Buy website traffic cheap


کشمیر اورعلاقائی سلامتی کی صورتحال

کشمیر اورعلاقائی سلامتی کی صورتحال
حکیم احمدحسین اتحادی
انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے کشمیرکی مقامی سیاسی قیادت اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کشمیر کے تنازعہ کے پرامن حل کے ظاہری امکانات کو یکسر ختم کر دیا ہے کشمیر کے تنازعہ کو انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو سلامتی کونسل لے کرگئے تھے اور استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا۔4سال تک استصواب رائے کی قراردادوں پر مباحثہ ہواکہ رائے شماری کس طرح کروائی جائے۔ بعد ازاں انڈیا استصواب رائے سے انکاری ہو گیا۔ کشمیر کا تنازعہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ ہے اور مغرب بوجوہ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے جبکہ امریکہ ہانگ کانگ کو مسئلہ بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا نفاذ، ٹیلی فون، موبائل، انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز کی بندش اور بنیادی انسانی حقوق کی بدترین پامالی بھی عالمی ضمیر کو منصفانہ رویہ اپنانے کے لئے محض ایک صدا بصحرا ہی ثابت ہوئی ہے
وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ کا کہنا ہے کہ ٓرٹیکل 370 کو ہٹانے سے جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی کو ختم کرنا مقصود ہے انڈیا کی پارلیمنٹ نے ریاست کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کی منظوری دی ہے مقبوضہ کشمیر کی تقریباً 98فیصد ٓبادی دو خطوں پر مشتمل ہو گی ہندو اکثریتی جموں جس میں تقریباً 60 لاکھ افراد آباد ہیں اور مسلم اکثریتی کشمیر وادی جس میں تقریباً 80 لاکھ افراد آباد ہیں تیسرا علاقہ لداخ ہے،جو سطح سمندر سے کافی بلندی پر واقع ایک صحرا ہے لداخ کی تین لاکھ آبادی میں مسلمان اور بدھ مذہب کے ماننے والے تعداد میں برابر ہیں.
ہندو قوم پرستوں نے 1950کی دہائی کے اوائل میں آرٹیکل370کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھاسات دہائیوں سے ہندو قوم پرست اس کی مخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں ہندو قوم پرستوں کے شدت پسندانہ نظریاتی عقیدے کے مطابق آ ئین کی یہ شق مسلم اکثریتی ریاست کے ساتھ خوشامدانہ پالیسی کی مظہر ہے۔ جبکہ ہندو قوم پرست انڈیا میں ہندوؤں کومسلمانوں پر بالادست کرنے کے نظریاتی ہندو انتہا پسندانہ سیاسی ایجنڈا کے غلبہ کے علمبردار ہیں۔ 2002ء میں ہندو قو م پرست تحریک راشڑیہ سیوک سنگھ نے مقبوضہ ریاست کشمیر کو تین حصوں جموں ریاست، وادیء کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
جبکہ آر ایس ایس سے وابستہ وشوا ہندو پریشد نے مقبوضہ ریاست کشمیر کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کر رکھا تھا جس میں وادیء کشمیرکا ایک بڑا حصہ کاٹ کر کشمیری پنڈتوں کو دینے کا اضافہ تھا۔
کشمیری پنڈت وہ ہندو اقلیت ہے جو1990ء میں وادی میں خراب حالات کی وجہ سے اپنا سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے نکلنے پر مجبور ہو گئی تھی وی ایچ پی کے منصوبے کے مطابق مقبوضہ وادیء کشمیر کو مرکزی خطے کے طور پر جموں ریاست اور لداخ ریاست میں تقسیم کیا جائے۔ اور وادیء کشمیر کو کاٹ کر بڑا حصہ کشمیری پنڈتوں کو دیا جائے، جو حصہ بچ جائے وہ مسلم اکثریتی آبادی کو دیدیا جائے۔ اس لیے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کا یہ دعویٰ کہ آرٹیکل 370کے تحت حاصل شدہ خود مختاری جموں و کشمیر میں علیحدگی پسند تحریک کی وجہ بن گئی۔ ’سرا سر غلط ہے‘
1950 اور1960 کی دہائیوں میں انڈین وفاقی حکومتوں نے ایسے اقدامات کئے کہ جن سے مقبوضہ ریاست کشمیر کی خودمختاری پہلے ہی بڑی حد تک ختم ہو گئی تھی اور محض علامتی خودمختاری برقرار تھی ریاستی جھنڈا، 1950کا ریاستی دستور اور ریاست جموں و کشمیر کا ریاستی تعزیراتی ضابطہ جو1846سے1947تک موجود تھا ریاستی دستور کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے کی سی تھی، آرٹیکل 35 اے جو ریاست سے باہر کے لوگوں کو زمین جائیداد کی ملکیت کے حقوق سے ممانعت کرتا ہے اور ریاست کے لوگوں کو ملازمتوں کی ترجیحاً یقین دہانی فراہم کرتا ہے اس پر عمل جاری رہا۔ انڈیا کی متعدد ریاستوں کو مقامی آبادی کیلئے یہ خصوصی حق حاصل ہے۔