفظ سن کر بے جا اور بلا جہت و ثبوت صرف بپھرنا ہی جانتی ہے جسے سرخ کپڑا دکھا کر نچایا جاتا ہے اور وہ ’سرخ کپڑا‘ غیرت کا لفظ ہے۔
تھوڑا سا پیچھے چلیے،وقت کے پہیے کو ذرا گھمائیے،زیادہ دور نہیں یہی کوئی ۹۶۹۱؁ء تا ۴۷۹۱؁؁ء کے دورانیے میں،اگر نہیں معلوم تو ذرا پختہ سن حضرات سے پوچھیے مسجد اقصیٰ والے معمے کے متعلق،وہ تو خیر ہو گزرا لیکن ہمارا اصل مسئلہ اور اشارہ اس طرف ہے کہ جن سالوں میں مسجد اقصیٰ کا کیس ہوا تب اسرائیل کی وزیر اعظم’گولڈا میئر‘ نام کی ایک عورت تھی اس کا بیان تھا کہ ”جب ہم نے مسجد اقصیٰ کو جلایا تھا تو میں اس تمام رات اس کوف سے سو نہیں سکی کہ ورب فوجیں اسرائیل میں داخل ہوجائیں گی اور ہمارا محاصرہ اب کہ اب کرنے کو ہیں لیکن جب اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو میں یہ جان چکی تھی کہ ہم جو چاہیں وہ کر سکتے ہیں کیوں کہ اب ہمارا مقابلہ اس امت مسلمہ سے ہے جو سو چکی ہے“۔اپنے مردہ ہونے پر ذرا ماتم کر لیا جائے
یہ وہی ٹھوکر ہے جو فرانسیسیوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر پر ماری تھی اور کہا تھا کہ”اٹھو صلاح الدین!ہم پھر آگئے،اٹھو اور دیکھو،ہم آج کے بعد تمہاری نسلوں کو اتنا جام کر دیں گے کہ تمہاری قوم کی مائیں ایوبی تو کیا تمہاری قوم کے جوان سراٹھانے تک کی جرأت نہیں کر سکیں گے“
یہ وہی ٹھوکر ہے جو فرانسیسی جنرل لیوتی نے مراکش میں یوسف بن تاشفین کی قبر پر ماری تھی
یہ وہی ٹھوکر ہے جو صلیبیوں نے اندلس دوبارہ فتح کرنے پر حاجب منصور کی قبر پرطلائی چارپائی پر ”جشن“ منا کے ماری تھی۔
یہ وہی ٹھوکر ہے جو یونانی جنرل نے ترکی میں داخل ہو کے خلافت عثمانیہ کے بانی عثمان غازی کی قبر پر ماری تھی۔
اور اب بھی امریکہ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کر کے وہی ٹھوکر دہرائی گئی ہے۔مان لیجئے کی یہ کبھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتا
اسرائیل،بھارت اور دشمن عناصر کو ساتھ ملا کے قہقہے لگا ئے گئے ہیں اور دشمن بھی کیا دشمن ہوں جب دوست ہی اپنے دشمن ہوں۔
ہم اس مرغ کی طرح پلنا چاہتے ہیں جو ہٹلر کے ہاتھ میں تھا تو ٹھیک ھے بھیا ھم بھی کون ھوتے ھیں آپ کی زندگی میں مخل ھونے والے،”جیو اور جینے دو کے قائل ھیں“۔۔۔تو پلیے اس مرغ کی طرح جس کے پر نوچ کر پھر اس کو دانہ ڈال کے ”سمارٹ ورک“ پلان کے ذریعے ”بازی“ جیت لی جاتی ہے۔۔۔۔تم کو ایسا پلنا مبارک۔۔۔