Buy website traffic cheap

مہنگائی

مہنگائی کا عفریت ۔۔۔اور غریب

موجودہ مہنگائی کی لہر اور الر کی اونچی اڑان پر وزیرِ اعظم عمران خان نے نئے پاکستان میں خوشحالی کی منتظر عوام کو طفلی تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے آکر جو اقدامات کیے ہیں ان کے اثرات 6 ماہ بعد نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔’یہ قلیل مدتی پریشانی ہے جس میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، اور میں ملک کو بحران سے نکالوں گا‘۔ قوموں کے اوپر اس سے بھی بڑے بڑے مسائل آئے ہیں،آج کامسئلہ صرف 10 سے 12 ارب ڈالر کا ہے۔ یعنی آئندہ6ماہ کے لئے ہمیں وزیر اعظم صاحب کا حکم مانتے ہوئے اس بے قابو ہوتی مہنگائی کو جھیلنا پڑے گا کہ اس کے بعد پھر راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔راتوں رات ڈالر ملکی تاریخ میں پہلی بار بلند ترین سطع پر پہنچ چکا ہے،اشیائے خوردونوش سمیت ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور تو اور وفاقی وزیر ریلوے نے ریل کے کر ایے میں بھی اضافے کا اعلان کر کے معجزے کے انتظار میں بیٹھی قوم کے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہے۔ایک معاشی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ آیندہ چند ہفتوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید 142 سے150 روپے تک گر سکتی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں بے یقینی کی کیفیت ہے اور تجارتی خسارے کی وجہ سے حکومت کو ہر روز 6 ارب روپے قرضوں کی مد میں ادا کرنے پڑتے ہیں، حکومت کو فوری امدادی پیکیج کی ضرورت ہے۔اصل میں بنیادی مسئلہ وزیراعظم کی اقتصادی ٹیم کی مہارت و اہلیت اور ملکی معیشت کی نبض شناسی کے فقدان کا بھی ہے۔ حکومت کے اقتصادی مشیروں سمیت وزیر خزانہ اسد عمر سے عوام نے بڑی توقعات وابستہ کر لی تھیں اور وقت کا تقاضا تو یہی تھا کہ معیشت کے استحکام کے لیے ہنگامی اقدامات کا بہترین نسخہ بروئے کار لایا جاتا، مگر افسوس انہوں نے بھی پچھلی حکومتوں کی طرح خزانہ خالی ہے کا راگ الاپنے میں 100دن گزار دئیے۔پاکستان کی معیشت کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ چیلنجز کسی سے ڈھکے چھْپے نہیں ہیں۔ خسارے بڑھ رہے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آ رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بعد ملک کی معاشی حالت میں کچھ سْدھار آنے کا امکان ہے لیکن ڈالر کی بڑھتی قیمت ملک میں مہنگائی بڑھنے کا باعث بنے گی جو تشویشناک ہے۔اس وقت ڈالر کی قیمت میں یکمشت ہونے والے اضافے نے مہنگائی میں اضافہ کیساتھ ملک کا ایک بڑاطبقہ معاشی بحران کا شکار ہوگیاہے۔مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگ احتجاج کاموجب بھی بن سکتے ہیں۔ بے روزگاری پہلے ہی ایک سماجی مسئلے کی شکل میں موجود ہے جس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔پاکستان کی پینتیس فیصدآبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، بے روزگاری پر قابو نہ پائے جانے کی صورت میں ہی نوجوان امن وامان کی صورتحال خراب کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور منشیات جیسے ناسور کا ایندھن بھی بن سکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ 22برس سے ’’تبدیلی‘‘ کانعرہ لے کر سیاست میں کودنے والے عمران خان اور کرپشن کے نام پر ووٹ لے کر حکومت میں آنے والی تحریک انصاف کو غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل شہریوں کو اس عذاب سے بچانے کے اقدا مات کرنا ہوں گے۔ بجلی کی اندر کھاتے بڑھتی ہوئی قیمت اور سوئی گیس کے زیادہ بلوں کی وجہ سے ان غریبوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے نہیں ہونا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کاکہنا ہے کہ بد عنوانی اور بیڈ گورننس کی وجہ سے پاکستان پیچھے رہ گیا ہے ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت کا احتساب ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کی رائے ہے کہ ملک پہلی بار ہر لحاظ سے ترقی کی طرف ٹیک آف کررہا ہے۔وزیراعظم کے مطابق پاکستانی باہر سے پیسہ بھیجتے ہیں اور لوگ یہاں سے منی لانڈرنگ سے پیسا باہر بھیج دیتے ہیں، ہم بیرون ملک سے ملک میں پیسے بھیجنے والوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے لوگوں کی کالز آ رہی ہیں، میں نے انھیں کہہ رہا ہوں کہ پریشان نہ ہوں، ہم ایسے اقدامات اٹھا رہے ہیں جس سے ڈالر کی قیمت آگے نہ بڑھے۔سچ تو یہ ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے پورے ملک کی معیشت اور عام آدمی پراس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔کیونکہ ڈالرکی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔ معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق روپے کی بے قدری کا سب سے پہلا اثر مہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ملک کی معیشت در آمدات پر مبنی ہونے کی وجہ سے تمام درآمدات کی جانے والی اشیاء کی قیمت مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی بڑھ جاتی ہے۔ گاڑیوں کی قیمتوں کو بھی پر لگ جاتے ہیں۔