1990میں دہلی نے مقامی کشمیری کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں سخت قوانین رائج کر کے پولیس اسٹیٹ قائم کر لی جس سے سیاسی ماحول تبدیل ہو گیا2019میں مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی جغرافیائی وحدت اور آ ئینی و سیاسی حیثیت کو تبدیل کرنے کی مثال نہیں ملتی۔ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے نہ صرف مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو پامال کیا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر جغرافیائی وحدانی حدود کو تبدیل کر کے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنے جغرافیائی علاقوں سے بھی محروم کر دیا ہے آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے زیر اثر مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے نقشے میں مزید تبدیلیاں بھی لائی جا سکتی ہیں جس سے اس خطے میں ہندو مسلم آبادی میں تناسب مزید تبدیل ہو گا۔
پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا دباؤ ہے۔ پرتشدد تحریک کی دنیا میں حمایت دستیاب نہیں ہے، اندرونی سیاسی استحکام اور افغانستان میں بحالی امن کے عمل کی کامیابی کے لئے پاکستان کوشاں ہے، انڈیا نے موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں ظلم و جبر کے نئے سلسلے کی شروعات کی ہے اور کشمیر کے لوگوں کے پرامن احتجاج پر قابو نہ پا سکنے پر انڈیا نے اپنی ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی روایت کو قائم رکھا ہے اور کشمیریوں کو طاقت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کے لئے سر گرم عمل ہے انڈیا ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے پیلٹ گنز کے استعمال سے غیر انسانی سلوک کی انسانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ہے۔ ایسے میں انڈیا نے پاکستان کے خلاف جارحا نہ رویہ اپنا لیا ہے ایل او سی کی خلاف ورزی، معصوم پاکستانی شہریوں پر شیلنگ کے ساتھ سیالکوٹ کی ورکنگ باؤنڈری کیساتھ افواج کی نقل و حرکت، انڈیا کے ہندو توسیع پسندانہ عزائم کو عیاں کرتے ہیں۔ انڈیا نے سفارتکاری کے محاذ پر مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں اپنا قبضہ مستحکم کرنے اور اپنا اٹوٹ انگ ثابت کرنے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر حق جتلانے اور پاکستان پر مسلح مداخلت کاروں کی معاونت کا پروپیگنڈا کرنے کی پالیسی اپنائی ہے جس کا مقصد پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار بنانا ہے جبکہ پاکستان کی سفارتکاری کشمیر کے تنازعہ کو محض انٹر نیشنلائز کرنے تک محدود نظر آتی ہے۔
مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں انڈیا سے آزادی اور پاکستان میں شمولیت کے لئے جذبات عروج پر ہیں انڈین فوج کے ظلم و ستم سے پرامن احتجاج تشدد کی طرف جا سکتا ہے جان، مال اور عزت کی حفاظت کے لئے معصوم اور جبر کے ستائے کشمیری لوگوں کی پرامن جدوجہد میں تشدد کا عنصر شامل ہو سکتا ہے۔ انڈیاکوشاں ہے کہ ایسے گروہ جو پاکستان مخالف سوچ رکھتے ہیں وہ آگے آئیں جبکہ مقامی و عالمی سطح پر مسلح گروپس انڈیا کے خلاف مسلح جدوجہد کے لئے پر تول رہے ہیں خاص طور پر عالمی گروپ، مقامی کشمیری مسلح تنظیم پر دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ وہ اپنے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی کرے۔ اور ان کو کشمیر میں گنجائش فراہم کرے، عالمی گروپ کی آمد سے امریکہ کو فوجی مداخلت کا جواز مل جائے گا، ماضی قریب میں امریکہ اس کا عملی مظاہرہ کر چکا ہے۔ انڈیا کے اس کی زد میں آ نے سے پاکستان کے لئے سیکورٹی خطرات ممکنہ جنگ کی شکل بھی ہو سکتے ہیں جبکہ انڈیا افغانستان کی طرح جنگ زدہ ملک بن سکتا ہے چین کا سنکیانگ صوبہ بھی متاثر ہو گا ایسی صورت حال پاکستان کے لئے بھی حالات کو مخدوش بنا دے گی۔ انڈیا مسلم دشمنی میں اندھا نہ ہو او رہوش سے کام لے، عالمی سامراج کو کندھا فراہم نہ کرے، کشمیر سے افواج نکال لے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دیدے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے ہونے دے۔پاکستان کے وزیراعظم عمران احمد خان نیازی نے بھی پارلیمان کے اجلاس میں یہ عندیہ دیا ہے کہ روایتی جنگ کے خطرے سے بچا جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام سیاسی و عسکری رہنما متحد و متفق ہو کر اس معاملہ میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں اور خطے کو روایتی و ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں سے بچائیں۔