Buy website traffic cheap

مسلمان

پہلے مسلمان تو بن جائیں..

پہلے مسلمان تو بن جائیں..

ابن نیاز..
اسلام سلامتی کا دین جو حضرت آدم علیہ السلام سے تا خاتم النبیین محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلم تک ہمیشہ سے دنیا کے یر انسان کے لیے ہمیشہ سلامتی کا. مظہر رہا ہے. سب انبیاء نے اپنی امتوں کو ہمیشہ سلامتی کا ہی درس دیا. اللّٰہ پر ایمان کے بعد کا سبق دین بنی نوع انسان کے حوالے سے سدا آپس میں بھائی چارے اور محبت سے رہنے کا ہی درس دیا گیا ہے. ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلوین کی گئی ہے. سورۃ المائدہ، آیت کے حضرت موسٰی علیہ السلام کے لیے تورات میں حکم تھا:
”اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پیغمبر ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے، مگر اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں ہی کرتے رہے ہیں۔”
اس کی تفسیر مفتی تقی عثمانی صاحب کرتے ہیں
”مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے کیونکہ کوئی شخص قتل ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا احساس مٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا، اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی، نیز جب اس ذہنیت کا چلن عام ہوجائے تو تمام انسان غیر محفوظ ہوجاتے ہیں؛ لہذا قتل ناحق کا ارتکاب چاہے کسی کے خلاف کیا گیا ہو تمام انسانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ جرم ہم سب کے خلاف کیا گیا ہے. ”
مفسرین لکھتے ہیں کہ سابقہ انبیاء کا جو حکم باقاعدہ طور پر کسی آیت یا حدیث سے ساقط نہیں کی گیا وہ اس امت کے لیے بھی جاری رہے گا. اس طرح یہ حکم بھی اب تک اور تا قیامت جاری رہے گا. اس طرح کا ایک حکم سورۃ آل عمران آیت میں بھی ہے.
” جو لوگ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور انصاف کی تلقین کرنے والے لوگوں کو بھی قتل کرتے ہیں، ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔”یہ آیت ہر گز تحریک انصاف والوں کے لیے نہیں ہے. کیونکہ وہ انصاف کی تلقین نہیں کرتے. ہاں ان کی بچت پہلی مذکورہ آیت سے ضرور ہے.
پھر جب حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد مواخاۃ یعنی بھائی چارے کا نظام قائم کیا اور اس کے بعد بار بار حقوق العباد پر زور فرماتے رہے تو ہمارے لیے اپنے ذہن سے فیصلہ کرنا کہاں. باقی رہ جاتا ہے.
مسلہ اور کچھ نہیں، بس اندھی تقلید کا ہے. چاہے وہ مولانا خادم رضوی ہوں، مولانا فضل الرحمٰن ہوں، کوئی پیر فقیر ہو یا پھر سیاستدان.. ان کے غلط اعمال کی بھی ہم توجیحات دیتے رہتے ہیں. یہ بالکل نہیں سوچتے کہ اس کے اس غلط عمل کو اگر ہم صحیح ثابت کرنے کی کوشش کریں گے تو ہم بھی اس میں شاید برابر کے گناہ گار ٹھہرائے جائیں. بے شک اللّٰہ بہت رحیم ہے، کریم ہے لیکن عزیز بھی ہے ل، قوی بھی اور منتقم بھی. ہم جب غلط عمل کو صحیح ثابت کرنے لگ جائیں وہ بھی کسی اور کے تو. ہماری قسمت پھر کیا ہو گی، اللّٰہ ہی جانتا ہے. اس اندھی تقلید میں ہم بالکل نہیں سوچتے کہ اللّٰہ بھی کہیں ہے. اگر کسی پیر فقیر، مولانا یا عالم کی تقلید. کرتے ہیں اور وہ. شریعت کے مطابق بات کرتا ہے تو پھر تو اس کو وسیلہ مانتے ہوئے اللّٰہ کا حکم مانیں.. لیکن اگر وہ گمراہی کی بات کرتا ہے جیسے ‘کیا فرق. پڑتا ہے اگر مخلوط نظام تعلیم ہو جائے، کیا فرق پڑتا ہے اگر مرد غیر عورت سے ہاتھ ملا لے’ تو اس رہنما کی پیروی گناہ ہے. جو نہ خود مکمل مسلمان ہے اور نہ آپ کو اسلام کے اصولوں کی پیروی کی تعلیم دیتا ہے. نہ خود نماز پڑھتا ہے نہ کسی کو تلقین کرتا ہے. جب انھیں نماز کا کہا جائے تو کہتے ہیں ہمارا وضو مکہ میں اور نماز مدینہ میں ہوتی ہے. بندہ پوچھے کہ یہ معجزے کب سے رونما ہونے لگے. ہمارے نبی پاک صل اللّٰہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کرنے لگے تو خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ تو مجھے بہت پیارا ہے لیکن یہاں کے لوگ نہیں رہنے دیتے. پھر مدینہ سے بطور نبی ان کے لیے نماز کے وقت مدینہ جانا کیا ناممکن تھا؟ سب صحابہ کرام کی نماز ہمیشہ خانہ کعبہ کے سامنے ہوا کرتی. ہائے افسوس.. ان. پیروں کی اس طرح کی باتوں کی بھی غلط توجیح دی جاتی ہے. اور اگر ذرا قرآن و احادیث سے دلائل دیے جائیں تو مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں. خیر. اندھی. تقلید نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا. نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اب خدا کا قانون اپنے ہاتھ میں لیا جانے لگا. ڈانس کی محافل کو شریعت کے خلاف کہہ کر ایک استاد کو اڑا دیا. بے شک یہ محافل شریعت کے خلاف ہیں، لیکن اسی ادارے میں اگر. مخلوط نظام تعلیم ہے، کوئی استاد تنخواہ کو حلال نہیں کرتا (تو حرام کھاتا یے، شریعت کے خلاف)، ان جے خلاف بات کیوں نہیں کی جاتی. اس استاد کے خلاف پرنسپل کو درخواست دی جا سکتی تھی، عدالت سے اس محفل کو رکوانے کا سٹے آرڈر لیا جا سکتا تھا. دوسرے اساتذہ کو بیچ. میں لایا جا سکتا تھا. ویسے بھی بنیادی قصور میرے خیال میں تو پرنسپل صاحب یا انتظامیہ کمیٹی کا تھا نہ کہ انفرادی اس خاص استاد کا (اگر وہ منعقد کروا بھی رہے تھے). عین ممکن ہے کہ اس طالب علم کی کبھی اس اس استاد نے بے عزتی کی ہو، کبھی تلخ کلامی ہوئی ہو یا کوئی پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس استاد نے ان کو. کبھی متعلقہ مضمون میں نمبر بہت کم دیے ہوں جس کی وجہ سے اس کے کل نمبروں پر بہت فرق پڑا ہو.
خدارا پہلے مکمل مسلمان بنیں. اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے احکامات سمجھو، ان پر عمل کریں پھر آپ کو علم ہو گا کون سا قانون ساری حجتیں تمام کرنے کے بعد ہاتھ میں لیا جا سکتا ہے اور اپنا نام غازیان اور شہداء میں لکھوایا جا سکتا ہے. غازی یا شہید بننا کوئی مذاق نہیں. حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے ایک قول منسوب کیا جاتا ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ پڑھایا، اس استاد کو اختیار ہے کہ مجھے بازار میں بیچ کر اس کی قیمت وصول کر لے. اور ہم یہاں بزعمِ خود غازی اور شہید بننے کے چکر میں رہتے ہیں.