تیل کی درآمد پر انحصار ہونے کی وجہ سے پیڑول اور ڈیزل کی قیمت بڑھتے ہی کرایوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے، اور مارکیٹ میں دستیاب ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے۔صنعتوں کے لئے بیشتر خام مال درآمد کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے صنعتکاروں کے لئے نئی مشکل کھڑی ہو جاتی ہے اور حکومت کی جانب سے لئے گئے مقامی اور بیرونی قرضوں کا حجم بڑھ جاتا ہے۔بیرونی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری ملک سے نکالنا شروع کردیتے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں جس کے بعد ڈیفالٹ کی صورتحال پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔حکومت کے پہلے سو دنوں کی اعلیٰ کارکردگی کا تو یہ عالم ہے کہ اس کی وجہ سے پاکستانی غریب عوام کو چین کی نیند آنے کے بجائے نیندیں ہی حرام کر دی گئی ہیں۔ کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلانے اور تبدیلی کی دعوے دار پارٹی تو ایسی چونکا دینے والی تبدیلی لائی ہے کہ ڈالر ہی بے لگام ہو گیا ہے۔نان اور روٹی جیسی بنیادی اور لازمی ضرورت کی قیمت میں پچاس فیصد سے زائد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بازار میں چھ روپے والی روٹی دس روپے، دس روپے والا نان پندرہ روپے میں فروخت ہو رہا ہے اسی طرح سونا بھی صرف ایک دن میں 1950 روپے تولہ مہنگا ہو گیا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ڈالر کی شرح تبادلہ میں اضافہ کے باعث پاکستانی مارکیٹ میں 24 قیراط سونے کی قیمت 1950 روپے اضافہ کے بعد 62000 روپے اور 22 قیراط سونے کی قیمت 1800 روپے اضافہ کے بعد 56900 تک پہنچ گئی ہے۔کاپیاں، کتابیں، سریا، سیمنٹ، روز مرہ استعمال کی کم و بیش تمام اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں جب کہ ماہرین کے مطابق ڈالر کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کے لازمی اثرات اگلے مرحلہ میں پٹرولیم مصنوعات ، زرعی درآمدات موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، ادویات، کاسمیٹکس اور دیگر تمام درآمدی اشیاء پر مرتب ہوں گے۔ اس مہنگائی کے جن نے توکاروباری سرگرمیاں بھی ماند کر دی ہیں ۔ عام آدمی کی قوت خرید پہلے ہی خاصی کم تھی جو مہنگائی کے تازہ سونامی سے مزید کم ہو کر ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے133 وزیر اعظم کی جانب سے ڈالر کے اس خود کش حملے کے بعد مہنگائی اور بے روز گاری کے ہاتھوں ستائے غریب، بے بس اور مجبور شہریوں میں خود کشی کی شرح میں اضافے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے جبکہ حکومت نے مہنگائی کے طوفان کے آگے بند باندھنے کے لیے موثر اقدامات کرنے کی بجائے ایسے اقدامات کئے ہیں جس سے صورت حال مزید ابتری کی طرف جا رہی ہے۔ اب پنجاب حکومت نے پراپرٹی ٹیکس میں دس سے تیس فیصد تک اضافے کی نوید شہریوں کو سنا دی ہے جب کہ پانچ مرلہ تک جو مکان پہلے ٹیکس سے مستثنیٰ تھے اب ان پر بھی پراپرٹی ٹیکس لاگو کیا جا رہا ہے جس کے نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں حکومت اگر معاملات پر قابو پانے میں سنجیدہ ہوتی تو محض نمائشی اعلانات کی بجائے عملی اقدامات سامنے لاتی اور عالمی بنک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے بچنے کے لیے ایسے اقدامات کرتی جن سے ملکی معیشت کو سہارا ملتا اور معاشی بحران کو سنگین ہونے سے بچایا جا سکتا ہے ۔وزیر اعظم عمران خاں نے اپنے 50 لاکھ مکانات کی تعمیر کے انتخابی وعدے کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا ہے ،پہلے مرحلے میں لاہور سے باہرگھروں کی تعمیر کا آگاز ہو چکا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا ان گھروں کی تعمیر سے کم آمدنی والوں کو اپنا گھر ملنے کا خواب پورا ہو سکے گا یا ا سسکیم کا حشر بھی آشیانہ ہاؤ سنگ جیسا ہو گا۔بالکل اسی طرح ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے یہ ارادے اور وعدے یقیناًبہت خوش آئند ہیں مگر کیا یہ صرف سیاسی وعدے تو نہیں بن کر رہ جائیں گے اور جس طرح ملک معاشی بحران کی کیفیت سے گزر رہا ہے،ایسے میں یہ سوال یقیناًاٹھتا ہے کہ خزانہ خالی ہے ، ڈالر روز بروز بڑھتا جا رہاہے دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی واقع ہو رہی ہے تو ان وعدوں کی تکمیل کے لیے درکار سرمایہ اور وسائل کہاں سے آئیں گے۔ بلا شبہ تحریک انصاف جو اپنے مخالفین کو تمام برائیوں اور خرابیوں کی جڑ قرار دے کر اپنے اقتدار میں عوام کو زبردست ریلیف دینے کے وعدوں پر اقتدار میں آئی ہے،اس کی اب تک کی کارکردگی لوگوں کے لیے ریلیف کی بجائے تکلیف میں اضافہ کا سبب بنی ہے۔ حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح عوام کے جذبات سے کھیل کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے ہیں اگر یہی صورت حال یہی رہی تو عوام کا رد عمل حکمرانوں کی توقعات کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔ایک جانب گورنر ہاوء س کی دیواریں گرائی جارہی ہیں تو دوسری جانب عوام کو بہلانے پھسلانے کے لئے سادگی اور کفایت شعاری کا شوشہ چھوڑا گیااور تبدیلی کی خواہاں عوام کو بے یارو مدد گا ر چھوڑدیا گیا۔ان کے سو دنوں کو کسی طرح بھی اطمنیان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا اور لگتا ہے کہ اگلے سو دنوں میں بھی کوئی بہتری کی امید نہیں۔